شعرا میں دائیں اور بائیں رجحانات کا خاتمہ
درست یہی ہے کہ رومان اردو شاعری کا سب سے بڑا موضوع ہے۔ اظہار محبت کے ہزار ہا قرینوں کے باوجود مزید امکانات موجود ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ شعرا اس خاص اور پسندیدہ موضوع کے دائرے سے باہر نہیں نکلتے ہیں لیکن موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ محبت کے دائرے کو وسعت دے کر عوامی مشکلات کو زیر بحث لایا جائے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی ناہمواری کے باوجود محبت کی شاعری کا جواز سمجھ میں نہیں آتا ہے۔
سخت معاشی دباؤ میں بانسری کی دھن لطف نہیں دیتی ہے۔ شاعری کے فرسودہ تصوراتی ڈھانچے کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ منظر نامے پر موجود قد آور شعرا محبت کی شاعری سے لوگوں کو مسحور کرتے ہیں۔ نئے شعرا میں عامیانہ پن دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے حالات سے قطعی لاعلم ہیں۔ دراصل وہ پاپولر ہونے کی دوڑ میں شامل ہیں اور نوجوانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ یہ سطحی سوچ شعرا کو خاص موضوع تک محدود کر دیتی ہے۔
ایسی شاعری کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ سچی شاعری سماجی مسائل کو نظر انداز کر کے نہیں لکھی جا سکتی ہے۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ جن شعرا کی آواز ایوانوں تک پہنچ سکتی ہے، انھیں عوامی معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ادبی تاریخ میں محض فن ہی نہیں موضوع کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ موضوعاتی دائرہ کار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ مشاعرے میں داد نے شعراء کو خراب کر دیا ہے۔ معاشرتی، ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر لکھنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ شاعری کا پہلا فریضہ یہی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ اگر شعرا ایسا نہیں کرتے ہیں تو وہ ضمیر کی عدالت میں جواب دہ ہیں۔ آپ ہرگز غیر جانب دار نہیں ہیں۔ غیر جانب داری ظلم کا ساتھ دینے کی صورت خیال کی جاتی ہے۔
شعرا کی بڑی تعداد اپنے ذاتی نقطۂ نظر کی بنیاد پر احتجاج سے پہلو تہی اختیار کرتی ہے۔ نا پسندیدہ اقدامات پر چشم پوشی اور غیر متوازن عوامل سے بے توجہی کے نتیجے میں عوام کی شعرا سے وابستہ توقعات مجروح ہوتی ہیں۔ آہستہ آہستہ شعرا خود بھی سماجی اور سیاسی موضوعات سے لا تعلق ہو جاتے ہیں اور عوام بھی انھیں محض خواب و خیال کی دنیا میں مگن فالتو لوگ قرار دے دیتے ہیں۔ چند شعرا کھلی آنکھوں سے حالات کا جائزہ لیتے ہیں مگر مصلحت کی بنا پر خاموش رہتے ہیں۔
بہت قلیل تعداد میں شعرا مزاحمت کرتے ہیں۔ شعرا کی مقبولیت مزاحمت کے گراف کو متعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہاں کم یا زیادہ مقبول شاعر اہمیت کا حامل ہے۔ مزاحمت کی نوعیت اور اثرات شاعر کا سماجی و سیاسی کردار طے کرتے ہیں۔ اس جدوجہد میں کبھی کبھی نا گفتہ بہ صورت حال اور دگرگوں حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجموعی معاشرتی بے حسی اور بوکھلاہٹ کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ شاعر کسی بھی طرح کا رسک لینے پر آمادہ نہیں ہے۔
معروف اور معاشی اعتبار سے مستحکم شعرا نے راز حیات پا لیا ہے۔ وہ جز وقتی مفادات پر قانع ہو گئے ہیں۔ صرف مشاعرے کا اعزازیہ ہی مقصد حیات بن گیا ہے۔ گزشتہ دہائی میں قومی سطح پر کسی بڑے مزاحمتی شاعر کی عدم موجودگی کئی سوالات جنم دیتی ہے۔ یہ بات درست ہے گزشتہ دہائی میں سینئر شعرا کی وفات سے بڑا خلا پیدا ہوا ہے مگر ان سے پچھلی صف میں موجود شعرا یکسر مزاحمتی رویوں سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ یہ افسوس ناک صورت حال غمازی کرتی ہے کہ اردو شاعری کا مستقبل تاب ناک نہیں ہے۔ نو آبادیاتی دور میں اردو شعراء کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی شعرا کئی محاذوں پر برسرپیکار دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ دو سیاسی ادوار اس بڑے شاعر سے محروم ہیں جس کے لہجے سے ایوانوں میں ہلچل مچ سکتی ہے۔ میں مایوس نہیں ہوں صرف تشویش کا اظہار کر رہا ہوں۔
دائیں اور بائیں بازو کی تخصیص ختم ہونے سے ادب کو نقصان پہنچا ہے۔ بائیں بازو کو اسلامی سوشلزم کے نعرے کی کشش نے مدار سے باہر کر دیا۔ بعد ازاں انھیں مختلف این جی اوز میں پناہ مل گئی۔ دائیں بازو کو ایوارڈز اور ادبی و ثقافتی عہدوں نے جدوجہد سے عاری کر دیا۔ دونوں مختلف نظریات کے حامل ادبا الگ الگ انقلاب کی کوشش میں شامل تھے۔ دونوں نظام سے نالاں اور بے زار تھے۔ نظام سے چھٹکارے کے لیے کبھی مشترکہ جدوجہد کا خیال سامنے نہیں آیا۔ اس کی بنیادی وجہ مختلف فلسفہ حیات قرار دیا جا سکتا ہے۔ غریب سے خدا کو چھیننے کی کوشش بھی بنیادی وجوہات میں شامل ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے سے نفسیاتی سطح پر سخت دھچکے کے باعث رفتہ رفتہ ادبی محاذ پر خاموشی چھا گئی۔
دائیں بازو نے محاذ خالی دیکھ کر پہلوتہی اختیار کر لی۔ گزشتہ تین دہائیوں سے دونوں طرف غیر علانیہ سیز فائر ہو چکا ہے۔ اس دوران میں دونوں جانب سے کوئی قابل ذکر تحرک پیدا نہیں ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں شعراء مسلسل لکھ رہے ہیں اور ان کا زندگی کے حوالے سے کوئی نقطۂ نظر نہیں ہے۔ یعنی شاعری کسی نظریے کے بغیر لکھی جا رہی ہے۔ مسافر کو منزل کا تعین ہی نہیں ہے۔ کسی نقطۂ نظر کے بغیر لکھی شاعری کا مستقبل کیا ہو گا؟
گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی نظام میں کوئی دراڑ واقع نہیں ہوئی ہے۔ انقلاب کا لفظ کلیشے ہو گیا ہے۔ اگر کوئی شاعر حالات پر دل گرفتہ ہوتا ہے تو قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ حل غربت، پسماندگی اور مسائل شعری اظہار کا پامال موضوع گردانا جاتا ہے۔ ادبی گروہ بندی نے بھی شعرا کو ذہنی طور پر منجمد کیا ہے۔ وہ تغیرات سے لاتعلق اور حالات سے بے پروا صرف لذت سماعت کے دلدادہ ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عوام کی توقعات بھی یہی ہیں۔ اس موج میں اضطراب کا امکان مفقود ہو رہا ہے۔
اس عرصے میں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی بات یہ کہ نعتیہ شاعری کو بے حد فروغ حاصل ہوا ہے۔ ایک اعتبار سے یہ خوش آئند ہے کہ نعتیہ تناظر میں سماجی، سیاسی اور ذاتی زندگی کے مسائل بھی زیر بحث لائے گئے ہیں۔ البتہ ان مسائل کے حل کے لیے اجتماعی سطح پر عملی جدوجہد موجود نہیں ہے۔ نعتیہ حلقوں کو مذہبی حمایت حاصل ہے اس لیے نعت خوانی اور نعت گوئی کو مسلسل تقویت مل رہی ہے۔ اشرافیہ کو ان سے کوئی خدشہ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ فیمنزم کی مقبولیت کا گراف اوپر جا رہا ہے۔ شاعرات کی کثیر تعداد نے عورت کے مسائل کو موضوع بحث بنایا ہے۔ شعراء بھی پیش پیش ہیں۔ ادبی حلقوں میں بھی اس موضوع کو پذیرائی حاصل ہے۔ پاکستان میں خواتین کی تعلیم و ترقی کے لیے ناساز گار حالات بھی اس موضوع کی تقویت کا سبب ہیں۔
مزاحیہ شاعری کی مستحکم روایت کے باوجود گزشتہ دہائیوں میں مزاح کے نام پر بیویوں، سالوں اور سالیوں کی خوب شامت آئی ہے۔ اس سے عوامی مزاج بگڑ کر رہ گیا ہے۔ سٹیج ڈرامے، اور مزاحیہ شاعری دونوں رو بہ زوال ہو گئے ہیں۔ مزاح میں شائستگی، تازگی اور تربیت کا رول ختم ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ پھکڑ پن، بے ہودگی اور ہزل گوئی نے لے لی ہے۔ مزاحیہ شاعری میں پنجابی، انگلش اور ہندی ڈکشن سے ندرت پیدا کرنے کی کوشش بھی تا دیر ساتھ نہیں دے پائی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاعری میں اصلاح احوال اور ہمدردانہ شعور کے عناصر موجود نہیں ہیں۔ جزوقتی خوشی کا تصور دائمی مسرت پر غالب آ گیا ہے۔ ایسی شاعری کی لائف نہیں ہوتی ہے۔ البتہ کچھ شعرا نے جدا رستہ نکالا ہے اور موضوعاتی سطح پر تنوع دیکھنے میں آیا ہے۔ انھوں نے معاشرتی، سیاسی اور معاشی ناہمواری پر کھل کر لکھا ہے۔ اداروں میں سالانہ مشاعرے ہوتے ہیں اور مزاحیہ شعرا کو خوب پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ اعزازیہ بھی ملتا ہے، کئی سنجیدہ شعرا بھی مزاح کے میدان میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
گزشتہ تین دہائیوں میں ایک مزاح گو شاعر نے محتاط اندازے کے مطابق اپنی ہر ایک نظم پر بیس لاکھ روپے سے زیادہ اعزازیہ وصول کر لیا ہے۔ میں ہرگز کسی منفی سوچ کا حامل نہیں ہوں۔ صرف عرض کر رہا ہوں کہ نعت گوئی اور مزاحیہ شاعری روزگار کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ایک عظیم مقصد فراموش کر دیا گیا ہے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک سازش کے تحت ایسے شعرا کو میڈیا کے ذریعے متعارف کروایا گیا ہے تا کہ عوام محض ہنسنے ہنسانے میں مگن رہیں اور سنجیدگی سے حالات کا جائزہ نہ لیں۔
مقصدیت سے پہلو تہی اور مسائل سے لاتعلقی کا خمیازہ اخلاقی زوال کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔ عوامی مذاق کا یہی تقاضا ہے کہ سطحی اظہار اپنایا جائے۔ ہمارے شعرا عوام کی توقعات پر پورا اترے ہیں۔ یوں فکر و فن کو قربان کر دیا گیا ہے۔ مزاحیہ شاعری کا فکری و فنی جائزہ لینے اور اس پر سخت تنقیدی مضامین لکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ایسا میدان ہے جس میں درست سمت کے تعین سے مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔ اس وقت اس امر کی جانب توجہ دینے سے آئندہ کے شعری منظر نامے پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مزاحیہ شاعری کو حد درجہ پذیرائی کی وجہ سے شعرا کو زندگی سے جڑے معاملات کو پیش کرنا چاہیے۔
یہ گزشتہ تین دہائیوں میں شعری رجحانات کا مختصر جائزہ ہے۔ اسے سامنے رکھ کر مزید رجحانات کا پس منظر سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
- نیم حکیم، کامل شاعر - 09/07/2025
- مذہبی متن اور مابعد جدیدیت - 08/06/2025
- جناب شیخ کا نقشِ قدم - 04/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).