عراق کا مایہ ناز انقلابی شاعر سعدی یوسف
یہ نظم نمائندہ تھی اُن مظلوم، لاچار اور بے بس عراقی لوگوں کے جذبات و احساسات کی۔ جن پر امریکہ اور اس کی لونڈی اقوام متحدہ نے زندگی کی بنیادی سہولتوں کی کھلی فراہمی پر پابندیاں لگادی تھیں۔ یہ بہت لمبی نظم تھی۔ میں تو دم بخود تھی۔ ساکت تھی۔ شاعر کی جی داری اور جرات رندانہ پر حیران تھی۔ امریکہ تو پھیتی پھیتی ہو کے فضا میں بکھرا پڑا تھا۔ شاعر نے کچھ بھی تو نہیں چھوڑا تھا۔ اپنے دل و جگر کا سارا درد باہر انڈیل دیا تھا۔ قاری کو آنسو بہانے پر نہیں اُسے بھی اسی درد میں مبتلا کر دیا تھا۔
اور یہی وہ شناسائیاں تھیں۔ دل میں اُترنے کی کاوشیں جنہیں میرے دل و دماغ کے ایک ایک خلیے نے محبت بھری پذیرائی دے کر اُس کی میزبانی قبول کی تھی۔ پھر ایک تعلق استوار ہو گیا۔ محبت کا ، پیار اور احترام کا ۔ جلاوطنی کا کرب گویا ذاتی کرب سا محسوس ہوتا تھا۔ ایک بار کِسی ادبی پرچے میں ایک نظم پڑھنے کو ملی۔ اُسے پڑھ کر لطف اٹھایا۔ محبت کی تجدید ہوئی اور اُسے میں نے کسی اثاثے کی طرح سنبھال بھی لی۔ آپ بھی ذرا لطف اٹھائیں۔ ”عورت“ کے عنوان سے لکھی ہوئی یہ نظم جذبات کی کیسی عکاس ہے۔
اس کی یادوں سے میں خود کو کیسے نکالوں گا
میں اُسے کِس زمین پر دیکھوں گا
اور کِس شہر کی کِس گلی میں
کیا میں کِسی سے اُس کے بارے پوچھوں گا
اور اگر
کہیں مجھے اُس کا گھر مل جائے
کیا میں اطلاعی گھنٹی بجاؤں گا
کون ہے؟
میں کیا جواب دوں گا
اس کا چہر میں کیسے دیکھوں گا
اس کی انگلیوں کے درمیان سے
رستے ہوئے وائن جیسے لطیف سرور سے سرشار
کیسے اُسے ہیلو کہوں گا
اور کیسے اُن سب سالوں کا
دکھ برداشت کروں گا
ایک بار
بیس سال پہلے
ایک ائر کنڈیشن گاڑی میں
میں نے اُسے رات بھر چُوما تھا
بہتے وقت کا دھارا بھی کیسا ظالم ہے بہتا چلا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک دن فرّخ سہیل گوئندی اور اس کی لبنانی بیوی ریما گوئندی سے ملاقات ہوئی۔ فرخ سے میرا ممتا بھرا رشتہ ہے۔ ریما کے پاس سعدی یوسف کی منتخب نظموں کا مجموعہ without an alphabt، without a faceانگریزی میں ترجمہ شدہ دیکھی تو ایک دن کے وعدہ پر لی اور اس کے کچھ حصّے فوٹو کاپی کروائے۔ تعارف میں بھی کچھ کردار اِس کتاب نے اور کچھ ماموں رشید کی باتوں نے ادا کیا۔
عرب دنیا کا چنیدہ اور جدید لہجے میں بات کرنے والا شاعر جس نے کبھی خود کو بڑا نہیں سمجھا ہمیشہ ہی نزار قبانی کی شاعرانہ عظمت کا مداح رہا۔ 1934 میں بصرے کے قریب ابوالخصیب نامی گاؤں میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم وہیں بصرے سے حاصل کی۔ عربی میں ڈگری بغداد یونیورسٹی سے لی۔ شاعری تو چھوٹی عمر سے شروع ہو گئی۔ آزاد، نثر میں اظہار خیال جو نئی نوجوان نسل کی ایک اپنی اختراع تھی اور جس نے مروجہ روایاتی شاعری کو پیچھے دھکیل کر عربی شاعری میں ایک نئے رنگ و آہنگ کا آغاز کیا تھا۔ سعدی نے بہت جلد اپنی انفرادیت قائم کرلی تھی۔
وہ ایک شاعر ہی نہیں تھا۔ بہت اچھا نثر نگار بھی تھا۔ جرنلسٹ رہا۔ پبلیشر بنا اور سیاسی کارکن کے طور پر بھی کام کیا۔ عراق ہمیشہ سے اپنے آپ پر نازاں ملک رہا ہے۔ عرب دنیا کے مشہور شہروں کے بارے میں ایک روایت ہے۔ Cairo writes، Beirut publishes and Baghdad reads۔ اور واقعی بغداد اِس پر پورا اترتا ہے۔ پڑھنے کا شوقین، کتابوں کا شیدائی اور یہی احساس فخر اس کے شاعروں، ادیبوں اور آرٹسٹوں میں نظر آتا ہے۔ آغاز میں سعدی بدر شاکر السیاب اور عبدالوہاب البیتی کی آزاد شاعری سے متاثر ہوا پھر آہستہ آہستہ ان کے اثر سے نکلتا گیا۔ سعدی یوسف اُس ماڈرن عراقی شاعری کا ایک حصّہ بنا جو اس وقت جماعت jam ’aat al Ruwwad کے نام سے جانی جاتی تھی۔
سعدی یوسف کی شاعری اپنے ملک کی کہانی کو ناقابل یقین حد تک سچائی کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ یہ شاعری اپنا تعلق قدیم میسوپوٹیمیا کی تہذیبی زندگی سے جوڑتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ اور عراق کے جدید نظریات سے ہم آہنگ کرتی ہے۔ اُسے اِس سرزمین پر پھیلی ہوئی غربت، شخصی حکومت اور جنگیں پریشان کرتی ہیں۔ یہاں اُس کی دو ایسی نظمیں ہیں پہلی ”مایوسی“ اور دوسری ”وژن“ کہ جنہوں نے مجھے افسردہ نہیں حد درجہ ملول کیا۔ ان نظموں میں دلی جذبات نے جس انداز میں نوحہ گری کی وہ رلاتی ہے۔
وہ ملک جو ہمارا تھا
وہ ختم ہو گیا
اپنی پیدائش سے پہلے ہی
وہ ملک جسے ہم پسند نہیں کرتے
اس کا دعوٰی ہے
کہ خون ابھی بھی ہماری رگوں میں باقی ہے
یہ عراق اب قبرستان کے کناروں پر ہی پہنچے گا
یہ اپنے بیٹوں کی قبروں سے ملک بھر دے گا
نسلوں کے بعد
نسلیں
شاید اپنے جابر حکمران کو معاف کر دیں
مگر یہ وہ عراق تو نہیں ہو گا
کہ جس کا نام کبھی عراق تھا
پھر وہ ہوا جو طاقت اور تکبّر کے نشے میں مست قومیں ہمیشہ سے کرتی چلی آئی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر حملہ کر دیا تھا۔ میرے شب و روز اِس بربریت اور المناک سانحے پر ماتم کناں تھے۔ تو ایسے میں رونے کے لئے کاندھا تو ہمدرد کا ہی ہوتا ہے۔ میں بھی اپنے ماموں رشید کے پاس بھاگی تھی۔ وہ لاہور میں تھے پر اُن کا دل جیسے بغداد کے گلی کوچوں میں بھٹکتا تھا۔ سعدی یوسف سے چند دن پہلے اُن کی بات ہوئی تھی وہ لندن کے مضافات اوکسبرج میں رہ رہے تھے۔
ہم نے کوئی ایک گھنٹہ بات کی۔ اس کی قلبی کیفیات کا اظہار اس کے ضبط کے باوجود اس کے لب و لہجے سے چھلک چھلک پڑتا تھا۔ وہ جو امن کا بھوکا تھا۔ اپنے وطن کے لیے کِسی مضطرب روح کی طرح تڑپتا تھا۔ اِن قیامت خیز لمحوں میں کِسی اسیر پرندے کی مانند پھڑکتا تھا۔ صدام کا تو خیر وہ روز اول سے ہی مخالف تھا۔ مگر اس سانحے کی تو اُسے امید ہی نہیں تھی۔ کیسے یاس بھرے لہجے میں کہتا تھا۔ ”ہم تو انہیں نکال کر بہت خوش تھے۔ ہم احمق تو جانتے ہی نہ تھے کہ وہ تو گھات لگائے بیٹھے تھے کہ کب پھر موقع ملے اور ہمارے اوپر چڑھ دوڑیں۔“
ٹی وی پر تباہی کے مناظر اور نیشنل میوزیم کی بربادی پر اس کی دل گرفتگی شدید تھی۔ صدام کے انجام سے وہ اگرچہ بہت خوش تھا مگر معصوم عراقیوں کی تباہی پر دکھی اور غمگین تھا۔ سامراجیوں کی اجارہ داری پر ، اینگلو امریکی سیاست دانوں کے جھوٹ اور دھوکے پر مبنی بیانات اور مغربی میڈیا کی جھوٹی رپورٹوں کے پلندوں پر مشتعل بھی بہت تھا۔
اُسے دکھ بھرے جذبات کی اِس منجدھار سے نکالنے کے لیے میں نے اُس کے سامنے امید کی شمع جلائی اور کہا۔ "سعدی تم کڑھنے اور لکھنے کے سوا کیا کر سکتے ہو؟ یہ سوچو یہ صورت عراق کے لیے بہتر بھی ہو سکتی ہے۔ تم انشاء اللہ وطن جاؤ گے۔ بصرہ جاؤ گے۔“ وہ ہنسا۔ میں نے محسوس کیا تھا۔ اس کی ہنسی بڑی مصنوعی اور کھوکھلی سی ہے۔ تاہم میں نے یہ بھی جانا کہ انسان کتنا ہی بڑا دانشور، کتنا ہی بڑا لکھنے والا کیوں نہ بن جائے کہیں وہ کچھ سراب امیدوں کے سہارے بھی ڈھونڈتا ہے۔
جاری ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).