حقوق والدین کو نظر انداز نہ کریں
آج کا موضوع حقوق والدین کے ساتھ ساتھ وہ محبت ہے جو ماں اور باپ اولاد سے کرتے ہیں، غیر مشروط اور بے لوث۔ بہت سی اولادیں ایسی ہیں جو وقت پر قدر نہیں کرتی ہیں اور انہیں احساس اس وقت ہوتا ہے جب ماں باپ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، کچھ ایسی بھی ہیں جن کی بے حسی تاحیات قائم رہتی ہے اور وہ لوگ اکثر اوقات مکافات عمل کو بھی آزمائش گردانتے ہیں۔
ایک ماں کو میں جانتا ہوں، اسلام آباد کی رہائشی ہیں، بیرون ملک مقیم اکلوتے بیٹے کی یاد میں دن بھر محبت اور دکھ بھرے واٹس ایپ سٹیٹس لگا کر دل ہلکا کرتی ہیں، بیٹا ان کے بڑھاپے اور بیماری میں بھی پاکستان آنے پر ممکنہ دنیاوی اور مالی نقصانات کی فہرست بنا کر بہانے تراشنے میں مصروف رہتا ہے کہ ماں کی ترستی آنکھوں کو تسکین دینے میں اس کا روشن مستقبل تاریک نہ ہو جائے۔ انمول رشتے کی ناقدری کر کے وہ بعد کی تاریکی سے بے فکر اور بے پرواہ لگتا ہے۔
ایک باپ کی بیٹی سے بے تحاشا محبت کا واقعہ بھی سناتا چلوں۔ بیٹی نے یو ٹیوب چینل بنایا اور ویڈیوز اپلوڈ کیں جن میں موسیقی، موسیقار اور گلوکاروں کے بارے میں ویڈیوز بھی شامل تھیں، ابھی تک بیٹی کی نظر میں موسیقی جائز ہے۔ اس کے بزرگ والد جو نمازوں کے پابند اور تہجد گزار ہیں، عموماً گانوں سے پرہیز کرتے ہیں، صرف بیٹی کی محبت میں ویوز بڑھانے کے لئے وہ اپنے تمام موبائل فونز میں سوتے جاگتے موسیقی والی ویڈیوز بند آواز کے ساتھ لگا کر رکھتے ہیں۔ ہر اولاد کے لئے ایسی اندھی محبت کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا ہے، ماں باپ کبھی کبھار اولاد کی محبت میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ان کی نظر میں آخرت سے زیادہ اولاد کی دنیا اہم ہو جاتی ہے۔
میرا دوست پومی بتاتا ہے کہ بچپن میں جب وہ اپنے دادا کے ساتھ وقت گزارتا تھا تو اس کے والد سخت ناپسند کرتے تھے، اکثر اوقات رات ہوتے ہی وقت مقرر کر دیتے تھے کہ فلاں وقت تک وہ سونے کے لئے ان کے کمرے میں نہیں آیا تو کمرہ لاک کر دیا جائے گا اور ایسا ہی ہوتا تھا، وہ کمرے کے دروازے کے باہر اندھیری رات میں چھت پر کھڑا زیادہ تر نو بج کر ایک منٹ پر دستک دے رہا ہوتا تھا اور سوچتا تھا کہ اس کی والدہ حیات ہوتیں تو تاریکی کے خوف سے فوراً آزاد کرواتیں۔ دادا کے لئے والد کی ناپسندیدگی پومی کے لئے باعث تکلیف بھی تھی اور حیران کن بھی۔ وہ اکثر یہ بھی سوچتا تھا کہ کہیں مستقبل میں مکافات عمل میں نہ چاہتے ہوئے وہ کسی گناہ کا ذمہ دار نہ بن جائے۔ آج پومی کا کہنا ہے کہ وہ اب اپنے بچوں کو والدین کے حقوق پر نصیحتیں کر کے زبردستی ان کے دادا کے پاس بھیجتا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ بچے ان کے ساتھ وقت گزارنے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔ اللہ نے پومی کو گناہ سے بچاتے ہوئے مکافات عمل کا کچھ ایسا بندوبست کر رکھا ہے جو اسے بھی حیران کرتا ہے، اس کے بچے اپنی معصومیت میں بے گناہ ہیں اور پومی خدمت گزاری کی حد پر پہنچ کر اس گناہ سے محفوظ ہے، وہ بچوں کا دادا کے ساتھ لگاؤ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف رہتا ہے جس کا انہیں علم نہیں ہے اور وہ اس معاملے پر شدید اداس بھی ہوتا ہے کیونکہ حقوق والدین اس کے لئے آج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے ضروری وہ ماضی میں اپنے دادا کے لئے سمجھتا تھا۔
اب ہم والدین کے حقوق پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کریں گے اور یہ بھی دیکھیں گے کہ محبت، خدمت، صلہ رحمی، حسن سلوک کے ساتھ ساتھ والدین کی اصلاح کی کوشش بھی حقوق والدین میں شامل ہے یا یہ نا فرمانی میں شمار ہوتی ہے۔
والدین کے ساتھ نرمی سے پیش آنا اور بے احترامی سے اجتناب کرنا اولاد پر لازم ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت 215 میں فرمایا۔
آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں، کہہ دو جو مال بھی تم خرچ کرو وہ ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں
کا حق ہے، اور جو نیکی تم کرتے ہو سو بے شک اللہ خوب جانتا ہے
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ والدین پر خرچ کرنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہر اولاد پر واجب ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ اس اہم ترین حق کی ادائیگی اس طریقے سے کی جائے کہ ماں باپ کو اپنی بنیادی ضروریات بتانی نہ پڑیں اور ان کے کہنے سے پہلے پوری کر دی جائیں۔
اللہ تعالٰی نے سورہ لقمان کی چودھویں آیت میں والدین کے ساتھ نیکی کا حکم اور اللہ کے ساتھ ساتھ ماں باپ کا بھی شکر گزار ہونے کو لازم قرار دیتے ہوئے اسی سورت کی پندرھویں آیت میں فرمایا۔
اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا
ماں باپ کی اطاعت کی اس وقت اجازت نہیں ہے جب وہ اللہ کی نافرمانی کا سبب بنے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
"مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔”
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ایک یا ماں اور باپ دونوں کسی چھوٹے یا بڑے گناہ میں مبتلا ہوں، خود کو صحیح سمجھیں اور انہیں اپنے غلط ہونے کا احساس ہی نہ ہو تو اولاد کی کیا ذمہ داری ہے۔ سورة الإسراء کی آیت نمبر 24 اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔
اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما
اس دعا کو والدین کی موت کے بعد کے لئے مختص نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ ہمارے ہاں عام ہے۔ ماں باپ کی زندگی میں محبت، احترام اور خدمت کے ساتھ ان کے لئے اللہ کا رحم اور ہدایت مانگتے رہنا چاہئے۔ اگر انہیں کسی برائی میں مبتلا دیکھیں تو ادب کے ساتھ نشاندہی کردیں تاکہ اس دنیا میں ہی ان کی ناصرف تصحیح ہو سکے بلکہ توبہ اور تلافی کا موقع بھی مل جائے، تاکہ آخرت کی پریشانی نسبتاً کم رہے۔
ماں باپ چھاؤں دینے والی وہ چھتری ہوتے ہیں کہ دھوپ کی تپش کا پتا ہی اس وقت چلتا ہے جب وہ نہ رہیں، ان کی قدر کریں۔
- مرفی کا قانون اور کڈلن کا حل - 04/01/2025
- دانی ماں کہاں گئیں؟ - 15/07/2024
- جذبہ انسانیت پر کچھ باتیں - 31/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).