راجہ انور کی ماضی کی یادوں کا حمام
راجہ انور کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ ہم انھیں اپنے زمانہِ طالب علمی سے جانتے ہیں اور انہی دنوں میں راولپنڈی میں ایک دفعہ ان سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ بہت عرصہ بعد دوسری ملاقات برمنگھم میں اُن کے کالموں کی کتاب ”بازگشت“ کی تقریب رونمائی میں ہوئی۔ 2022 ءمیں برطانیہ میں قیام کے دوران ایک دن سدرہ بیٹی نے ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں چلنے کی دعوت دیتے ہوئے بتایا کہ اس کی سہیلی انیتا راجہ کے ابو کی کتاب کی تقریب ہے۔ آپ بھی چلیں۔ دوسرے دن میں بھی سدرہ بیٹی کے ساتھ تقریب میں چلا گیا جہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ یہ تو راجہ صاحب کی کتاب کی رونمائی ہے اور انیتا اُن کی بیٹی ہیں۔ راجہ صاحب سے یہ میری دوسری بالمشافہ ملاقات تھی۔
اس تقریبِ رونمائی کی روداد راقم نے قلم بند کی۔ راجہ صاحب نے اس تحریر کو بہت پسند کیا اور بیٹی سے نمبر لے کر مجھے شکریہ کا فون بھی کیا۔ خوش قسمتی سے پچھلے سال برمنگھم میں ہی ان کے ساتھ ایک دن گزارنے کا موقع ملا۔ گورڈن کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ یونین کی سیاست، جھوٹے روپ کے درشن اور چھوٹی جیل سے بڑی جیل تک کی تیاری کے واقعات، ذوالفقار علی بھٹو سے ابتدائی ملاقاتوں اور پیپلز پارٹی کے قیام سمیت ان کی کتابوں پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔
ضیاءالحق کے مارشل لاء کے بعد کابل اور یورپ میں جلا وطنی کی زندگی اور سیاسی جد و جہد پر اُن سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اس طویل نشست میں ان کے گورڈن کالج کے زمانہ کے دوست اور ہم جماعت دوست ملک بھی موجود تھے۔ انھوں نے بھی راجہ صاحب کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں۔ راجہ صاحب جسمانی طور پر کچھ کمزور نظر آئے لیکن اس عمر میں بھی ان کا حافظہ کمال کا تھا۔ ماضی کی ساری باتیں جزئیات کے ساتھ ابھی تک ان کے حافظہ میں موجود ہیں۔
پچھلے کئی ہفتوں سے راقم اُن سے ملنا چاہ رہا تھا لیکن کچھ صحت کے مسائل اور خانگی مصروفیات اس ملاقات کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔ بک کارنر جہلم کی وساطت سے آج اُن کی نئی کتاب ”ماضی کا حمام“ میرے ہاتھوں میں ہے۔ اپنی عادت کے مطابق دو دن میں کتاب کا مطالعہ بھی کر لیا۔ یہ کتاب راجہ صاحب کے بازگشت کے نام سے مختلف اخباروں میں چھپنے والے کالموں کے انتخاب کا مجموعہ ہے جن کی از سر ِنو نوک پلک سنوار کر کتاب میں شامل کیا ہے۔ ”ماضی کا حمام“ کا دیباچہ مشہور جرنلسٹ اور کالم نگار جاوید چودھری نے تحریر کیا ہے۔ انھوں نے راجہ صاحب سے اپنی ملاقاتوں اور ان کی زندگی سے جڑے حالات و واقعات کا تفصیلاً ذکر کرنے کے علاوہ کتاب میں چھپنے والے کالموں کا بڑی خوبصورتی سے جائزہ لیا ہے۔
راجہ صاحب نے اپنے لکھنے کی ابتدا کرنے کے حوالہ سے مختصراً بات کرتے ہوئے کتاب کے متن پر اپنی گفتگو رقم کی ہے۔ انھوں نے اتنی خوبصورت کتاب ترتیب دینے پر بک کارنر کے روح رواں امر شاہد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ کتاب کے آخری صفحات میں ”نگری نگری پھرا مسافر“ کے نام سے راجہ صاحب کی سیاسی فکر کے پیروکار، کشمیری قوم پرست آزاد کشمیر کے معروف قانون دان ذوالفقار علی کا راجہ صاحب کی حیات، سیاسی جدوجہد اور ادبی افکار پر ایک سیر حاصل مضمون شا مل ہے۔
راجہ صاحب 1996 ءسے بازگشت کے نام سے کالم لکھتے رہے ہیں۔ یہ کالم روزنامہ جنگ اور روزنامہ دنیا کے علاوہ دوسرے اخبارات میں چھپتے رہے ہیں۔ اس سے قبل راجہ صاحب کے کالموں پر مشتمل کتاب بازگشت چھپ چکی ہے۔ راجہ صاحب کے یہ کالم ملک میں سیاسی اتار چڑھاؤ، معاشرتی برائیوں، اپنے دیرینہ ساتھیوں اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ بقول ذوالفقار احمد راجہ وہ اپنی تحریروں میں رومانوی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات، سماجی تبدیلیوں کے مختلف پہلوؤں اور انسانی سوچ و فکر کے ایک نئے سماج کے قیام کا تذکرہ کرنا نہیں بھولے۔ ان کی تحریروں کی یہی خوبصورتی و چاشنی ہے جو قاری کو اپنی طرف کھینچتی چلی جاتی ہے۔
”ماضی کا حمام“ راجہ صاحب کے مختلف موضوعات پر لکھے ہوئے 75 کالموں پر مشتمل ہے۔ راقم نے کالموں کو موضوع کے اعتبار سے آٹھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ موضوعات کی یہ درجہ بندی سماجی، سیاسی، شخصیات، پیپلز پارٹی، بین الاقوامی حالات، کشمیر، فلسطین اور متفرق کے طور پر کی گئی ہے۔ راقم نے اپنی سمجھ بوجھ سے یہ درجہ بندی کی ہے۔ دوسرے قارئین کی درجہ بندی اس سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔
سماجی درجہ بندی میں شامل کالم ”حادثہ“ ، ”شادی کے نام پر ٹھگی“ اور ”ڈاکٹر یا درندے“ ہمارے معاشرے کے انحطاط پذیر سماجی رویوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ کیسے اس ملک کے ادارے عوام کو لوٹتے ہیں اور ان کا کوئی پر سانِ حال نہیں ہوتا۔ کیسے شادی کے نام پر معصوم اور ضرورت مندوں افراد کو لوٹا جاتا ہے۔ کیسے نجی اور سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر مریضوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
سیاسی درجہ بندی میں راجہ صاحب کے کالم ”جادوگری“ ، ”عفریت“ ، ”افغانوں سے زیادہ افغان“ ، ”سقراط اور سینچو پانزہ“ اور ”لمحہ فکریہ“ کے علاوہ دوسرے بہت سے کالم بھی شامل ہیں۔ آپ نے اِن مضامین میں ملک کی سیاسی اشرفیہ کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں۔ راجہ صاحب اگر اپنے مضامین میں سیاسی حالات کا تجزیہ کر کے سیاست اور سیاست دانوں کی خرابیاں بیان کرتے ہیں تو ساتھ ہی ان کا ممکنہ حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ جنرل مشرف اور ق لیگ کا تعلق ہو، ضیاءالحق کے مارشل لاء کے مضمرات اور جماعت اسلامی، افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پاکستانی اور عالمی معیشت پر اثرات، جنرل مشرف کے دور میں جہادی اور مذہبی تنظیموں کے بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر راجہ صاحب اپنا نقطہ نظر بیان کرتے رہے ہیں اور ان حالات پر قابو پانے کے لیے مثبت اقدام اٹھانے پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔
راجہ انور اپنے پرانے ساتھیوں کو نہیں بھولتے، اپنے مضامین میں اُنھیں زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چراغ شب میں وہ ظہیر کاشمیری، منیر نیازی، مسعود منور اور استاد امانت علی خان کو یاد کرتے ہیں۔ اپنے علاقے کلر سیداں کے علم دوست داروغہ زندان سجاول خان کی شخصیت کے آئینے میں اپنے رویوں کو نرم رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ دادا امیر حیدر بھی ان کے علاقے کی ایک علم دوست شخصیت تھی جنھوں نے اپنی خاندانی جائیداد بیچ کر علم کی روشنی پھیلانے کے لیے سکول بنانے کی روایت قائم کی۔
راجہ صاحب اس روایت کو زندہ رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ الوداعی نذرانہ عقیدت میں اپنے ہی علاقہ کے سیاست دان چودھری محمد خالد کی علاقہ میں تعمیر و ترقی کے کردار کی تعریف کرتے ہیں۔ اہل قلم عموماً ً بڑے خوددار ہوتے ہیں۔ کہوٹہ سے تعلق رکھنے والے ابنِ آدم محمد بنارس بھی پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی خوددار قلم کار کو راجہ صاحب پوٹھوہار کا ٹالسٹائی قرار دیتے ہیں اور علاقہ سے تعلق رکھنے والے حکومتی عہدے داران کی نالش کرتے ہیں جن کی موجودگی میں یہ قلم کار کسمپرسی کی حالت میں جان کی بازی ہار گیا۔ فیلڈ مارشل میں وہ ایوب خان کے متعلق کچھ سچی باتیں لکھی ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو راجہ صاحب کے پسندیدہ لیڈر تھے جن سے متاثر ہو کر انھوں نے طالب علمی کے دور میں اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا۔ راجہ صاحب کا شمار پیپلز پارٹی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اپنے مضامین دست نگری، ڈسپلن، موتیاں والی سرکار، محترمہ کے مسائل کا منبع اُن کی اپنی ذات ہے میں وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی پالیسیوں پر تنقید اور حکومت کو درپیش مشکلات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں اپنا نظام مربوط بنانے پر زور دیتے ہیں۔
راجہ صاحب بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ پاکستان کے متعلق امریکہ اور یورپ کی پالیسیوں کے وہ ہمیشہ ناقد رہے ہیں۔ طیارے کا دھواں میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ امریکہ کے معاشی اور سیاسی تعلقات کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں اور افغانستان پر پاکستان کو واضح پالیسی اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر پر ان کے کالم ”فاتح کون“ ، ”مجاہد اول کی کلاسیکی گگلی“ اور ”انسان کو زندہ رہنے دو “ خاصے کی چیز ہیں۔
”کلمہ اک پکاریا، دو جانا ہیں کوئی“ میں وہ لکھتے ہیں کہ سکھ مذہب کے بانی گورونانک قرآن مجید اور رسول اکرم ﷺ اسلام کی تعلیمات کو سچا اور صحیح مانتے تھے۔ اگر مغل شہنشاہ جہانگیر سکھ پیشوا گورو ارجن سنگھ کو قتل نہ کراتا تو آج پنجاب کے حالات بہت مختلف ہوتے۔ ”دہشت گردی کا خاتمہ“ ، ”کہاں سے شروع کریں“ میں پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کے واقعات کا گہری نظر سے جائزہ لے کر اس کے اسباب اور فرقہ ورانہ، مذہبی اور لسانی شدت کو کم کرنے پر حکومت کو ایک مثبت حکمت عملی تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ہی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے تباہی کا جائزہ لیتے ہوئے چرنوبل کا ایٹمی ری ایکٹر پھٹنے سے کے مضمرات کا ذکر اپنے کالم ”برصغیر کو تباہی سے بچاؤ“ میں کرتے ہوئے وہ دونوں پڑوسی
ملکوں کو امن و شانتی سے رہنے کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس خطہ کو تباہی سے دور رکھیں۔ اسی طرح ”دہکتی آگ“ اور ”دھرتی کی کوکھ“ میں وہ دونوں ممالک کو ایٹمی ہتھیاروں سے انسانیت کو درپیش خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں خطرناک ہتھیار جمع کرنے کی دوڑ سے دور رہنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ماضی کے حمام کے آخری اور قدرے طویل مضمون ”فیصلہ بے نظیر پر چھوڑتا ہوں“ میں انھوں نے محترمہ اور ان کے رفقاءکار کے لگائے گئے الزامات پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ محترمہ نے اپنے گرد ایسے لوگ اکٹھے کر رکھے ہیں جو ضیاءالحق کے مارشل لاء میں حکومت کے ساتھی تھے۔ انھوں نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے حکومت سے کوئی ذاتی فائدہ لیا ہو تو اُن کا سر حاضر ہے۔
راجہ انور کے قلم میں روانی ہے۔ ان کے پاس کمال کا ذخیرہ الفاظ ہے۔ ان کا حافظہ کمال کا ہے۔ وہ بڑی سادہ اور آسان زبان میں لکھتے ہیں اسی لیے ان کی نثر پڑھتے ہوئے قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔ امید ہے کہ ان کی گورڈن کالج اور پنجاب یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ سیاست کی یادداشتوں پر مبنی کتاب بھی جلد منظر عام پر آئے گی۔ راجہ صاحب کی لمبی صحت مند زندگی کے لیے ڈھیروں دعائیں۔
- ہمارا فرسودہ خاندانی نظام بدلنے کی ضرورت - 14/04/2025
- گٹیالیاں پتن اور کرشن چندر کا رومانس - 10/03/2025
- ادب احترام اور وفا کا دوسرا نام: چودھری علی محمد - 23/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).