غیر محفوظ نسلیں
بات آج اداس نہیں غیر محفوظ نسلوں کی بارے میں ہیں جو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں اور خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سوچئیے خوف ایک بچے کی ڈیویلپمنٹ اور گروتھ کے لیے کتنا نقصان دہ ہوتا ہے اس کا تصور کرنا بہت مشکل ہے۔ پاکستان میں روزانہ بارہ سے پندرہ بچوں کے خلاف جنسی زیادتیوں کے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔ یہ وہ تعداد ہے جو کہ تھانوں تک پہنچتی ہے اور اخبار میں شائع ہو کر ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہے مگر تعداد اس سی بھی کئی گناہ زیادہ ہیں کیونکہ والدین بدنامی کے ڈر سے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
بچوں کے خلاف جنسی زیادتیوں کا ڈیٹا ایک مسئلہ ہے، ہمیں صرف وہی فیکس ڈیٹا ملتا ہے۔ جو اس حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ”ساحل“ کے ذریعے سامنے آتا ہے اور زیادہ تر اسی کا حوالہ دیا جاتا ہے جبکہ ان کا ماخذ بھی اخبارات کی خبریں ہی ہیں یا پھر سوشل میڈیا تاہم سوشل میڈیا پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ساحل کی ہی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال یعنی کہ دو ہزار 23 میں اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) ، جموں و کشمیر (اے جے کے ) اور گلگت بلتستان (جی بی) سمیت چاروں صوبوں سے مجموعی طور پر 4213 بچوں سے ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
بچوں کے ساتھ مختلف قسم کی زیادتیوں کے کل 4213 واقعات رپورٹ ہے۔ جس میں بچوں کا جنسی استحصال، اغوا کے کیسز، گمشدہ بچوں کے کیسز اور بچوں کی شادیاں شامل ہیں۔ ان میں 53 % لڑکیاں اور 47 % لڑکے ہیں۔ 4213 میں سے 75 % کیسز پنجاب سے ہیں۔ 137۔ سندھ، 7 %۔ اسلام آباد، 3 فیصد۔ کے پی کے اور 2 فیصد بلوچستان سے شامل ہیں۔ 2,021 واقعات میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 61 واقعات میں بچوں کو زیادتی کے بعد قتل بھی کیا گیا۔
مزید براں، ایک حیران کن اندازے کے مطابق 1127 کیسز میں بچوں سے زیادتی کرنے والے رشتہ دار یا جاننے والے تھے۔ جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ کل رپورٹ ہونے والے واقعات میں سے 91 فیصد پولیس کے پاس رجسٹرڈ تھے۔ عالمی خبر رساں ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے بعد ایک بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے اس حوالے سے دیکھیں تو چوبیس گھنٹوں میں بارہ بچے بنتے ہیں۔ جن کی شخصیت جس قسم کی توڑ پھوڑ کا شکار ہوتی ہے، اس کی بحالی کے لیے جذباتی علاج کے لیے ہمارے پاس 500 سے بھی کم ماہر نفسیات یا سائیکاٹرسٹ ہیں۔
ریاست اس حوالے سے اپنا معقول کردار ادا کرنے سے قاصر ہے شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بچے ووٹ نہیں دیتے۔ پاکستان میں بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کو عدالتی سطح پر کافی تحفظ مل جاتا ہے۔ سرگودھا کے ساجد امین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بچوں کے خلاف جنسی زیادتی ملوث مجرم کی، اس کیس میں ضمانت نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ 2017 میں ساجد کو ناروے کے سفارت خانے کی شکایت پر گرفتار کیا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس سے چائلڈ پورنو گرافی کی 650,000 سے زیادہ تصاویر اور ویڈیوز برآمد ہوئی تھیں۔ اسے جسٹس فاروق حیدر نے 20 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے پر رہا کیا۔ ایک اور جنسی مجرم سہیل ایاز کو برطانیہ میں پیڈوفائل کا مجرم قرار دے کر گرفتار کیا گیا اور اسے کئی سال قید کی سزا سنائی گئی اور سزا کے ختم ہونے پر اس برطانیہ سے بے دخل کر دیا گرفتاری سے قبل وہ برطانیہ میں سیو دی چلڈرن میں کام کر رہا تھا، اسے اٹالین پولیس کی فراہم کردہ معلومات پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ایاز نے اس پیڈو فائل کو رومانیہ کے پندرہ بچوں کا ڈیٹا فراہم کیا تھا جن کو ایکسپلائٹ کیا جا سکتا تھا، یہ اسکینڈل اور ڈیٹا اسی وجہ سے منظر عام پر آیا۔ پاکستان میں گرفتاری کے وقت اس سے بچوں کی 397 فحش تصاویر اور دیگر 112 ویڈیو کلپس برامد کیے گئے۔ ایاز راولپنڈی کی ایک ایلیٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں گرفتاری کے وقت وہ کے پی کے حکومت کے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ایاز کو یوکے سے ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا اور مگر پاکستان میں اسے محکمہ ترقیات میں کنسلٹنٹ کے طور پر رکھا گیا۔
پاکستان میں اس کا شکار زیادہ تر غریب بچے ہوتے تھے جیسے کچرا اٹھانے والے اور جمع کرنے والے اور چائے والے لڑکے۔ وہ بچوں کو کام کا لالچ دے کر اپنے گھر لے جاتا جہاں وہ بچوں کو نشہ آور اشیاء خاص طور پر ہیروئن اور آئس کے نشے کا عادی بنا کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی ویڈیو اور تصاویر بنا لیا کرتا تھا، ایف آئی اے نے یہ سارا ڈیٹا اس سے برآمد کیا تھا۔ مجموعی طور پر 10 سے 16 فیصد آبادی ان مسائل سے دوچار ہے جبکہ ملک میں چار نفسیاتی ہسپتال دستیاب ہیں۔
بہت کم ہیلپ لائنیں دستیاب ہیں اور جو ہیں وہ غیر سرکاری تنظیمیں چلا رہی ہیں۔ دعا، فاطمہ، رضوانہ، زینب اور بہت سے متاثر بچے جن کے کیسز نے ملک کو ہلایا ضرور مگر وہ سب وقتی تھا۔ حکومتی سطح پر شور اٹھا، قوانین بنے مگر عمل درآمد ندارد ہے۔ سماجی کارکن اور اداکارہ نادیہ جمیل نے اپنے ایک انٹرویو میں ایک شکار کے طور پر اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 48 سال کی تھیں جب انہوں نے وہ سب سیکھا جو ماضی کے اس بھیانک صدمے کو بھلانے اور انہیں مکمل طور پر ٹھیک ہونے میں مدد فراہم کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ بہت مشکل تھا مگر انہیں اب اس فیز سے ہر صورت باہر نکلنا ہی تھا جو انہیں مسلسل کمزور کیے جا رہا تھا۔ ناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بچے غیر محفوظ تصور کیے جا رہے ہیں، ایک بار میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اس کے کزن کو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ہم نے پولیس، میڈیکل افسر کو رشوت دی اور حتیٰ کہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے متاثرہ بچے کے بھائی کو منہ مانگا معاوضہ دیا گیا۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ ابھی تک اپنے اس کزن سے رابطے میں ہیں، اس نے جواب دیا ہاں، تب میں نے اسے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بچوں کو اس شوقین کزن سے دور رکھیں تو وہ غصے میں اٹھ کر چلے گئے۔ دیکھیں والدین کے ساتھ ساتھ یہ ریاست اور سماج کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ ہر بچے کی حفاظت کرے، تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ بچوں کی حفاظت بھی سب کی ذمہ داری ہے۔ جس نبھائے بغیر اب اس ظلم کا ازالہ نہیں ہو سکتا کیونکہ بچے مسلسل جنسی زیادتیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
پاکستان کا ایک عام بچہ ناصرف اچھی تعلیم، بنیادی صحت کی سہولیات اور کھیلوں کی سہولت سے محروم ہے بلکہ پیڈوفیلیا کے نشانے پر بھی ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک ایسا مسئلہ ہے جو کسی عفریت کی طرح پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے اور اسے روکنے کے تمام حربے ناکامی سے دوچار ہو رہے ہیں کیونکہ قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے سے مجرم شیر بنے ہوئے ہیں۔ بات پرانی سہی مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب 2015 میں قصور شہر میں سینکڑوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی خبریں منظر عام پر آئیں تو کہرام مچ گیا کیونکہ اس دوران ان کی ویڈیوز بھی ریکارڈ کی گئی تھیں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر معاملہ مسلسل اٹھایا گیا مگر حکومت سب اچھا ہے اچھا ہے کی گردان دہراتی رہی۔ جب کہ اسی قصور شہر میں مسلسل بچوں کے ساتھ استحصال جاری رہا۔ مشاہدہ ہے کہ جب کوئی ایسا واقعہ آتا ہے تو حکومت سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس ہی لئے جرائم کرنے والو کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں اور جن پر ظلم ہوا ہوتا ہے وہ لوگ چپ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اب بچوں کے حوالے سے موثر قانون سازی کی جائے بلکہ پہلے سے موجود قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے۔ جبکہ والدین پر بھی لازم ہے کہ اگر خدانخواستہ ان کا بچہ / بچی کسی ایسے غیر انسانی حادثہ کا شکار ہو گئے ہیں تو وہ اس معاملے کو دبانے کی بجائے سامنے لے کر آئیں تاکہ مجرم کی شناخت ہو سکے اور باقی بچوں کو اس کے شر اور درندگی سے بچایا جا سکے۔ چلیں آپ اگر آپ قانون سازی نہیں کر سکتے یا پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد بھی نہیں کروانے کی پوزیشن میں تو پھر ایک کام کریں جو کہ کئی جدید ممالک میں کیا جاتا ہے۔
نیشنل سیکس افینڈر پبلک رجسٹر قائم کیے ہوئے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر کمپیوٹر پر ان لائن ریکارڈ ہے۔ امریکہ میں تو عوام کی براہ راست رسائی ہے تاہم برطانیہ میں پبلک انسٹیٹیوشنز کو رسائی دی جاتی ہے کہ وہ اس ریکارڈ کو چیک کر سکیں۔ تاکہ سکولز، کالجز مدارس یا جس بھی علاقے میں رہ رہے ہوں ان کو آئیڈیا ہوتا ہے کہ یہاں پہ کون کون سے سیکس افنٹرز ہیں یا آپ کو نام اور شناختی کارڈ نمبر ڈالنے سے پتہ چل سکے کہ آیا متعلقہ شخص کا پہلے سے کسی چائلڈ سیکشوئل ابیوس کے الزام میں کوئی ڈیٹا ہے یا نہیں۔
یا وہ اس میں مجرم ٹھہرایا گیا ہے تاکہ انہیں بچوں والے مقامات سے دور رکھا جا سکے۔ پاکستان میں بھی بچوں کے خلاف جنسی جرائم کو روکنے کے لیے ایسے افینڈر رجسٹر بنائے جائیں اور انہیں پبلک ڈومین میں دیا جائے، سکولز کالجز کو رسائی دی جائے تاکہ کوئی استاد یا کسی دیگر ملازم کے روپ میں بھی وہاں نہ جا سکے۔ یہی کام مدارس میں ہونا چاہیے۔ دنیا کے بہت سارے مہذب معاشروں میں اس طرح کے رجسٹر موجود ہیں اور ان تک عوام کو مکمل طور پر رسائی حاصل ہوتی ہے۔ جس وجہ سے سکول کالجز اور مختلف انسٹیٹیوشنز کو کسی بھی شخص کے بارے میں متعلقہ ڈیٹا مل جاتا ہے کہ آیا یہ شخص بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث رہا ہے اور اتنے عرصے کا سزا یافتہ ہے کیونکہ یہ تصور بھی کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لت ہے جو لگ جائے تو بمشکل جاتی ہے۔
- ریاست بمقابلہ شگفتہ کرن اور بلاسفیمی کے گروہ - 15/10/2024
- نیلا آسمان، فسادات کے لیے موزوں وقت - 19/09/2024
- جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کا عالمی دن - 31/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).