حافظ آباد ریپ کیس: کیا ملزمان کو قرار واقعی سزا مل پائے گی؟


سال 2023 میں ہر پینتالیس منٹ میں ایک عورت کا ریپ کیا گیا۔ گزشتہ سال عصمت دری کے صوبہ پنجاب میں چھ ہزار 624 مقدمات درج ہوئے۔ پاکستان میں بعض انتہائی پروفائل والے اجتماعی ریپ کے مقدمات ہیں۔ جن کے مجرمان دولت اور اثر و رسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے نظام انصاف کا مذاق اڑاتے ہوئے آزاد گھومتے ہیں۔ بیشتر ایسے کیسز ہیں جو کسی بھی طرح انصاف کے نظام کے لئے مثبت نہیں ہیں۔ یوں تو دھرتی پر آئے روز سفاکیت اور درندگی کے ایسے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں جو دل دہلا دینے کے لئے کافی ہیں۔

ضلع حافظ آباد کے تھانہ پولیس سکھیکی منڈی کی حدود میں شادی شدہ خاتون کے ساتھ عصمت دری کا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا۔ اس دلخراش واقعہ پر ہر ذی شعور افسردہ ہے یہ سوچ کر کلیجہ حلق کو آتا ہے کہ ایسے دردناک ’خوفناک‘ سفاک واقعات کا بوجھ دھرتی کب تک برداشت کر پائے گی۔ ظالم کی رسی کب تک دراز رہے گی اور مظلوم کی آہیں کب تک فلک کا سینہ شق کریں گی۔ یہ سماج انصاف کی عدم دستیابی کے باعث وحشت اور درندگی کی آماج گاہ بنتا جا رہا ہے۔

جو واقعہ اس خاندان کے ساتھ پیش آیا ہے وہی جان سکتے ہیں کہ وہ کس اذیت اور کرب سے گزر رہے ہیں۔ شاہد علی جو چنیوٹ کا رہائشی ہے محنت مزدوری کر کے اپنے بیوی بچوں کی کفالت کر رہا ہے۔ مورخہ 24 جولائی 2024 ء کو اپنی بیوی اور تین سالہ بیٹی کے ساتھ موٹر سائیکل پر چوکی سکھیکی منڈی ڈنگی چبہ اپنے ماموں نذیر سے ملنے آیا۔ شام ڈھلے شاہد علی اپنے ماموں کے گھر سے کھانا کھا کر اپنی فیملی کے ساتھ واپس اپنے گھر چنیوٹ جانے کے لئے نکلا۔

جب وہ بانس کی فصل کے کھیت کے قریب سے موٹر سائیکل پر گزر رہے تھے۔ اسی اثناء میں تین نامعلوم مسلح افراد اچانک سامنے آ گئے اور راستہ روک لیا۔ تینوں مسلح افراد شاہد علی اس کی بیوی اور معصوم بیٹی کو گن پوائنٹ پر بانس کی فصل میں لے گئے۔ تینوں میں سے جو ایک خالی ہاتھ تھا اس نے شاہد علی اور اس کی معصوم بیٹی کے سامنے اس کی بیوی کو برہنہ کر کے زبردستی عصمت دری کرنے لگا۔ جب شاہد علی نے مزاحمت کی کوشش کی تو تو اسے گن پوائنٹ پر لے لیا۔

زبردستی شوہر اور اس کی معصوم بیٹی کے سامنے ایک شادی شدہ خاتون کی آبرو کو ریزہ ریزہ کر کے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے ان بدمست درندوں نے اپنے چنگل سے آزاد کیا۔ یہ وہ واقعہ ہے جو تھانہ سکھیکی پولیس اسٹیشن میں ڈی پی او حافظ آباد فیصل گلزار کی ہدایت پر شاہد علی کی مدعیت میں درج ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گینگسٹر خاتون کو قریبی کھیتوں میں لے گئے اور اس کے شوہر اور بیٹی کے سامنے گینگ ریپ کیا۔ المیہ ہے متاثرہ خاندان کی مدد کرنے کے بجائے حافظ آباد اور ننکانہ صاحب اضلاع کے پولیس حکام مبینہ طور پر دائرہ اختیار کے تنازع پر آپس میں جھگڑتے رہے۔ جو اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جو 2020 ء میں لاہور، سیالکوٹ موٹروے پر گینگ ریپ کے واقعے کے بعد جاری کیے گئے تھے۔ جب یہ معاملہ ڈی پی او حافظ آباد فیصل گلزار کے علم میں لایا گیا تو انہوں نے ہدایت دی کہ موقع پر پہنچ کر مقدمہ درج کیا جائے۔ بعد ازاں، سکھیکی پولیس نے نامعلوم ملزمان کے خلاف زیادتی کا مقدمہ درج کر لیا۔ ڈی پی او فیصل گلزار نے ایس ایچ او تھانہ سکھیکی لقمان چٹھہ کو معطل بھی کر دیا ہے۔

پولیس کے مطابق یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ایک مشتبہ ملزم کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ گرفتار ملزم سے دوران تفتیش معلوم ہوا کہ باقی دو ملزمان راولپنڈی کی جانب فرار ہوئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق ان مذکورہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے راولپنڈی پولیس ٹیم بھی روانہ کی گئی ہے۔ بہرحال اس دردناک وقوعہ کا مقدمہ تو درج ہو گیا اور ہو سکتا ہے جلد یہ درندہ صفت ملزمان گرفتار بھی ہو جائیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملزمان اپنے انجام کو پہنچیں گے؟

یہ سوال اس لئے اٹھتا ہے کیونکہ موجودہ پولیس کلچر میں ایسے بے شمار واقعات میں ملوث ملزمان کو پیسے اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر امان دی گئی ہے۔ اسی لئے بڑے کو چھوٹا اور چھوٹے کو بڑا مجرم ثابت کرنا اس پولیس کلچر کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ہر آنے والی حکومت کی جانب سے پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کے بلند آہنگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ لیکن اصلاحات کے نام پر بیش بہا پیسہ اور وسائل جھونکے جاتے ہیں نتیجہ صفر نکلتا ہے۔

حکمران شاید بھول چکے ہیں۔ کہ ایسے جرائم کے تدارک کے لئے فوری انصاف اور پولیس ریفارمز جیسی اصلاحات نہ کر کے وہ بھی گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ آپ موٹر وے سانحہ کیس کو دیکھ لیں۔ حقائق سے معلوم پڑے گا کہ اس گھناؤنے جرم میں فقط عابد اور شفقت ہی شریک نہیں تھے۔ بلکہ ان مجرمان کے لئے راہ ہموار کرنے والا ہمارا فرسودہ نظام بھی برابر کا مجرم ہے۔ سانحہ موٹر وے کے ایک مجرم عابد پر آٹھ مقدمات درج تھے جن میں سے دو ریپ کے مقدمات تھے۔

اس انسان نما درندے نے ایک ریپ یوں کیا ایک گھر میں گھس کر مرد کو باندھ کر اس کے سامنے اس کی بیوی اور بیٹی کا ریپ کیا۔ اگر اس شقی القلب ملزم کو اس ریپ کے بعد قانون کے ذریعے عبرت کا نمونہ بنا دیا جاتا تو سانحہ موٹر وے نہ ہوتا۔ اس دھرتی پر بنت حوا کے ساتھ جو رقص ابلیس جاری ہے ذرا سوچئیے کیا وہ ہماری مائیں اور بیٹیاں نہیں ہیں۔ یہاں تو ایسے ایسے ہائی پروفائل کیسز اثر و رسوخ اور پیسے کے بل بوتے پر بند کر دیے گئے ہیں۔

شاہد علی تو دستیاب معلومات کے مطابق محنت مزدوری کرتا ہے۔ اس مظلوم کے پاس تو شاید اتنے وسائل بھی نہ ہوں کہ وہ اپنی بیوی کے مجرمان کو منطقی انجام تک پہنچانے کی سعی کر سکے۔ کمر شکن مہنگائی کے اس دور میں جہاں دو وقت کی روٹی غریب آدمی کے لئے خواب بنتی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں شاہد علی کے لئے کیسے ممکن ہے کہ وہ ایسے سفاک ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوا سکے۔ شاہد علی اور اس کی معصوم بیٹی کے سامنے اس کی بیوی کا ریپ کیا گیا ہے اس خاوند پر کیا گزر رہی ہو گی جس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بیوی کی عزت کو تار تار کر دیا گیا۔

اور اس متاثرہ خاتون پر کیا گزر رہی ہو گی جس کے خاوند اور تین سالہ بیٹی کے سامنے اسے درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ غم تو اس معصوم بچی کو بھی جھیلنا پڑے گا اور اس گھناؤنے واقعے کے زخم اس معصوم کے دل پر تازہ رہیں گے۔ آپ انصاف کے مکمل نظام کو پرکھ لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا اس سانحہ کے ملزمان اپنے انجام کو پہنچ پائیں گے۔ یہ ایسا دلدوز سوال ہے جو حکمرانوں اور اس نظام انصاف کے در پر دستک دے رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ ایسے ٹھوس قوانین بنائیں جائیں کم از کم ریپ کے مجرمان کو ایک مقررہ وقت کے اندر پھانسی دی جا سکے۔

جونہی ریپ کا ملزم گرفتار ہو ماڈل کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے اور تین سے چار ماہ کے دوران ملزم کو پھانسی کی سزا سنائی جائے۔ صرف دو سے تین سال ہم یہ کام کر لیں تو معاشرہ بڑی حد تک ایسے درندہ صفت مجرمان سے محفوظ ہو جائے گا۔ کیوں کہ مہذب معاشرے کی یہی پہچان ہوتی ہے جہاں ہر ماں ’بہن‘ بیٹی خود کو گھر کے باہر اور گھر کے اندر محفوظ تصور کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments