ماں کی جپھی اور مامتا
ماں کے موضوع پر میں نے بہت لکھا ہے۔ مامتا کی قدر اور قیمت کا صحیح اندازہ وہی کر سکتا ہے جو محروم ہے۔
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں
جو ماں سے محبت کرتا ہے اور حقیقی معنوں میں ماں کے مقام کو سمجھتا ہے اسے عورت کا مقام سمجھانے
کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ ایسا انسان عورت کا حق مارنے والوں میں سے نہیں ہوتا ہے بلکہ زیادہ دیتا ہے حق بھی اور احترام بھی، چاہے ماں ہو یا بیوی، بہن ہو یا بیٹی یا کوئی اور عورت۔
میرے دوست پومی کو یقین تھا کہ کسی بھی ماں سے اولاد کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی ہے، اس لئے ہر بیماری اور ہر تکلیف میں وہ ماں کا منتظر رہتا تھا، جانتے ہوئے بھی کہ دوسرے جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی۔ کبھی کھیلتے ہوئے گر جائے تو کچھ منٹ زمین پر بیٹھ کر سوچتا تھا کہ شاید تکلیف دیکھ کر ماں واپس آ ہی جائے کیونکہ اس وقت وہ بہت چھوٹا تھا اور اس نے سن رکھا تھا کہ مائیں کبھی مرتی نہیں ہیں، بس اسی انتظار میں اس نے بچپن گزار دیا تھا۔
وہ تاریک دن اور راتیں جب پومی کو نمونیا ہوا تھا، کبھی بخار کی تکلیف سے جاگتا تھا کبھی ماں کی
گود کی یاد میں، کہتا تھا بخار کی تپش کم اور ماں کی تڑپ زیادہ محسوس ہوتی تھی۔
پومی آج اکیلا بیٹھا مسکرا رہا تھا اور اپنی ایک ٹانگ کو خود ہی دبائے جا رہا تھا۔ مجھے حیرانی ہوئی، مسکرانے کی وجہ پوچھی کہ درد میں کون مسکراتا ہے، بولا درد کے ساتھ ہنسنا ہی تو کمال ہے۔ ارے فلسفہ نہ جھاڑو، میں نے مذاق کی ناکام کوشش کی۔ کہنے لگا، مرنے کے بعد پہلی دفعہ ماں خواب میں جپھی ڈالنے آئی تھی، وہ مصنوعی سا ہنسا اور پھر بولا، بھائی میں تو زندہ سمجھا تھا، جانے لگی تو روکنے کی خواہش تھی، پتا ہی نہیں چلا کہ وہ حقیقت نہیں بلکہ خواب تھا، ماں کو روکنے کی کوشش میں پیچھے بھاگا اور خود کو بستر سے ہی زمین پر گرا لیا اور
پھر آنکھ کھل گئی، لیکن ماں سے ملاقات میں یہ سب بہت اچھا لگا۔
پھر ایک حدیث سنانے لگا کہ ماں باپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھنا عبادت ہے۔ میرے دوست کی آنکھوں میں ایک درد تھا جو وہ ہمیشہ کی طرح چھپا رہا تھا لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ خوشی کے آنسو تھے، ایسی خوشی جو اب صرف خواب میں ہی ممکن تھی۔ بقول شاعر۔
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک بیٹے کی مردہ ماں سے بے تحاشا محبت کی ایسی تصاویر وائرل ہوئیں جنہیں دیکھنے والی ہر آنکھ اشکبار تھی، مجھے اس نوجوان میں پومی نظر آیا۔ الجزائر کے صوبے ادرار میں اسماعیل نامی نوجوان دو سال سے اپنی ماں کی قبر کے ساتھ ہی سوتا تھا اور قبرستان میں ہی رہ رہا تھا۔
اسماعیل کے لئے قبرستان گھر تھا اور والدہ کی قبر کے ساتھ والی جگہ بستر تھی۔ ماں کی موت کا غم دو سال بعد بھی تازہ تھا، ایسا لگتا تھا کہ ماں کی قبر کے علاوہ اسے کہیں اور سکون نہیں مل رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر تصاویر وائرل ہونے کے بعد نوجوان لڑکے کو مقامی انتظامیہ نے ہسپتال منتقل کیا کیونکہ قبرستان میں مستقل رہنے کی وجہ سے اس میں خوراک اور پانی کی کمی بتائی گئی۔
پومی کا ایک اور واقعہ مجھے یاد آ گیا ہے۔ گھر والوں نے کوکنگ آئل لینے بھیجا تو گھنٹہ گزر گیا، واپس نہیں آیا، کافی دیر بعد سودا گھر پہنچایا۔ میرے ساتھ ملاقات ہوئی تو میں نے دیر ہونے کی وجہ پوچھی، بولا، محلے کی دکانوں پر صرف ڈالڈا آئل دستیاب تھا لیکن ڈالڈا وہ لیتا نہیں تھا کیونکہ ٹیلی ویژن کے ایک اشتہار میں اس نے سنا تھا ”جہاں مامتا وہاں ڈالڈا“ ۔
پچھلے دنوں اداکار ”کوان“ کو آسکر ایوارڈ وصول کرتے ہوئے دیکھا گیا جو ایک جذباتی منظر تھا۔ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے جب انہیں اسٹیج پر بلایا گیا، کوان نے جذباتی انداز میں اپنی والدہ کو مخاطب کر کے بتایا کہ اب انہوں نے آسکر جیت لیا ہے۔ اداکار نے بتایا کہ ان کی والدہ کی عمر چوراسی سال ہے اور وہ انہیں دیکھ رہی ہیں۔
کراچی کے اولڈ ایج ہوم میں رہنے والی ایک بزرگ ماں کافی افسردہ نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پیدائش انڈیا میں ہوئی تھی اور پاکستان بننے کے بعد انہوں نے ہجرت کی۔ شوہر کی زندگی میں وہ خوش و خرم تھیں، لیکن شوہر کے انتقال کے بعد مشکلات شروع ہو گئیں جب بیٹی امریکا چلی گئی اور بیٹے نے مامتا کی قدر نہ کی۔ مجبوراً انہیں اولڈ ایج ہوم جانا پڑا۔
اسکول کے دنوں کی بات ہے، ہم سب دوست خوشی خوشی اپنی اپنی ماؤں سے دوستوں کی ملاقات کرواتے تھے۔ پومی ایسی گفتگو کے دوران غائب ہو جایا کرتا تھا۔ یہ ہماری دوستی کا ابتدائی دور تھا۔ ایک دن میں نے پومی سے وجہ پوچھی تو اسکول کی ایک سیڑھی پر بیٹھ کر اپنا سر دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ کر کہنے لگا، جانتے ہو، ماں کی محرومی کا غم ایسا ہے کہ نہ چھپا سکتا ہوں اور نہ بتا سکتا ہوں، اس لیے ایسے موقعے پر غائب ہونا بہتر سمجھتا ہوں۔ یہ بتا کر وہ آگے کی طرف چل پڑا اور میں نے گیلی زمین کو اپنے جوتوں سے رگڑ کر خشک کر دیا جیسے ہم بارش کے دنوں میں کیا کرتے تھے۔
ماں کے متعلق بات چیت کے دوران میرے دوست پومی کی خاموشی کی وجہ جاننے کے لئے ایک دوست نے اسکول سے واپسی پر پومی کا پیچھا کیا کہ اس کے گھر کا راستہ دیکھے اور کسی دن اس کی والدہ سے بھی ملاقات کرے۔ یہ بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تھیں لیکن سب اس کے بڑے غم سے لاعلم تھے، پومی کو پیچھا کرتے دوست کا اندازہ ہو گیا اور اس دن اس نے غلط گھر کی گھنٹی بجا دی اور دوست کو رخصت کر دیا۔ ہارا ہوا پومی اس دن کا فاتح تھا۔
بہت سے پومی اپنی ماؤں کی محبت اور یاد میں زندگی کے دن گزار کم اور کاٹ زیادہ رہے ہیں اور بہت ساری اولادیں ایسی نا قدری ہیں جو ماں باپ کو جیتے جی مار دیتی ہیں۔ جب ماں چلی جائے تو کاش کے علاوہ کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ماں کی موجودگی مشکلات کو کم کرتی ہے اور تکالیف کو جھیلنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ بہت کچھ بن مانگے ماں کی دعا سے ہی عطا ہو جاتا ہے۔ کوشش کریں کہ کاش کہنے کا وقت آنے سے پہلے ماں باپ کی جتنی خدمت کر سکتے ہیں کر لیں۔
- مرفی کا قانون اور کڈلن کا حل - 04/01/2025
- دانی ماں کہاں گئیں؟ - 15/07/2024
- جذبہ انسانیت پر کچھ باتیں - 31/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).