میٹھے اور ترش خیالات کی ابھرتی ہوئی شاعرہ کتاب: بہتی نظموں کے کنارے


تبصرہ نگار: بلال مختار

مجھے اک عرصہ سے اشتیاق تھا کہ جو نوجوان شاعرہ صدف شاہد ہیں یہ باقاعدہ کیسا لکھتی ہوں گی۔ پنجاب کی تحصیل و ضلع نارووال سے تعلق رکھنے والی نوجوان شاعرہ کی کئی نظمیں جابجا ورچوئل دنیا میں پڑھنے کو ملتی رہی ہیں۔ مگر چوں کہ یہ اک کتابی صورت میسر نہ تھیں تو چند نظموں کو پڑھ کر رائے دینا ادبی دیانت داری کے دائرے سے باہر معلوم ہوتا تھا۔ حال ہی میں ان کی نظموں کی کتاب۔ ’بہتی نظموں کے کنارے‘ اک ڈیجیٹل پلیٹ فارم پہ شایع ہوئی ہے۔

بالآخر اپنے تجسس کو قائم رکھے ہوئے موصوفہ کے کلام کی ورق گردانی کی اور بہت سی اہم جہتوں کے بارے میں جانکاری ملی ہے۔ اس میں اک اہم پہلو ادب میں تازہ آوازوں کے بارے میں جاننا ہے۔ کیا ہم جدید اردو ادب کی ابھرتی آواز سے قیمتی ادب کے تخلیق ہونے کی امید رکھ سکتے ہیں؟ کیا زبان کا برتنا، جدید استعاروں کو اپنانا اور معنویت کی تہہ مزید گہری کرنا آج بھی اتنا اہم ہے یا بس سطحی موضوعات پہ لکھ کر پاپولر بیان کر دیا جانا کافی سمجھا جاتا ہے؟

سب سے پہلے کتاب کے ٹائٹل پہ نظر دوڑائیے تو اک نوجوان بنچ پہ اکیلا بیٹھا ہوا ہے۔ دور سمندر کے کناروں میں کچھ تلاش کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ اک لالٹین کنارے سے جھانک رہی ہے۔ بنچ کے کنارے پہ شاید کوئی بیٹھا ہوا تھا اور اٹھ کر دور کہیں دوسرے جزیروں پہ چل دیا ہے۔ موسم کہیں ابر آلود ہے۔ اس ٹائٹل سے جڑی اشکال کے ساتھ کتاب کے اندر درج مضامین سے کھوجنے اور عام معنی اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سب سے پہلے جس عنوان نے مجھے اپنی طرف کھینچا وہ تھا ’میم میٹریل‘ ۔ گزشتہ بارہ سے پندرہ سالوں میں میمز بنانے کا رجحان بنا ہے۔ اور ہماری نئی نسل میں میمرز کی اک الگ دنیا بن چکی ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو میمرز اپنا کیلنڈر بناتے ہیں۔ ہر مہینے میں جو ٹرینڈ کرتا ہے اور یوں سال بھر ہنسی مزاح کا مرکز بنا پھرتا ہے۔ شاعرہ کا خیال ہے کہ ہم سکول کالجز اور گھر بار کی زندگی میں پرینکس سے بھرپور لطف لیتے ہیں۔ مگر اسی میم میم کے چکر میں ہمارے ساتھ بھی کوئی انسان محبت کے نام پہ پرینک کر جاتا ہے۔ شاید ہمارا بھی میم کیلنڈر بنتا ہے۔

”۔ سورج مکھی کے کھیتوں میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے
ٓآوازیں لگاتے، تصویریں بناتے
اور ہم جماعتوں کے ساتھ پرینکس کرتے
ہم بھول گئے تھے کہ
ٓاصل پرینک تو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے
اب زندگی ہم پہ ایسے ہنستی ہے
جیسے ہم کوئی meme material ہوں ”
مذکورہ بالا نظم میں دماغ کو ریڈیو کے ساتھ جدید تشبیہ دی گی ہے۔
جیسے ہمارے موبائل فون پہ روز ترسیل ہونے والے وائس نوٹس مل کر اک پلے لسٹ بنا دیتے ہیں۔

مشہور انگریز مصنف جے آر ٹولکین ’ادب میں فرار‘ کو اک مجرم کی آزادی سے منسوب کرتے ہیں۔ وہیں، جان کیٹس کے مطابق فراریت دراصل عام زندگی سے زیادہ بڑی خوبصورتی کو کھوجنے کا رستہ ہے۔ اس کے برعکس ٹی ایس ایلیٹ کے مطابق فراریت کا تھیم ہمیں زندگی سے دور لے جاتا ہے۔ ہم سچائیوں کا سامنا کرنے کی بجائے اک خیالی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ جو ہماری اپنی بڑھوتری اور بہتری کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسی بحث سے دو الگ دنیائیں جنم لیتی ہیں۔

چڑھتے سورج کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی نظم گو صدف شاہد نے اک نظم میں ان ہی دو الگ دنیاؤں کا ذکر سادہ مگر معنویت کے رنگوں میں کیا ہے۔ اک وہ دنیا جو رنگوں سے بھری خوبصورت اور مکمل سی معلوم ہوتی ہے۔ اور ایک وہ دنیا جو محرومیوں سے بھرپور ہے۔ بعد الذکر دنیا اک طرح کا فرار دیتی ہے۔ جیسے قبلائی خان میں ایس ٹی کالرج فراہم کرتے ہیں۔

”سٹرابیری توڑ کر ٹوکری میں رکھتیں کچھ عورتیں
مجھے اس کھیت میں آنے کی دعوت دیتی ہیں
اور کہتی ہیں کہ
اپنی محرومیاں اس کھیت کے باہر اتارو
اور آؤ زندگی کی طرف
چاہت کی طرف
اور بھر لو اپنی خالی ٹوکری آسودگی سے۔ ”
(بحوالہ:سٹرابیری کے کھیت)

نوجوان شاعرہ کی نظموں میں نوسٹلجیا بارہا دفعہ پڑھنے کو ملا ہے۔ مشہور جرمن فلسفی نطشے کے مطابق ماضی سے محبت دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ ایک طرف یہ ہمیں اپنے آج سے دور لے کر جاتی ہے۔ دوسری طرف ماضی کے اہم واقعات اور بامعنی ایام کو ہماری یاداشت کے خانوں میں تازہ کرتی ہے۔ جان کیٹس نے اسی سلسلہ میں انگریزی ادب کی اک شاندار نظم لکھی تھی۔ اس نظم میں انہوں نے انسانی یادوں کو آرٹ کی شکل میں امر ہو جانے کی طرف اشارہ دیا ہے، وہیں ہم انسانوں کی وقتی زندگی کا خیال بھی اک یونان کے مٹکے کے اوپر بنے نقش و نگار کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔

Thou still unravish ’d bride of quietness,
Thous foster-child of Silence and slow Time….
(Ref: Ode on a Grecian Urn, John Keats)

کچھ ایسی ہی ملی جلی ماضی سے لپٹی یادوں پہ صدف شاہد ایسے رقمطراز ہیں :
”میں بچپن کے نخلستان کو پار کر کے
جوانی کے صحرا میں
ننگے پاؤں نکل پڑی ہوں
بے فکری فقط اسی درخت تلے ہے
جہاں برستی بارش میں جامن توڑتے ہوئے
کپڑوں پر داغ لگ جاتے تھے
اب جامن کا پیڑ سوکھ چکا ہے
لیکن
میرا بچپن اسی سوکھے درخت تلے تروتازہ پڑا ہے!
(بحوالہ: جامن کے پیڑ تلے بکھرا بچپن)

انناسی نظموں کو طاہرانہ نگاہوں سے دیکھا جائے۔ تو ان میں سے اکثر عنوانات میں بے ساختگی اور بہاؤ کا عنصر ملتا ہے۔ ایسے جیسے کوئی بچہ دل کی بات بغیر کسی حیل و حجت کے سب کے سامنے کہہ دیتا ہے۔ چلو رقص کریں، میں نظمیں لکھنا چاہتی ہوں، آلوچے کا درخت اور دیگر نمائندہ مثالیں ہیں۔ وہیں کچھ عنوانات جدید دنیا کی نمائندہ زبان سے مستعار معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً نیلی آنکھوں والی دنیا، یادوں کی ٹرین، ڈرافٹ میں پڑا کردار، بیڈ پیرنٹنگ، میم میٹریل اور دیگر۔

دور ِحاضر کے اہم مسائل میں سے بچوں کی پرورش کرنا گمبھیر مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ بچپن کی محرومیوں اور کم توجہی کی وجہ سے بچے اپنی منازل سے دور بھٹکتے ہوئے اور بکھرے سے معلوم ہوتے ہیں۔ شاید ہی دنیا کا کوئی الہامی و سائنسی نکتہ ہو جو بچوں کو پیدا کر کے غفلت کی طرف ابھارتا ہو۔ بلکہ ہر سوچ اچھے ماں باپ بننے کو کامیاب سماج کے لیے کلیدی قرار دیتی ہے۔ اردو کاروں کے پلیٹ فارم پہ شایع ہونے والی کتاب ایک ایسی ہی ترش مگر حقیقت کے قریب لے کر جانے والی نظم پڑھنے کو ملی۔

آزاد نثری نظم کا اک ٹکڑا پیشِ خدمت ہے :
”۔ صوتی آلودگی میں اضافہ کرتے انسان
کالے سائے کی طرح چمٹ جاتے ہیں
۔ اور خود اعتمادی سے دور بھاگنے میں مدد کرتے ہیں
انسان ہوش سنبھالتے ہی مرنا شروع ہو جاتے ہیں
وہ وقفوں میں مرتے ہیں
اور اپنے اندر محبت اور شفقت کا خلا پاکر
ایک دن اس میں دفن ہو جاتے ہیں
اور اس کا کوئی اعلان نہیں ہوتا ”
(بحوالہ نظم: بیڈ پیرنٹنگ)

بطور شاعرہ 151 صفحات پہ بکھری دنیا جہاں کے موضوعات پہ لکھی ہوئی نظمیں ہمیں بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتی ہیں۔ اہم مسائل کی نشاندہی بھی کرتی ہیں وہیں فراریت کے رستے بھی دکھاتی ہیں۔ میرے خیال میں اولین باقاعدہ نظموں کی کتاب کے طور پہ اک کامیاب کوشش ہے۔ قیاس ہے کہ ٹائٹل پیج میں بیٹھا وہی اکیلا جدید دنیا کا جوان ہے جو تنہائی کا شکار ہے۔ کہیں اپنے خوبصورت ماضی کو یاد کرتا ہے جو کہیں سمندر کے اس پار جامن کے درختوں میں کھو گیا ہے۔ کہیں ڈرا دینے والے اولاد کی پرورش کے خیالات اس کی لالٹین کو مدہم کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).