کیا سیکس ایجوکیشن کا مطلب جنسی بے راہ روی ہوتا ہے؟
تخلیق کا عمل بدصورت یا برا کیسے ہو سکتا ہے؟ انسانوں کے جسمانی اعضاء جن میں وجائنا، رحم مادر، بریسٹ اور عضو تناسل شامل ہیں جو افزائش نسل کا اہم ترین حصہ ہیں وہ گندے یا مکروہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ انسانی جسم اور اس سے جڑے ہوئے قدرت کے ودیعت کردہ تقاضے یا حرکیات برے کیسے ہو سکتے ہیں؟
اگر انسان سماجی جانور ہے تو سماجی تعلقات کے بغیر کیسے رہ سکتا ہے اور کیا سماج خلا میں تشکیل پاتا ہے یا انسانی وابستگیوں کے بیچ پنپتا ہے؟ ظاہر ہے سماج انسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے، کیا انسان زمین سے برآمد ہوتے ہیں یا اوپر سے نازل ہوتے ہیں؟ اس حقیقت سے انکار کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ دو انسانوں کے ملاپ یا جنسی عمل کے نتیجے میں انسانی وجود معرضِ وجود میں آ تا ہے، جس کی تشکیل میں مرد اور خاتون کا مساوی کردار ہوتا ہے۔
اگر تخلیق کا عمل دو انسانوں کے جسمانی ملاپ سے معرض وجود میں آ تا ہے تو اس پر گفتگو کرنا یا رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا ایک برا، قبیح یا شرمناک رویہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جس عمل کی وجہ سے معاشرتی تفاعل شروع ہوتا ہے اسے زیر بحث لانے میں کیا قباحت ہو سکتی ہے؟ آ خر کیا وجہ ہے کہ جب کبھی سیکس ایجوکیشن کی بات کی جاتی ہے تو پارسان امہ کا پارا چڑھ جاتا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس موضوع کو نصاب کا حصہ بنانے سے بے حیائی اور گمراہی پھیلے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا انہیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ سیکس ایجوکیشن کا بندوست نہ ہونے کی وجہ سے کس قدر گمراہی پھیل رہی ہے اور سماج میں جنسی درندوں کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ سب سے زیادہ جنسی استحصال چھوٹے بچیوں اور بچوں کا ہو رہا ہے، کبھی سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ اس استحصالی چکر ویو کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ جنسی زیادتیاں بھی وہیں ہو رہی ہیں جہاں دن رات نیکیوں کی ترغیب اور تربیت کے دعوے کیے جاتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ سیکس ایجوکیشن سے خائف بھی وہی رہتے ہیں، اگر پاکیزہ جگہ اور مقدس لوگ اس قبیح فعل سے محفوظ نہیں تو پھر کون محفوظ ہو گا؟ اگر روحانی دائرے اور تسبیحات و عملیات کسی شخص کی اندرونی خباثتوں کو ختم نہیں کر سکے تو سوچنا ہو گا نا کہ خامی یا مسئلہ کہاں پر ہے؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ جب بھی جنسی آ گاہی کی بات کی جاتی ہے تو پارسان کے ذہنوں میں فوری یہ خیال یک دم سے کودنے لگ جاتا ہے کہ اس کا مطلب تو انڈر سٹوڈ ہوتا ہے اور کسی وضاحت کی بھی ضرورت نہیں۔ اب اس طرح کی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنی گفتگو میں خواتین کے جسمانی اعضاء کو بطور گالی استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے، یہ اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ محبت جیسے لطیف جذبے کے اظہار کے لیے بھی انداز سیکھنا پڑتے ہیں، تبھی کہیں جا کر ہوس اور چاہت کا فرق سمجھ میں آ تا ہے۔
سیکس ایجوکیشن مہذب ممالک میں گریڈ ون سے نصاب کا حصہ بنا دی جاتی ہے، عمر کے لحاظ سے بچے اپنے جنسی فیز کے چیلنجز کو ایک غیر محسوس انداز میں سیکھتے جاتے ہیں، ان کے سامنے جنس کا تصور غلط یا درست، جائز یا ناجائز حالت میں ظہور پذیر نہیں ہوتا بلکہ فطرت کے ایک حسین سے جذبے کے طور پر وہ اس حقیقت سے متعارف ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اس حقیقت کو احساس گناہ سے ماورا ہو کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے تو یہاں اس سنجیدہ پہلو کے سامنے نجانے کب سے ممنوعہ کا سائن بورڈ آویزاں کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے ہماری نسل اس عمل کے حقیقی پہلوؤں سے ہی بے خبر رہتی ہے۔
جنسی تعلیم کا مقصد محض جنسی تسکین نہیں ہوتا بلکہ انسانی جسم کی سائنس کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ہوتا ہے، انسانی جسم میں ہونی والی جنسی تبدیلیاں اور جنسی موڈ کی رمز شناسی ہوتا ہے۔ جب جسم سے مکمل آ گاہی ہوگی تو ہی انسانی جذبات و احساسات، باہمی احترام و رضا مندی اور گہرے تعلقات کی حقیقت کا ادراک ہو گا۔
ایک صحت مند اور محبت بھرے رشتے کی بنیاد رکھنے کے لیے یہ سیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ کیسے ایک دوسرے کی نجی حدود کا احترام کیا جاتا ہے۔ ذہنی ہم آہنگی، جنسی حرارت اور احترام باہمی کے بغیر جنسی عمل ایک بے معنی و بے کار عمل ہوتا ہے جس کے بطن سے نا اتفاقی اور بے سکونی جنم لیتی ہے۔ جنسی عمل محض جسمانی اعضاء کا ملاپ نہیں ہوتا بلکہ ذہنی ہم آہنگی اور جذبات کے مد و جزر کو گہرائی سے سمجھنے کا ایک سنجیدہ عمل ہوتا ہے اور یہ سب جنسی تعلیم کے بغیر ناممکن ہے۔
جنسی تعلیم بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے متعلق آ گاہی فراہم کرنے کے علاوہ معاشرتی تحفظ کی شدبد دیتی ہے اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ شعور کا یہ دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور آج تو اس میں تولیدی عوامل، میڈیکل کے گمبھیر مسائل اور جنسی مسائل کے متعلق آ گاہی بھی شامل ہو چکی ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).