کیا سیکس کے دوران کنڈوم اتارنا ریپ کے زمرے میں آ تا ہے؟
گزشتہ دنوں ہم سب ویب سائٹ پر بی بی سی کا ایک مضمون شیئر کیا گیا، جس کے مطابق برطانیہ کی میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ ”سٹیلتھنگ قانونی طور پر ریپ کے زمرے میں آ تا ہے تاہم اس جرم پر قانونی کارروائی اس لیے نہیں ہو پاتی کیونکہ لوگوں کو علم ہی نہیں کہ یہ بھی ایک جرم ہے۔“ یاد رہے کہ دوران سیکس اپنے پارٹنر کو بتائے بغیر کنڈوم ہٹانے کو سٹیلتھنگ کہتے ہیں۔
یہ مضمون پڑھ کر جہاں معلومات کا ایک جہاں کھلا وہیں ایک لمحے کے لیے حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو انسانی جبلتوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مطلب ایک ایسا عمل جو دو لوگوں کے بیچ کا معاملہ ہوتا ہے اسے بھی حقوق کی صورت میں تحفظ حاصل ہے۔ بس ثابت کرنا ہو گا کہ دوران سیکس اس کے پارٹنر نے رضامندی جانے بغیر کنڈوم اتار دیا جس کی وجہ سے اسے اسقاط حمل کے تکلیف دہ مرحلے سے گزرنا پڑا قانون فوری طور پر حرکت میں آ جائے گا اور ریپ قانون کے تحت ملزم کو سزا کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔
یورپ نے جہاں انفرادیت کا احترام کرتے ہوئے انسانوں کو کچھ آ زادیاں دے رکھی ہیں تو وہیں ان کو قانونی حیثیت و تحفظ کا تحفہ بھی دے رکھا ہے تاکہ کسی کا بھی جسمانی و مالی استحصال نہ ہو اور اپنی فریڈم کو بھی انجوائے کر سکیں۔ جنسی آزادی کے ساتھ جنسی تحفظ، کیا کمال کا کمبینیشن بنتا ہے، مطلب وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ انسانی جبلتوں پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے اور نا ہی اخلاقیات کے نام پر زبردستی دوسروں کے بیڈروم میں گھسنا کوئی اچھا یا مہذب فعل ہو سکتا ہے۔
افغانستان اور ہمارے دیگر مذہبی ممالک کی زیر زمین ثقافت بڑی مشہور ہے، مغل بادشاہ جو عیاشیاں کیا کرتے تھے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، مطلب منہ زور جبلتوں کو وقتی طور پر بہلایا یا دبایا تو جا سکتا ہے لیکن فرار ناممکن ہے، بھلے جتنے مرضی وظائف پڑھ لیں یا روحانی بندوبست کر لیں۔
ہم نے انسانی جبلتوں کو زبردستی کنٹرول کرنے کی کوشش کی جبکہ انہوں نے انہی انسانی تقاضوں کو نجی دائرہ کار میں داخل کرتے ہوئے نا صرف قانونی تحفظ دیا بلکہ حفاظتی اقدامات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے انسانوں کو باشعور بنانے کی کوشش کی۔ ہم تبلیغ و تلقین کے ذریعے سے لوگوں کو نیک پاک یا فرشتے بنانے کے چکروں میں پڑے رہے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائے۔ مہذب دنیا نے انسانوں کو چوائسز متعارف کروائیں اور ان کا اخلاقی داروغہ بننے کی بجائے ایک ریاستی باشندے کے طور پر ان پر کچھ حقوق و فرائض لاگو کیے تاکہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔
کنڈوم بھی تو انہی کی دین ہے نا جنہیں ہم کفار کہتے ہیں، یہ ایک طرح سے جنسی تحفظ کی ایک صورت ہی تو ہے جس کے ذریعے سے ہم ”ان وانٹڈ“ حمل سے بچ سکتے ہیں۔
وہاں بنا اجازت کنڈوم اتارنے کو ریپ اور قابل گرفت جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں زیادہ آ بادی کو قابل فخر عمل تصور کیا جاتا ہے خاندانی منصوبہ بندی تو بہت دور کی بات ہے۔ یہاں تو شادی کو بچوں کے پیکیج کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، بلکہ اگر تھوڑا سا وقت زیادہ بیت جائے تو سب سے پہلے اپنے ہی گھر والے بہو کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ مطلب ہم اپنے گھر کوئی گوشت پوست کا انسان نہیں لاتے بلکہ بچے پیدا کرنے والی مشین لاتے ہیں جس نے نا صرف درجنوں بچوں کو پالنا بھی ہوتا ہے اور ایک بڑے سے کنبے کی کھانے پہنانے کی صورت میں دیکھ بھال بھی کرنا ہوتی ہے۔
زندگی انسانی جبلتوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہوا کرتی ہے جس میں پیار و محبت اور جنسی تقاضے اس بندوبست کا جزو لاینفک ہوتے ہیں۔ اب اس قسم کی باتیں تو الف لیلوی سی لگتی ہیں، پیار، محبت، احترام باہمی یا خاتون کے وجود و ذہن کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا ایسے جذبے ہمارے ہاں تو ویسے ہی مفقود ہوچکے ہیں۔
سٹیلتھنگ کا تصور یا انسانی وجود کا احترام تو ایسے معاشروں میں پایا جاتا ہے جہاں انسانوں کے انفرادی حقوق کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اور انفرادی باؤنڈری کا احترام کیا جاتا ہے۔
- ایم اے ”مطالعہ پاکستان“ کے ایک اسٹوڈنٹ سے گفتگو۔ - 23/01/2025
- تعلیمی زبوں حالی پر پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کا مرثیہ - 20/01/2025
- حسن اللّٰہ یاری اور اویس اقبال کے مابین ایک لاحاصل سی بحث - 18/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).