محمد علی: مسجد سے فلم سٹوڈیوز تک


Loading


فصیل میں مقید ملتان شہر میں داخل ہونے کو چھ دروازے ہیں۔ ان میں ایک لوہاری دروازہ بھی ہے۔ وجہ ہائے تسمیہ اس دروازے کی دو بتائی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کے اندر داخل ہوتے ہی آہن گروں کی بستی تھی جہاں دن رات لوہا ڈھالا جاتا تھا، چناں چہ لوہا کی نسبت سے اسے لوہاری گیٹ کہا جانے لگا۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ لاہور کو جانے والا راستہ اسی دروازے کی دہلیز سے پھوٹتا تھا۔ بہ ہر حال جو بھی وجہ رہی ہو، اب یہ دروازہ تو موجود نہیں تاہم یہیں سے والڈ سٹی کی بلندی شروع ہوتی ہے کہ قدیم شہر اونچائی پر قائم ہے۔ دائیں جانب کو فصیل کے اندر اندر بنی النگ ( کم چوڑائی کی ایک سڑک) ہے جو فصیل کے اندر چھ دروازوں کو اک دوسرے سے ملاتی ہے۔ بائیں جانب وہ سڑک ہے جو حمام بازار سے گزرتی ہوئی ہنوں کا چھجہ، گڑ منڈی اور پھر چوک بازار کو جاتی ہے۔ ہنوں کا چھجا، کسی زمانے میں وہاں موجود ہنومان مندر کے حوالے سے موسوم ہے۔ گڑ منڈی میں فقط گڑ شکر ہی فروخت نہ ہوتی ہوگی۔ اگلے وقتوں میں غلہ منڈی کو گڑ منڈی کہا جاتا تھا۔

اسی گڑ منڈی میں ایک جامعہ مسجد تھی، جو اب بھی موجود ہے۔ یہاں 1943 ءمیں اتر پردیش کے شہر رام پور سے آ کر سید مرشد علی نام کے ایک نیک صفت شخص امام ہوئے۔ ان کے چار بچے تھے۔ سب سے چھوٹا بیٹا محمد علی فقط تین ہی برس کا تھا جب مرشد علی کی اہلیہ چل بسیں۔ انہوں نے اس خیال سے پھر کبھی شادی نہ کی کہ سوتیلی ماں جانے بچوں سے کیسا سلوک کرے۔ سید مرشد علی روایتی مذہبی سوچ کے مالک تھے، سو انہوں نے اپنے بچوں کو گھر میں عربی کا قاری اور اردو پڑھانے کے ساتھ دینی مدارس کی واجبی تعلیم تک محدود رکھا۔ آج کی نشست میں ہماری گفت گو کا موضوع سید مرشد علی کا سب سے چھوٹا صاحب زادہ محمد علی رہے گا۔ وہ محمد علی جو فقط تین برس کی عمر میں ماں کے سایہ ¿ عاطفت سے محروم ہو گیا تھا۔ محمد علی 19 اپریل 1931 ءکو پیدا ہوا۔ گویا جب یہ خاندان رام پور سے نقل مکانی کر کے 1943 ءمیں ملتان آیا تو محمد علی کی عمر بارہ برس تھی۔ وہ باقاعدہ کسی سکول میں داخل تو نہ ہوا تھا تاہم عربی ’فارسی پڑھتا اور اردو لکھنا بخوبی جانتا تھا۔

ملتان آ کر بھی کم و بیش پانچ برس وہ مدارس سے منسلک رہا۔ یہی وہ پانچ برس ہیں جن کے دوران سید مرشد علی کی سوچ نے تبدیلی کا سفر کیا۔ انہیں یہ احساس ہوا کہ اگر ان کے صاحب زادوں نے آسودہ زندگی گزارنی ہے تو دنیاوی تعلیم بھی حاصل کرنا ہوگی۔ چند سیاسی علما کو چھوڑ دیجئے، مساجد کے امام آج بھی عسرت میں گزر بسر کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے کے زمانے کا اندازہ لگائیے جب کاروبار اور تجارت ہندؤں کے غلبے میں تھے اور مسلمان غریب و پس ماندہ۔ تب ایک امام مسجد کی گزربسر کیسے تنگ دستی میں ہوتی ہوگی۔ 1949 ءمیں سید مرشد علی نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے محمد علی کو اسکول داخل کروا دیا۔ گھر میں پڑھ کر محمد علی نے اس قدر علمی استعداد بہ ہر حال اپنے اندر پیدا کرلی تھی کہ وہ براہ راست ساتویں جماعت میں داخل ہوا۔ اس کا داخلہ اسلامیہ ہائی سکول ملتان میں کروایا گیا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے بزرگوں نے ملتان میں انجمن اسلامیہ قائم کی جس کے تحت بچوں اور بچیوں کے کئی سکول اور دو کالج قائم کیے گئے تھے۔ طلبا کے لئے تین سکول تھے۔ اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ، اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ اور اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ محمد علی کو ان تینوں میں سے کون سے اسلامیہ ہائی سکول میں داخل کروایا گیا تھا۔ گڑ منڈی سے تینوں سکولوں کا فاصلہ کم و بیش ایک سا ہے۔

اسلامیہ ہائی سکول میں محمد علی صرف ایک برس تک متعلم رہا۔ اگلے برس وہ اپنی ذہانت کی بنا پر ملت ہائی سکول ملتان میں نویں جماعت کا طالب علم بن گیا۔ 1952 ءمیں محمد علی نے ملت سکول سے میٹرک کیا۔ اب اس کی منزل کالج تھی۔ چوک کچہری کے پاس سرخ رنگ کی وہ عمارت جس کے گوشوں پر چھوٹے چھوٹے مینارے بنے ہوئے ہیں، آج بھی موجود ہے۔ یہ ایمرسن کالج تھا جسے 1920 ءمیں پنجاب کے گورنر سر ہربرٹ ولیم ایمرسن نے قائم کیا تھا۔ ایمرسن کالج کو مدت ہوئی اس عمارت سے بے دخل کر دیا گیا ہے اور یہاں طالبات کا کالج قائم کیا گیا جو اب خواتین یونیورسٹی بن چکا ہے۔ ایمرسن کالج بوسن روڈ پر یونیورسٹی کا درجہ پا چکا ہے۔ بہرحال محمد علی نے ایمرسن کالج میں داخلہ لیا اور یہاں سے انٹر پاس کیا۔ پاکستان بن چکا تھا، سید مرشد علی کے بہت سے رشتہ دار رام پور سے ہجرت کر کے حیدرآباد (سندھ) میں قیام پذیر تھے۔ چناں چہ ادھر محمد علی نے انٹر پاس کیا، ادھر مرشد علی نے ملتان سے اپنی رہائش لپیٹ ڈالی اور حیدرآباد میں جا بسرام کیا۔ یہ 1955 ءکا سن تھا۔

نئی مملکت تھی، ذرائع روزگار کی کمی تھی۔ مرشد علی کے بیٹے بھی روزگار کی تلاش میں تھے مگر کوئی سبب نہ بنتا تھا۔ اسی برس 1955 ءمیں 17۔ اگست کو ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا آغاز ہوا۔ ارشاد علی کو ریڈیو حیدرآباد میں ملازمت مل گئی۔ محمد علی ایک دفتر میں کلرک بھرتی ہو کر 88 روپے ماہ وار پانے لگے۔ ایک روز چوبیس سالہ خوب رو سید زادہ محمد علی کسی کام سے بڑے بھائی کے پاس ریڈیو گیا۔ ریڈیو کے پروڈیوسر ایم اسلم نے محمد علی کی آواز سنی تو ان کے کان کھڑے ہوئے۔ نیا نیا سٹیشن تھا، ٹیلنٹ کی ضرورت تھی اور پھر محمد علی کی آواز ریڈیو کے لئے بے حد موزوں تھی۔ ایم اسلم نے محمد علی سے ”آوازیں“ اور ”دھڑکن“ نامی ریڈیو ڈراموں میں صداکاری کروائی۔ یوں محمد علی آواز کی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔

ان دنوں دارالحکومت کراچی میں تھا۔ زیڈ اے بخاری ریڈیو پاکستان کے سربراہ تھے۔ 1956 ءکا سن تھا جب ایک دن بخاری صاحب نے اپنے دفتر کے ریڈیو سیٹ پر ریڈیو حیدرآباد کے سٹوڈیو سے اٹھ کر ہواؤں کے دوش پر سفر کر کے آتی محمد علی کی آواز سنی۔ یہ آواز ان کو بھا گئی۔ انہوں نے محمد علی کو کراچی آ کر ریڈیو کے لئے کام کرنے کی پیش کش کی جو محمد علی نے قبول کرلی۔ کراچی بڑا سٹیشن تھا، یہاں محمد علی کو بہترین مواقع میسر آئے۔ سید زادہ ہونے کے ناتے سید زیڈ اے بخاری محمد علی پر خصوصی نظر کرم بھی رکھتے تھے۔ سو محمد علی کو سیکھنے کے ساتھ ساتھ اظہار کے مواقع بھی دستیاب ہوئے۔

اس دور میں لاہور اور کراچی دونوں ہی فلم انڈسٹری کا مرکز تھے۔ 1960 ءکا سن تھا، محمد علی ناظم آباد میں رہا کرتے تھے اور روزانہ پیدل ریڈیو سٹیشن جاتے۔ ان کے پڑوس میں اداکار آزاد کا گھر تھا جو قائداعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور بھی رہ چکے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ محمد علی دراز قد جوان رعنا ہے، فلم کے لئے موزوں رہے گا۔ آزاد کے توسط سے محمد علی کو ”آگ اور خون“ نامی فلم میں رول مل گیا مگر یہ فلم ریلیز نہ ہو سکی۔ زیڈ اے بخاری کو پتہ چلا کہ محمد علی نے فلم میں کام کیا ہے تو کہنے لگے ”میاں اگر فلم نگری کے باسی بننا چاہتے ہو تو ہم سے کہا ہوتا“ ۔ ان دنوں نام ور مصنف اور شاعر فضل کریم احمد فضلی جو بھارت میں چند فلموں کا سکرپٹ اور گیت لکھ چکے تھے، اپنی فلم ”چراغ جلتا رہا“ شروع کرنے جا رہے تھے۔ اس فلم میں ریڈیو کے دو لوگ فلم کے پردے پر متعارف ہوئے۔ ایک محمد علی اور دوسرا طلعت حسین۔ ان کے علاوہ ناظم آباد کی ایک خوب رو لڑکی شاہین جو بعد میں زیبا کے نام سے ایک معروف فلمی ستارہ بنی، اداکار کمال بھی اسی فلم سے متعارف ہوئے۔ چراغ جلتا رہا کے ہیرو عارف نامی نوجوان تھے جو اس فلم کے بعد کبھی نظر نہ آئے۔ چراغ جلتا رہا 18 مارچ 1962ء کو عید الفطر کے دن ریلیز ہوئی۔ کراچی کے نشاط سینما میں مادر ملت فاطمہ جناح نے اس کا افتتاح کیا۔

” چراغ جلتا رہا“ میں محمد علی کا مرکزی کردار تو نہ تھا لیکن وہ فلمی حلقوں کی نظر میں آ گئے۔ بطور ہیرو انہیں اسی برس فلم ”شرارت“ مل گئی۔ ”شرارت“ مئی 1963ء میں عید الضحٰی کے روز ریلیز ہوئی۔ یہاں سے 32 سالہ محمد علی فلم سٹار بن گئے۔ محمد علی کو زندگی نے سبھی مواقع قدرے تاخیر سے دیے۔ سکول کا منہ محمد علی نے اٹھارہ برس کی عمر میں دیکھا اور فلم کے ہیرو بھی وہ بتیس سال کی عمر میں بن پائے۔ عمر شریف اور دیگر مزاحیہ اداکار، محمد علی نقل مکانی کرتے ہوئے مذاق اڑایا کرتے تھے کہ پکی عمر کا ہیرو جب فلم کے پردے پر ہاتھ میں پرچہ لہراتے ہوئے ماں کے گلے لگ کر کہتا ہے ”ماں میں نے گریجوایشن کر لی“ تو عجیب سے لگتا ہے۔ اچھے لوگو! جو ہیرو اٹھارہ برس کی عمر میں سکول داخل ہو گا وہ گریجوایشن پکی عمر میں ہی کرپائے گا نا۔

خیر! محمد علی نے اگلے تیس برس پاکستان فلم انڈسٹری پر راج کیا۔ وہ شہنشاہ جذبات کہلائے۔ 1969 ءمیں ایک فلم ریلیز ہوئی ”تم ملے پیار ملا“ ۔ یہ فلم ایشین فلمز کے بینر تلے بنی اور مصنف ذاکر حسین نے ایک امریکی ناول کو بنیاد بنا کر اس کا سکرپٹ لکھا۔ اس فلم کی شوٹنگ کراچی میں جاری تھی۔ محمد علی اور زیبا مرکزی کرداروں میں کاسٹ کیے گئے تھے۔ اسی فلم کی شوٹنگ کے دوران ناظم آباد کراچی میں محمد علی اور زیبا کا نکاح ہو گیا۔ ویسے شنید ہے کہ شاہین، جو زیبا بننے کے مراحل میں تھی کے تیر نظر سے محمد علی اپنی پہلی فلم چراغ جلتا رہا میں ہی گھائل ہو گئے تھے۔ گویا پہلی نظر کا پیار مگر یہ فوری کامیاب نہ ہوسکا۔ اوپر عرض کیا نا کہ قدرت نے سبھی کچھ دیا مگر قدرے تاخیر سے۔ ہوا یوں کہ زیبا کا حسن بلاخیز ایک اور فلمی ہیرو کو بھی گھائل کرچکا تھا۔ یہ لالہ سدھیر تھے۔

” تم ملے پیار ملا“ میں زیبا چند برس کی غیر حاضری کے بعد کاسٹ ہوئی تھیں۔ غیر حاضری کی وجہ لالہ سدھیر کے ساتھ زیبا کا نکاح ہوجانا تھا۔ 1964 ءمیں شاہ زمان آفریدی معروف بہ لالہ سدھیر نے میدان مار لیا اور ان کی زیبا سے شادی ہو گئی۔ سدھیر پٹھان تھے سو شادی کر کے زیبا کو گھر بٹھا دیا۔ فن کی شیدائی زیبا دو برس ہی یہ قید برداشت کر پائیں۔ 1966ء میں علیحدگی ہو گئی۔ تاہم محمد علی نے ستمبر 1969 ءمیں جو زیبا کا ہاتھ تھاما تو پھر 19 مارچ 2006ء کو موت نے یہ ہاتھ جدا کیا۔

محمد علی اور ندیم شاید دو ہی ایسے ہیرو پاکستان فلم انڈسٹری میں آئے جن کا کوئی سکینڈل نہ بنا۔ محمد علی تو اس حوالے سے بہت ہی زیادہ محتاط اور شریف خصلت بتائے جاتے ہیں۔ ان کی ہیروئینیں (ماسوائے زیبا) شوٹنگ سے قبل سیٹ پر انہیں علی بھائی کہہ پر مخاطب کرتی تھیں۔ محمد علی کا دستر خواں بے حد وسیع بتایا جاتا ہے۔ جس روز ان کی شوٹنگ ہوتی، تمام سٹاف اور ٹیکنیشنز کو دوپہر کا کھانا ان کی طرف سے دیا جاتا۔ ایکسٹرا کردار ادا کرنے والے آرٹسٹوں کی امداد، ان کی بیٹیوں کی شادیاں، دیگر مسائل ہر طرح سے وہ مدد کرنے میں پیش پیش رہتے۔ علی زیب فاؤنڈیشن کے تحت انہوں نے تھیلیسیمیا کے بچوں کے لئے کئی ہسپتال قائم کیے۔ اداکار اور فلم پروڈیوسر زینت بیگم کا واقعہ کسی نے لکھا ہے جو زینت بیگم نے خود سنایا۔ حالات کی گردش نے ان کا دیوالیہ نکال دیا تو وہ محمد علی کے پاس آئیں۔ یہ ستر کی دہائی کا وسط تھا، محمد علی کا نام فلم کی کامیابی کی ضمانت بن چکا تھا۔ زینت بیگم نے کہا کہ میری فلم میں کام کر دیں، اگر فلم کامیاب ہوئی تو معاوضہ پیش کردوں گی وگرنہ ایک بہن کی مدد ہو جائے گی۔ محمد علی نے زینت بیگم کی فلم ”بن بادل برسات“ میں بلامعاوضہ کام کیا۔ یہ فلم 1975ء میں ریلیز ہوئی اور سپرہٹ رہی۔ زینت بیگم بتاتی ہیں کہ فلم کامیاب ہونے کے بعد وہ معاوضہ لے کر محمد علی کے گھر گئیں تو محمد علی نے یہ کہہ کر رقم لینے سے انکار کر دیا کہ ”بھلا بھائی بھی کبھی بہنوں سے پیسے لیتے ہیں“ ۔ بلاشبہ محمد علی کا نام صرف پاکستان فلم انڈسٹری کے صاحب اسلوب اداکار کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ انسان دوست شخصیت کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا۔

19 مارچ 2006 ءکو جب عمر عزیز کے پچھتر برس پورے ہونے میں فقط ایک ہی ماہ باقی تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ روشن ترین ستارہ حرکت قلب بند ہونے سے غروب ہو گیا۔ وصیت کے مطابق انہیں حضرت میاں میر کی درگاہ کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments