صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 18 : جنم جنم کا ساتھ


”اے میری روح، تُو کیوں افسُردہ ہے؟ تُو کیوں میرے اندر اتنی بے قرار ہے؟ خُدا پر توکّل کر، کیوں کہ مَیں اُس کا شکر کرتا رہوں گا جو میرا نجات دہندہ اور میرا خدا ہے۔“ زبور 42 : 11

پادری پال کو اکثر اپنا آبائی گاؤں یاد آتا تھا جو لاہور سے 50 کلومیٹر دور ہے اور کلارک آباد کہلاتا ہے۔ ان کے دادا بتاتے تھے کہ وہ گاؤں کے سب سے پہلے چرچ کی تعمیر میں خود شامل تھے اور گارے کی پراتیں سر پر اٹھائی تھیں۔ پادری پال کی ذہنی تربیت پاسٹر کمال دین نے کی تھی جو کلارک آباد کے چرچ کے پادری تھے۔ انہوں نے چرچ میں ہی اسکول قائم کر لیا تھا اور بچوں کو خود ہی میٹرک تک پڑھاتے تھے۔ مختلف عمر اور مختلف کلاسوں کے بچوں کو اکٹھا پڑھانا آسان نہیں ہے مگر گاؤں کے لوگ پاسٹر کمال دین کی لگن اور ہمت کے قائل تھے۔

پادری پال میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے جہاں سے انٹر کیا اور پھر چار سال گوجرانوالہ تھیولوجیکل سیمینری میں گزارے جو پاکستان کے قدیم ترین اور اہم ترین مسیحی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ مدرسہ خطے میں مسیحی علما کے لیے مذہبی تعلیم اور تربیت فراہم کرتا ہے۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر انہیں حیدر آباد میں تعینات کر دیا گیا جہاں وہ بوڑھے ہوئے۔

وہ اکثر فرانسی فلسفی رینے دیکارٹ کا حوالہ دیتے تھے جس نے چار سو سال پہلے کہا تھا، ”چوں کہ میں سوچتا ہوں اس لیے میرا وجود ہے۔“ بالفاظ دیگر، میرا وجود صرف اس بنا پر ہے کہ مجھے اس کا ادراک ہے۔ پادری پال کے مطابق اس مقولے کا اطلاق دنیا کی ہر حقیقت پر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقت وہی ہوتی ہے جو ہمیں نظر آتی ہے اور جس طرح نظر آتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی دنیا ان ہی حقائق کی بنیاد پر تعمیر کرتا ہے جنہیں وہ دیکھتا ہے اور جس طرح دیکھتا ہے۔

پادری پال نے بھی اپنی دنیا خود تعمیر کرلی تھی جس میں ہر کام ان کی مرضی کے مطابق ہوتا تھا اور ہر کردار اسی طرح چلتا پھرتا تھا جس طرح وہ چاہتے تھے۔ انہیں اپنی ماں کا کوئی تصور نہیں تھا کیوں کہ وہ جب دو سال کے تھے تو ان کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا، البتہ اُن کی دنیا میں ان کے باپ جنہیں وہ سال ہا سال پہلے گاؤں میں چھوڑ آئے تھے، اب بھی زندہ تھے حالاں کہ ان کے انتقال کو بھی زمانہ گزر چکا تھا مگر پادری پال لوگوں کو بتاتے تھے کہ وہ جب بھی گاؤں جاتے ہیں تو ان کے والد انہیں گلے لگا کر پوچھتے ہیں، ”پتر، تُو چنگا تے ہے نا؟“

پادری پال راستہ چلتے ہوئے خود کلامی میں محو رہتے تھے، جیسے دنیا کے سارے مسائل حل کر رہے ہوں۔ عموماً ان کی نظریں زمین پر ہوتیں اور ہاتھوں کے اشاروں سے گفتگو کرتے رہتے۔ اگرچہ ان کے لبوں میں جنبش نہیں ہوتی تھی مگر دیکھنے والوں کو ان کے اشاروں سے ہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔

”نہیں، نہیں، نہیں!“
”یوں نہیں، یوں! “
”چلو چھوڑو!“

کبھی ان کے ہاتھوں کی جنبش اور چہرے کے اتار چڑھاؤ سے ظاہر ہوتا تھا کہ کسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں اور کبھی کوئی خوش گوار گفتگو ہو رہی ہوتی۔ راستے میں اگر کوئی پتھر کا ٹکڑا یا کوئی اور رکاوٹ نظر آتی تو اسے اٹھا کر ایک طرف ڈال دیتے تاکہ ان کے پیچھے آنے والوں میں سے کسی کا پاؤں اُس پر نہ پڑ جائے۔ محلے والوں کا خیال تھا کہ اُن کے قبضے میں جنّ ہیں اور وہ ان ہی سے باتیں کرتے اور حکم دیتے رہتے ہیں۔ اکثر راستے میں کوئی انہیں روک لیتا تھا۔ کسی کو تعویذ چاہیے تھا اور کوئی سٹّے کا نمبر معلوم کرنا چاہتا تھا۔ وہ مسکراتے اور انہیں جھوٹی موٹی ڈانٹ پلا کر آگے بڑھ جاتے۔

صرف پادری پال ہی جانتے تھے کہ اُن کی شریکِ گفتگو ان کی بیوی تھیں جن کے انتقال کو زمانہ گزر چکا تھا مگر وہ ان کی زندگی میں اب بھی گوشت پوست میں موجود تھیں۔ وہ اب بھی سول ہسپتال میں ہیڈ نرس تھیں اور جب تھکی ہاری ڈیوٹی کر کے آتیں تو صحن میں کیاری کے سامنے بچھی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتیں۔ پادری پال پہلے ہی سے ان کے لیے پانی گرم کر کے رکھتے تھے۔ جیسے ہی وہ آ کر کرسی پر بیٹھتیں، پادری پال تسلے میں گرم پانی بھر کر لے آتے اور اپنی بیوی کے پاؤں ڈبو کر انہیں آہستہ آہستہ دباتے۔

کئی سال سے انہوں نے یہ کام اپنے ذمّے لے لیا تھا۔ ابتدا میں سسٹر میری نے احتجاج کیا اور کہا کہ یہ انہیں منظور نہیں تھا کہ ان کے شوہران کے پاؤں دھوئیں۔ پادری پال نے جواب دیا کہ اگر یسوع نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوئے تھے تو وہ اپنی بیوی کے پاؤں کیوں نہیں دھو سکتے۔ وہ انہیں میری کے بجائے صرف مَیر کہتے تھے۔ یہ ان کا پیار کا نام تھا۔ وہ اکثر کہتے، ”مَیر، اگر تم میری زندگی میں نہ آتیں تو وہ ادھوری رہ جاتی۔“

”ریورنڈ، آپ نے بھی تو میری زندگی مکمل کی،“ وہ جواب دیتیں۔ انہوں نے کبھی اپنے شوہر کا نام نہیں لیا تھا۔ ہمیشہ انہیں ”ریورنڈ“ کہہ کر پکارتی تھیں اور ہمیشہ ”آپ“ کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔

اس روز بھی جب پادری پال حسب معمول شام کو گھر میں داخل ہونے کے بعد فرش پر پھیلی ہوئی مرغیوں کی بیٹ دھو رہے تھے تو وہ گہری سوچ میں تھے۔ انہوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو سسٹر میری کرسی پر بیٹھی اپنی تھکن دور کر رہی تھیں۔ طشت میں بھرا ہوا پانی ابھی تک خاصہ گرم تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ ان کے پیروں کی تھکن تلووں سے رِس رِس کر پانی میں گھل رہی ہو۔ ویسے بھی وہ ذیابیطس کی پرانی مریضہ تھیں اور ان کے تلووں میں مستقل جلن ہوتی رہتی تھی۔ پادری پال ان کے سامنے فرش پر پالتی مار کر بیٹھ گئے اور سر جھکائے اپنے انگوٹھوں سے ان کے تلوے دبا نے لگے۔ سسٹر میری اٹھارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنے کے بعد تھکن سے چور تھیں اور انہوں نے اپنا سر پیچھے جھکا کر کرسی کی پشت پر ٹیک لیا تھا اور آنکھیں بند کرلی تھیں۔

”مَیر، ایک بات میں آج تک نہیں سمجھ سکا،“ پادری پال نے کہا۔
”آپ نے کچھ کہا؟“ سسٹر میری نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔

”اوہ، معاف کرنا، میں نے دیکھا نہیں کہ تم سو گئی تھیں،“ پادری پال نے سر اٹھا کر سسٹر میری کی طرف دیکھا۔

” نہیں نہیں، میں جاگ رہی ہوں،“ سسٹر میری نے دونوں بازو اٹھا کر انگڑائی لی اور دونوں آنکھوں پر ہتھیلیاں رکھ کر ملنے لگیں۔

” کبھی کبھی میری یاد داشت میں ایک منظر آتا ہے مگر یاد نہیں آتا کہ کیا ہو رہا تھا۔“
”کیسا منظر؟“
” مجھے یقین نہیں کہ ایسا ہوا بھی تھا یا یہ کوئی ڈراؤنا خواب تھا۔“
”بتائیں بھی تو سہی۔ شاید مجھے یاد ہو۔“
”میں یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر ایک دھند سی سامنے آجاتی ہے،“ پادری پال خاموش ہو کر سوچنے لگے۔
”کوشش کریں،“ سسٹر میری نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

”مجھے یاد پڑتا ہے کہ محلّے والے ہمارے گھر میں جمع ہو گئے تھے۔ ایک ایمبولینس بھی باہر موجود تھی اور لوگ تمہیں اسٹریچر پر ڈال کر لے گئے تھے۔ میں نے بہت روکنے کی کوشش کی مگر زبردستی مجھے بھی کہیں لے گئے۔“

” آپ بھول گئے ہیں۔ میں مر چکی تھی اور آپ نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔“

”نہیں، تم کیسے مر سکتی ہو؟“ پادری پال نے اٹھ کر سسٹر میری کو اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا اور دہاڑیں مار مار کر رونے لگے، مگر وہ خاموش دہاڑیں تھیں جنہیں کوئی اور نہیں سن سکتا تھا، نہ وہ مرغیاں جو پادری پال کا ڈالا ہوا دانہ چُگنے میں مصروف تھیں اور نہ وہ گلہری جو بڑی دیر سے ان کے گھر کی دیوار پر اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہی تھی۔

”آپ یاد کریں۔ اُنہوں نے مجھے دفن کر دیا تھا مگر خدا آپ کے غم کو برداشت نہ کر سکا اور میں تیسرے دن جی اٹھی۔ میں نے دیکھا کہ قبر کھلی ہوئی ہے اور اوپر تاروں بھرا آسمان صاف نظر آ رہا ہے۔ میں نے ذرا سا اُچک کر دیکھا تو آپ قبر پر ایک طرف کھڑے ہوئے تھے۔ آپ نے جھک کر میرے بازو پکڑے اور مجھے اوپر کھینچ لیا۔“

” یسوع بھی تو تیسرے دن جی اٹھا تھا،“ پادری پال نے جیب سے رومال نکالا اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ”اچھا پھر کیا ہوا؟“

”پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم دونوں رات کے اندھیرے میں دوڑتے ہوئے گھر پہنچ گئے۔ وہ تو غنیمت تھا کہ کسی نے ہمیں دیکھا نہیں۔“

پادری پال نے سسٹر میری کے دونوں ہاتھ پکڑ کر انہیں کرسی سے اٹھایا اور سینے سے چمٹا کر کہا، ”وعدہ کرو کہ ہم ایک ساتھ ہی دنیا کو خیرباد کہیں گے۔ “

”یہ اپنے بس میں کہاں ہے؟“
” میں ہر روز دعا کیا کروں گا کہ ہم اکٹھے ہی دنیا سے رخصت ہوں۔“
” خداوند آپ کی دعا قبول کرے۔“

” خدا کے ساتھ میرا خاص رشتہ ہے،“ پادری پال نے مسکراتے ہوئے کہا، ”اس نے اب تک میری ہر دعا قبول کی ہے۔ اب مجھے یاد آیا کہ جس دن تم جی اٹھیں، میں تمہاری قبر پر تھا اور جب میں نے سر جھکا کر دعا کی تو تمہاری قبر پھٹی اور میں نے تمہیں اوپر اٹھالیا۔“

”خدا آپ کی دعا قبول کیوں نہیں کرے گا۔ آپ اتنے نیک انسان جو ہیں۔ “

اچانک پادری پال کو احساس ہوا کہ سورج غروب ہو چکا تھا۔ انہوں نے مرغیوں کو ہانک کر ڈربے میں بند کیا اور اس کے دروازے پر تختی چڑھا کر ڈربہ بند کر دیا۔ جب انہوں نے مڑ کر سسٹر میری سے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تو دیکھا کہ ان کی کرسی خالی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ وہ غالباً اپنا یونی فارم اتارنے کے لیے کمرے میں چلی گئی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).