محبت کی بارش اور دوستی کی قوس قزح


Loading

پاکستان میں ایک ماہ کے قیام کے دوران میں اپنے ادبی دوستوں کی محبت کی بارش میں اندر تک بھیگ گیا۔ اس دفعہ وہ بارش موسلا دھار بھی تھی اور بارش کے بعد دوستی کی قوس قزح کے سات رنگ بھی چاروں طرف بکھر گئے تھے۔

دوستی کی قوس قزح کا پہلا رنگ اس وقت دکھائی دیا جب معروف افسانہ نگار فرحت پروین نے اپنے ہاں مجھے اور میری پیاری بہن عنبرین کوثر کو ایک شام پر تکلف چائے پر مدعو کیا اور اپنی ادیبہ ہمسائی بینا گوندی سے ملوایا۔ اس شام چائے کے دوران ہم نے نفسیات اور روحانیات کے پرپیچ رشتوں کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ سلجھنے کی بجائے اور بھی الجھتی رہیں اور ہم ان الجھی گتھیوں کو وہیں چھوڑ کر گھر چل دیے۔

دوستی کی قوس قزح کا دوسرا رنگ دیکھنے اور اپنے نوجوان دوست ایاز مورس سے ملنے میں کراچی چلا گیا۔ کراچی میں ایاز مورس نے میرے درجن بھر انٹرویو ریکارڈ کروائے اور ان کا عنوان رکھا

زندگی کی رنگ
ڈاکٹر سہیل کے سنگ

کراچی میں ادیب اور ایڈیٹر اقبال نظر سے بھی ملاقات ہوئی اور انہوں نے اپنے سات سے پچاس صفحات کے معتبر رسالے۔ کولاژ۔ کا ادبی تحفہ کینیڈا میں مقیم اپنے عزیز دوست رفیق سلطان کے لیے دیا۔

اقبال نظر کی گفتگو ادبی چاشنی سے لبریز تھی۔ ایک شعر اب بھی یاد ہے
ہوائے شب تجھے آئندگاں سے ملنا ہے
سو تیرے پاس امانت ہے گفتگو میری

کراچی میں آرٹسٹ شاہد رسام سے بھی ملاقات ہوئی جو ہمیں فنکار اور سیاسی مزاح نگار انور مقصود سے ملوانے لے گئے۔ انور مقصود سے ملاقات دلچسپ بھی تھی اور دلفگار بھی۔ فرمانے لگے۔ مجھے ایک ادبی محفل میں بلایا گیا اور مجھ سے کہا گیا سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں۔ چنانچہ میں نے کہا

یہ ادبی محفل منیر نیازی کی یاد میں سجائی گئی ہے۔ میں ہرگز سیاسی گفتگو نہیں کروں گا۔ اس لیے میں یا تو منیر کی باتیں کروں گا اور یا نیازی کی۔

شاہد رسام انور مقصود سے ملاقات کے بعد ہمیں سمندر کے کنارے پرتکلف ڈنر کھلانے لے گئے۔

سمندر میں دور دور تک آبی پرندے تیرتے دکھائی دیے جو نیم تاریکی میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ ان پرندوں کو دیکھ کر مجھے اپنی ایک نظم یاد آئی جو حاضر خدمت ہے

کشتیاں
سمندر کے کنارے
ان گنت رنگوں کی سندر کشتیاں
اس سوچ میں ڈوبی ہوئی رہتی ہیں کب
ان کا مقدر جاگ جائے گا
وہ کب اتریں گی گہرے پانیوں میں
اور پہنچیں گی جزیروں تک
جزیرے
جن پہ خوابوں کی حسیں شہزادیاں
صدیوں سے بستی ہیں

کراچی میں مجھ سے ملنے حیدر آباد سے ڈاکٹر عارفہ بھٹو اپنے شوہر، رفیق کار اور سٹوڈنٹ کے ساتھ آئیں اور میرے لیے سندھی اجرک بھی لائیں۔

عارفہ بھٹو گرین زون کمیونٹی کے لیے گرین زون ایپ تیار کر رہی ہیں۔

کراچی میں ایاز مورس کی شاعرہ بیگم، تین سالہ فنکار بیٹی اور مستقبل کے ادیب بھائی شیراز سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں نے شیراز کی حوصلہ افزائی کی کیونکہ انہیں پڑھنے اور لکھنے کا بہت شوق ہے۔

کراچی میں فنکار اور موسیقار عرفان اشرف سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے میری ایک غزل سنی تو اسے ریکارڈ کر لیا اور اس کے لیے موسیقی کی دھن بھی بنائی تا کہ اسے گایا جا سکے۔ جو غزل انہیں پسند آئی اس غزل کا مطلع ہے

کیا تم نے کبھی اپنا مقدر نہیں دیکھا
ہر گھر میں جو بستا ہے یہاں ڈر نہیں دیکھا

دوستی کی قوس قزح کا تیسرا رنگ دیکھنے میں اور عنبرین کوثر۔ ہم سب۔ کے لکھاری سید زاہد کی دعوت پر شیخوپورہ چلے گئے۔ ہمیں لینے ایک صاحب ذوق اور صاحب نظر شاعر افتخار فلکی آئے۔

شیخوپورہ میں پہلے سید زاہد اور ان کی شریک حیات نے ہمیں نہایت لذیذ لنچ کھلایا اور پھر ہمیں ایک مشاعرے میں لے گئے جہاں چار سو سے زائد لوگ موجود تھے۔ اس سیمینار میں پہلے میں نے انسانی نفسیات کے حوالے سے گفتگو کی اور پھر ایک غزل سنائی جس کے دو اشعار حاضر ہیں

یہ جو ٹھہرا ہوا سا پانی ہے
اس کی تہہ میں عجب روانی ہے
اس کو گھر بیٹھ کر گنواؤ گے
شام خالد بہت سہانی ہے

دوستی کی قوس قزح کا چوتھا رنگ دیکھنے میں اور عنبرین کوثر اسلام آباد گئے جہاں سلیم ملک نے ہمارا استقبال کیا، قریبی دوستوں سے ملوایا اور اپنی مزاحیہ گفتگو سے محفل کو گلزار بنایا۔

اگلے دن بلیک ہول کے پروگرام میں عنبرین عجائب نے میرا تفصیلی انٹرویو لیا۔ انٹرویو کے بعد سامعین کے سوالوں کا سلسلہ دراز ہو گیا اور ڈیڑھ گھنٹے کا پروگرام اڑھائی گھنٹے تک جاری رہا۔ دوستوں کے ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ جہاں چالیس سیٹیں تھیں وہاں اسی لوگ موجود تھے۔ کچھ کمرے میں پیچھے کھڑے تھے اور کچھ زمین پر سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔

اسلام آباد میں جن دوستوں سے تفصیلی ملاقات ہوئی ان میں جمشید اقبال بھی شامل تھے جنہوں نے مجھے اپنی کتاب۔ فکری روایتیں۔ تحفے کے طور پر دی اور میں نے انہیں ان کی نئی کتاب

A PEACEFUL REBEL
پر مبارکباد پیش کی۔

اسلام آباد میں عنبرین عجائب نے میری ملاقات ڈاکٹر کامران احمد کی بہنوں اور والدہ سے بھی کروائی اور نوجوانوں کی تربیت گاہ مہر گڑھ کی سیر بھی کروائی۔

اسلام آباد میں مجھ سے ملنے ایک دور کے گاؤں سے سجاد بنگش بھی آئے اور گھر کی بنی مٹھائی کا تحفہ بھی لائے۔

اسلام آباد میں ایک شام سلیم ملک مجھے حاشر بن ارشاد سے ملوانے لے گئے۔ ہم تینوں کا عہد حاضر کے سماجی، مذہبی اور سیاسی موضوعات پر پر مغز مکالمہ ہوا۔

دوستی کی قوس قزح کا پانچواں رنگ دیکھنے اور عبدالستار سے ملنے میں میاں چنوں گیا۔ میاں چنوں کا سفر اور وہاں دوستوں سے ملاقاتیں یاد گار تھیں۔ عبدالستار مجھے ایک کالج لے گئے جہاں میں نے ایک سو تیس حجابی سٹوڈنٹس سے نوجوانوں کے مسائل پر گفتگو گی۔ ان طالبات نے عورتوں کے نفسیاتی اور سماجی مسائل کے بارے میں چبھتے ہوئے سوال کیے۔ اس کے بعد میں بیس استانیوں سے ملا جن میں سے بعض برقعہ پوش تھیں۔ اس سہ پہر میں اس وقت زیر لب مسکرایا جب ایک برقعہ پوش خاتون نے میرے ساتھ تصویر کھنچوانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے سوچا تصویر میں بھلا آنکھوں کے علاوہ اور کیا دکھائی دے گا۔

جب میں میاں چنوں سے رخصت ہونے لگا تو عبدالستار پہلے اداس پھر آبدیدہ ہو گئے اور پھر وفور جذبات سے مغلوب ہو کر کمرے سے باہر چلے گئے۔ مجھے اس سے پہلے بالکل اندازہ نہ تھا کہ وہ مجھ سے اس شدت سے محبت کرتے ہیں۔

عبدالستار کی لائبریری میں ان کی کتاب دوست بیٹی عائشہ عروج سے بھی ملاقات ہوئی اور وہیں میں نے ان کی بیگم کے بنائے ہوئے گڑ والے چاول اور ان کی ساس کا بنایا ہوا گاجر کا حلوہ بھی کھایا۔

دوستی کی قوس قزح کا چھٹا رنگ اس وقت واضح ہوا جب لاہور کے باغ جناح کی لائبریری میں سانجھ کے پبلشر امجد سلیم نے میری پانچ کتابوں کی رونمائی کی۔ محفل کے مہمان خصوصی وجاہت مسعود تھے اور گفتگو کرنے والوں میں رابعہ الربا، مقدس مجید اور دعا عظیمی بھی شامل تھیں۔

امجد سلیم اور ان کی نصف بہتر فرخندہ نے ہمیں اپنے گھر بھی بلایا اور شاعر کوثر چیمہ اور ان کے دانشور شوہر سے بھی ملاقات کروائی۔

امجد سلیم مجھے پنجاب یونیورسٹی کے بک فیر بھی لے گئے جہاں پاکستان بھر سے ایک سو پچاس پبلشرز کی ہزاروں کتابوں کی نمائش تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ کتابیں خریدنے والوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ تھی۔

بک فیر میں اپنی افسانہ نگار دوست دعا عظیمی کو بک کارنر پبلشر کے سٹال پر اپنی کتاب۔ فریم سے باہر۔ اور شہر کی ممتاز شخصیات کے ساتھ تصاویر اترواتے اور سانجھ پبلشر کے سٹال پر ایک خاتون کو اپنے دوست بلند اقبال کی نئی کتاب۔ پلوٹو سے پوسٹ مارڈرنزم۔ خریدتے دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔

لاہور میں نوجوان دوستوں عمر فاروق اور عثمان اشرف کے علاوہ شہزاد نیر، یاسر پیرزادہ اور ان کے ادبی دوستوں سے ملاقات بھی ہوئی اور فلسفیانہ موضوعات پر سنجیدہ تبادلہ خیال ہوا۔ نظریاتی دیانت کا تقاضا تھا کہ میں اعتراف کروں کہ جو میں جانتا ہوں اس سے کہیں زیادہ میں نہیں جانتا۔

دوستی کی قوس قزح کا ساتواں رنگ دیکھنے میں، میری بہن عنبرین کوثر اور ان کے شوہر ارشاد میر وجاہت مسعود اور تنویر جہاں کے گھر گئے جہاں عدنان کاکڑ اور شیراز راج کے علاوہ دیگر دانشوروں سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس دعوت سے پہلے وجاہت مسعود نے میرا پی ٹی وی پر دو گھنٹے کا انٹرویو لیا اور ایک ماہر نفسیات کی ادبی سماجی اور نفسیاتی تحلیل نفسی کی۔ وہ انٹرویو ایک بھرپور انٹرویو تھا جو امید ہے رمضان کے بعد نشر کیا جائے گا۔ اس انٹرویو میں سنجیدہ سوالات کے ساتھ ایک شریر سوال بھی تھا

ڈاکٹر صاحب نوجوان، جوان اور بزرگ خواتین میں آپ کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
جواب سننے کے لیے آپ کو وہ انٹرویو دیکھنا پڑے گا۔

میری بہن عنبر کے ہاں جو دوست مجھ سے ملنے آئے ان میں عائشہ اسلام، ہادیہ یوسف، مقدس مجید، دعا عظیمی‘ کنول بہزاد، رضوانہ شیخ‘ سارہ نقوی کے علاوہ اور بھی بہت سے دوست شامل تھے۔ حسن اتفاق سے جن دنوں میں لاہور میں تھا ان ہی دنوں میرے کزن اور دوست نوروز عارف بھی امریکہ سے لاہور آئے ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ ہم سے ملنے عنبر کے گھر آئے۔

لاہور میں دانشور حفیظ غزنوی سے بھی بھرپور ملاقاتیں رہیں اور انہوں نے مجھے سٹیون ہاکنگ کی کتاب
BRIEF ANSWERS TO BIG QUESTIONS
تحفے کے طور پر دی جس نے مجھے "خدا۔ کائنات اور سٹیون ہاکنگ” کے عنوان سے مقالہ لکھنے کی تحریک دی۔

دوستی کی قوس قزح کے ان رنگوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میرا یہ سفر کتنا بامعنی اور بھرپور تھا۔

اس ایک ماہ میں عنبر میری بہن ہی نہیں میری سوشل سیکرٹری بھی تھیں۔ انہوں نے میرے ساتھ پہلی دفعہ لاہور سے شیخوپورہ اور اسلام آباد کا سفر کیا اور ہم نے بہت سی دل کی باتیں کیں۔

جہاں میں پاکستان میں نئے دوستوں سے مل رہا تھا وہیں مجھے شمالی امریکہ کے پرانے دوستوں کے پیغام آ رہے تھے کہ وہ ٹورانٹو کی نجی محفلوں میں میری کمی محسوس کر رہے ہیں۔ ان دوستوں میں سارہ علی، ہما دلاور‘ نعیم اشرف، حامد یزدانی‘ سہیل زبیری، رفیع مصطفیٰ‘ رفیق سلطان، خالدہ نسیم‘ امیر جعفری اور مرزا یاسین بیگ سر فہرست ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ میں نے پاکستان کے سفر کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ اگر تفصیل سے لکھوں گا تو پوری کتاب بن جائے گی۔

جب رخصت ہوتے وقت پاکستان کے دوستوں نے پوچھا۔
۔ اگلی ملاقات کب ہوگی؟
تو میں مسکرایا اور اپنا ایک شعر سنایا
وقت اک بحر بیکراں خالد
ہر ملاقات اک جزیرہ ہے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 801 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments