اسکول کے بچوں کے مسائل اور انتظامیہ کی لاپرواہی
ہمارے معاشرے کے کئی ایسے مسائل ہیں جو زیر بحث نہیں لائے جاتے، جن کے حوالے سے آگہی ضروری ہے۔ ان میں بیشتر مسائل کا تعلق بچوں سے ہے۔ بچوں کو زندگی میں مختلف مشکلات کا سامنا رہتا ہے، بیشتر اوقات والدین کی موجودگی کی بدولت ان مشکلات کا سد باب ہو جاتا ہے لیکن کئی ایسے مواقع ہوتے ہیں جب ان کی راہنمائی یا ان کے بچاؤ کے لئے کوئی بڑا موجود نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اسکول میں بچے گھنٹوں کے لئے تنہاء ہوتے ہیں اور ان کی سرپرستی کے لئے کوئی موجود نہیں ہوتا، ایسی صورت میں اساتذہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بطور بچوں کے روحانی سرپرست، ان کا خیال رکھیں۔ لیکن ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے ہاں اس بات کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہمارے اسکولوں کی انتظامیہ کو پیسے بنانے سے فرصت ہو تو ہی وہ بچوں کے مسائل، ان کی تربیت پر توجہ دیں اور معاشرے میں اپنے اہم کردار کو بھی پہچانیں۔
ہمارے سامنے لاہور کے ایک نجی اسکول میں رو نماء ہونے والے واقعہ کی مثال موجود ہے کہ کس طرح اسکول انتظامیہ نے متاثرہ لڑکی اور اس کے خاندان کو الزام واپس لینے پر مجبور کیا اور دھڑلے سے قصور وار لڑکی کا ساتھ دیا جس نے اپنی ہم جماعت لڑکی کو ڈرگز کے استعمال سے انکار پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ بلا شبہ یہ ایک مختلف انتہاء ہے لیکن ہمارے اسکولوں میں بچوں کو آئے روز ایسی مشکلات سے ہم کنار ہونا پڑتا ہے جہاں وہ اپنے ہم جماعتیوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتے ہیں، بالخصوص لڑکے۔ اس کی وجوہات میں انتظامیہ اور اساتذہ کی غفلت اور اس موضوع سے متعلق بطور معاشرے کے ہماری عمومی لاپروائی ہے۔ انتظامیہ کو درست کرنے اور اساتذہ کی تربیت پر بھی اکثر اوقات غور و خوض کیا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں بچوں کو بھی ایسے قواعد سکھانے کی ضرورت ہے جن سے وہ اسکول میں تنہاء وقت میں مستفید ہو سکتے ہیں۔ ہم سب زندگی کے اس تجربے سے واقف ہیں جہاں کلاس میں کوئی کمزور یا اپنے بچاؤ کا خاطر خواہ حامل نہ ہونے والا انسان ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف سب کی ناک میں دم کیے رکھنے والا ایک نیم چھٹ بھائی ہوتا ہے جس نے اپنی حرکات کے سبب اپنے ہم جماعتیوں کا جینا دوبھر کیا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں عموماً بچوں کو یہی سمجھایا جاتا ہے کہ معاملہ انتظامیہ یا اساتذہ کے سپرد کر دیا جائے۔
لیکن جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، ہمارے ہاں انتظامیہ اور اساتذہ کا کردار اس ضمن میں مایوس کن نظر آتا ہے۔ چنانچہ، بچوں کو اپنی مدد آپ کے تحت کوشش سے پرہیز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مسلسل خاموشی بالآخر لڑائی کا سبب بنتی ہے جب انسان خاموشی سے غصہ پیتا رہے اور جواب نہ دے تو انسان اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے اور جب معاملہ اس کی برداشت سے نکل جاتا ہے تو اختلافات کی نوعیت سنگین ہو کر ہاتھا پائی تک آ جاتی ہے۔ ویسے تو ہاتھا پائی کی گنجائش شروع سے موجود ہوتی ہے لیکن یہ ناتواں بچے کا صبر ہے کہ وہ اپنے کمزور ہونے کی مجبوری کے تحت خاموشی سے لوگوں کا نامناسب طنز و مزاح سہ لیتا ہے، وگرنہ اگر پہلی مرتبہ ہی میں جواب دینے کی جسارت کی جائے تو مقابل فرد سے زور آزمائی یقینی بن جائے۔ یہی وہ نقطہ ہے جو سمجھنا ضروری ہے کہ مکمل طور پر خاموشی اختیار کرنا بھی مناسب نہیں کہ اس سے بچے کا استحصال جاری رہے گا تو پھر جواب دینا بھی درست نہیں کہ اس سے جھگڑے کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے اور بالآخر نقصان اس کمزور بچے کا ہوتا ہے جس کی حمایت میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔ درمیانی راستہ یہ ہے کہ مناسب انداز میں پریشان کرنے والے انسان کو با خبر کر دیا جائے اپنی ناراضگی کے متعلق، بغیر اس کو پریشان کیے یا ہلکے پھلکے انداز میں طنز کا جواب طنز سے دے دیا جائے۔
عین ممکن ہے کہ وہ شخص جذباتی انداز میں پلٹ کر وار کرے کیونکہ وہ ذرا سی بات پر دماغی طور پر الجھ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جذباتی اور دماغی لحاظ سے کمزور ہونے کی بدولت ہی دوسروں کو پریشان کرتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات کے تابع ہوتے ہیں نا کہ جذبات ان کے تابع۔ ایسے بچوں کے ساتھ ہمدردی ضرور کی جا سکتی ہے کیونکہ ان کے اس برتاؤ کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن پھر وہ دوسرے بچوں کے نفسیاتی طور پر کمزور ہونے کی بھی وجہ بنتے ہیں اور پھر یہ معاملہ سلسلہ وار جاری رہتا ہے جس کی لپیٹ میں نہ جانے کتنے انسان آتے ہیں۔ اس لئے ایسے بچوں یا انسانوں سے آخر میں دوری ہی اچھی ہے۔ کئی بچوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ دوری اختیار کرنے سے یا جواب نہ دینے سے کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا کہ جس میں ایک باپ نے اسکول میں اکثر ہم جماعتیوں کی تضحیک اور تمسخر کا نشانہ بننے والے اپنے بیٹے کا ذکر کیا جس کا خیال تھا کہ اس کے ساتھ تضحیک آمیز رویے کی وجہ اس کا کمزور ہونا اور باقیوں کا طاقتور ہونا ہے جبکہ اس کے باپ کا کہنا تھا کہ یہ انسانوں کا نفسیاتی و دماغی مسئلہ ہوتا ہے اور وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کیونکہ کسی زمانے میں وہ بھی اپنے ہم عمر لڑکوں کو بلا وجہ پریشان کرتا تھا۔
بہرحال، اگر بقاء کے نظریے سے بھی دیکھا جائے تو آج باقی رہ جانے والے ہم لوگ اور ہمارے آبا و اجداد وہ نہیں جو محض جسمانی لحاظ سے طاقتور تھے بلکہ وہ ہیں جنھوں نے صحیح وقت پر صحیح فیصلے لئے، جذبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے۔ لہٰذا بقاء کے نظریے کے مطابق بھی اگر کوئی بچہ کلاس کے کسی طاقتور چھٹ بھئے سے کنارہ کشی کرتا ہے، تو یہ اس کا اپنے لئے بہترین فیصلہ ہے جو دماغی لحاظ سے فعال انسان کے لئے ہی ممکن ہے اور اس طرح وہ کمزور ثابت نہیں ہوتا بلکہ دانشمند قرار پاتا ہے۔ خاص کر ایک ایسے شخص کے مقابلے میں جو محض جذبات کے بہاؤ میں ادب و تمیز سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہی وہ بچے ہوتے ہیں جو اپنے ہم جماعتیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے اساتذہ کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔ آج کل ہمارے ہاں کول بننے کا رواج ہے جس کے تحت بد نظمی اور بے ضابطگیوں کو سراہا جاتا ہے مگر میں نے معذرت کے ساتھ اس ٹرینڈ کو توڑتے ہوئے ہمارے اس نئے معاشرتی رجحان پر تنقید کی ہے اور حیران کن طور پر میری طرف سے ایسے عناصر پر تنقید معمولی نہیں کیونکہ میرا تعلق بھی پاکستان کی نوجوان نسل سے ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ غلط کو غلط نہ کہا جائے اور خوامخواہ غیر اخلاقی و غیر انسانی حرکات کو مذاق اور یادوں کے ساتھ منسوب کیا جائے۔ اور یہ کہ دونوں عناصر میں فرق کرنے کی تمیز ہونا اور اس کا شعور ہونا لازمی ہے۔ جو آپ کے لئے مذاق ہو، ضروری نہیں کہ وہ دوسرے کے لئے بھی مذاق ہو۔ ہمارا معاشرہ جس اخلاقی پستی سے دوچار ہے، اس سے بچاؤ تقریباً ناممکن معلوم ہوتا ہے جہاں غیر اخلاقی حرکات کرنے والوں کو اسٹائلش گردانا جاتا ہے اور جہاں ہم اسکول انتظامیہ سے ذمہ دار ہونے کی امید بھی نہیں کر سکتے۔
- پاک فوج ریاست کا حصّہ یا ریاست؟ - 23/05/2025
- ہندوستان اور پاکستان: خدارا عقل کریں - 08/05/2025
- ٹیرف جنگ کا فاتح کون؟ - 15/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).