سر سکندر حیات خان آف واہ سے سردار سکندر حیات تک
قیام پاکستان سے قبل کی سیاست کے ایک اہم سرخیل متحدہ پنجاب کے پہلے مسلمان گورنر و پہلے مسلمان وزیر اعظم سر سکندر حیات خان مرحوم آف واہ کے پوتے، ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ سے دو مرتبہ 1988 اور 1993 میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے اور 1993 میں صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات رہنے والے سردار سکندر حیات خان کی چند ماہ بیشتر 7 اکتوبر 2024 بروز سوموار کو لاہور میں رحلت سے پنجاب کی سیاست سے واہ گارڈن کے کھٹڑ خانوادے ”حیات فیملی“ کی تین نسلوں کی سیاست کا نہ صرف اہم چراغ گل ہوا بلکہ یوں سمجھیں کہ اس خانوادے کی سیاست کا ایک اہم باب بند ہو گیا ہے۔
مرحوم سردار سکندر حیات نے ایک ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جن کی سیاست کا طوطی پورے برصغیر میں بڑھ چڑھ کر بول رہا تھا نہ صرف ان کے دادا پنجاب کے پہلے مسلمان وزیر اعظم اور گورنر رہے تھے بلکہ ان کے دادا کے بڑے بھائی سر لیاقت حیات خان بھی ریاست پٹیالہ کے وزیر اعظم رہے تھے اور خود ان کے والد سردار شوکت حیات خان مرحوم اپنے والد سر سکندرحیات خان مرحوم کی رحلت پر برطانوی انڈین آرمی سے بطور میجر الگ ہو کر خضر حیات ٹوانہ کی متحدہ پنجاب کی حکومت میں کابینہ میں شامل کیے گئے تھے جنہوں نے بعد میں صوبائی کابینہ سے الگ ہو کر تحریک پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ بھرپور جدوجہد کی جس کے اعتراف میں قائداعظم نے انہیں ”شوکت پنجاب“ کا خطاب دیا تھا۔
سردار سکندر حیات کا نام ان کے دادا سر سکندر حیات کے نامِ نامی کی مناسبت سے رکھا گیا اور یوں سیاست اور سیاسی تربیت انہیں گُھٹی میں ملی اور خود وہ زمانہ طالبعلمی سے ہی بطور طالبعلم رہنما فیلڈمارشل ایوب خان کے مارشل لا کے دور میں سیاسی و احتجاجی تحریکوں میں بڑے متحرک رہے اور ان کے والد سردار شوکت حیات کو جنرل ایوب کی مخالفت اور قائداعظم کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخابات میں بھرپور ساتھ دینے کی پاداش میں سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کے لئے نہ صرف واہ گارڈن کو راولپنڈی میں شامل کیا گیا بلکہ ان کے خاندان اور دیگر عزیز و اقارب کے ملکیتی کئی کاروبار مثلاً اٹک، واہ اور پنڈی کے بجلی گھروں سمیت لاہور میں واقع ان کی ملکیتی زمین اور کاروبار قومیا لئے گئے تھے اور ہر قسم کی انتقامی کارروائیاں روا رکھی گئیں جبکہ ان کے گروپ و دھڑے کے لوگوں کو بھی حکومت و انتظامیہ کی طرف سے مختلف قسم کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود سردار شوکت حیات مرحوم سیاسی محاذ پر ڈٹے رہے اور کونسل مسلم لیگ کے ایک اہم رہنما کے طور پر ملک گیر شہرت حاصل کی۔
سردار سکندر حیات نے ایچی سن کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور زمانہ طالبعلمی میں ہی بطور طالبعلم رہنما ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف طلبہ تحریک میں متحرک ہو گئے تھے۔ وہ پنجاب بھر کے کالجوں میں جا کر طلبہ یونینز کے اجتماعات سے ایوبی آمریت کے خلاف خطاب کرتے تھے جس کی پاداش میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ انہوں نے بڑی بہادری سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ایک بہادر طالبعلم رہنما کے طور پر سامنے آئے جنہیں ایوبی آمریت میں لاہور قلعہ کے عقوبت خانے میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا اور ان کو برف کی سلوں پر لٹا کر طلبا تحریک سے دور رکھنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن انہوں نے ہر قسم کی سختی، جبر اور تشدد کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
فیلڈمارشل ایوب کے بعد سردار شوکت حیات پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے حوالے سے چلی ہوئی لہر اور کنونشن مسلم لیگ جس کے بانی ایوب خان تھے کی طرف سے روا رکھی گئی انتقامی کارروائیوں کے باوجود 1970 کے قومی انتخابات میں کیمبلپور موجودہ اٹک کی دو تحصیلوں فتح جنگ اور اٹک پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے سے کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر نہ صرف ایم این اے منتخب ہوئے بلکہ تحصیل تلہ گنگ اور پنڈی گھیب پر مشتمل دوسرے حلقے سے بھی کونسل مسلم لیگ کے ہی امیدوار اور ان کے گروپ کے دیرینہ اتحادی پیر صفی الدین آف مکھڈ بھی کامیاب ہوئے تھے۔
سردار شوکت حیات نے پارلیمنٹ میں آئین پاکستان 1973 کی تیاری و متفقہ منظوری اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم کے لئے متحدہ اپوزیشن کے ایک اہم اور سرکردہ رہنما کے طور پر بھرپور کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بھی قریب ہو گئے تھے جنہوں نے ان کے صاحبزادوں سکندر حیات اور مقبول حیات کی شادیوں کے دعوت ولیمہ میں خصوصی طور پر واہ گارڈن میں شرکت بھی کی تھی جس پر عام تاثر تھا کہ شاید وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔
سردار سکندر حیات خان طلبہ سیاست کے بعد اپنے والد سردار شوکت حیات کی عملی سیاست میں بھی متحرک کردار ادا کرتے رہے اور انہوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سیاسی اٹھان میں بھی کردار ادا کیا، نہ صرف 1985 میں میاں نواز شریف کی لاہور میں بطور امیدوار ایم پی اے انتخابی مہم میں متحرک رہے بلکہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ جا کر مختلف اضلاع بالخصوص پنڈی ڈویژن میں ایم پی ایز سے نواز شریف کی وزارت اعلیٰ کے لئے ووٹ بھی حاصل کیے اور انہیں وزیر اعلیٰ بنوانے میں اہم اور متحرک کردار ادا کیا تھا لیکن میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے ساتھ ان کی سیاسی ہم آہنگی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی اور وہ بے نظیر بھٹو کی 1986 میں وطن واپسی پر 1988 کے قومی انتخابات سے پہلے 1987 / 1986 میں پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے اور ایک طویل عرصہ تک پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ رہ کر اپنے آبائی علاقہ ضلع اٹک سے بھرپور سیاسی کردار ادا کرتے رہے۔ وہ 1988 اور 1993 میں ایم پی اے منتخب ہوئے جبکہ 1990 اور 1996 میں الیکشن نہ جیت سکے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد 2008 سے 2013 تک رہنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت سے کچھ خوش نہیں تھے جس کی بنا پر غالباً 2013 میں عمران خان سے ملاقات کر کے انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا لیکن عملاً سیاسی طور پر وہ 2013 سے ہی انتخابی سیاست سے الگ ہو کر نہ صرف غیر متحرک ہو گئے تھے بلکہ بڑی حد تک گوشہ نشین ہو گئے تھے جس کی بڑی وجہ یقیناً کینسر جیسے موذی مرض سے ان کی لڑائی تھی اور یہ مرض ہی 7 اکتوبر 2024 بروز سوموار لاہور میں ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔
مرحوم نے اپنی بیوہ، ایک بیٹی، چھوٹے بھائی سردار مقبول حیات خان اور صاحبزادے سردار محمد علی حیات خان سمیت دیگر اہل خانہ اور برادری کو سوگوار چھوڑا ہے۔
مرحوم کے میرے بڑے بھائی ”شہیدِ صحافت“ محمد اسماعیل خان سابق بیورو چیف اسلام آباد روزنامہ فرنٹئیر پوسٹ کے ساتھ بہت اچھے روابط تھے جبکہ میرے والد صاحب محمد یعقوب خان مرحوم و مغفور آف دورداد کارکن تحریک پاکستان کی ان کے بزرگوں کے ساتھ دیرینہ سیاسی وابستگی اور بہت اچھے ذاتی تعلقات کی وہ ہمیشہ قدر کرتے تھے اور 1992 میں ان کی وفات پر وہ بنفسِ نفیس سردار طارق جنگ خان آف نیکا اور ریاست علی خان آف عثمان کھٹڑ کے ہمراہ دعا، فاتحہ خوانی و تعزیت کے لئے ہمارے گاؤں بھی تشریف لائے تھے جبکہ چہلم کی اجتماعی دعائیہ تقریب میں بھی شامل ہوئے تھے۔
مرحوم سردار سکندر حیات نے سیاست میں اپنی خاندانی وضع داری اور وقار کو ہمیشہ ملحوظ رکھا اگرچہ ان کی سیاست کا زیادہ وقت اپوزیشن میں گزرا لیکن مختصر عرصہ کے لئے جب وہ دو دفعہ ایم پی اے منتخب ہوئے تو دوسری دفعہ ایم پی اے بننے کے بعد وہ میاں منظور وٹو کی کابینہ میں پنجاب میں صوبائی وزیر بھی رہے تو انہوں نے تحصیل فتح جنگ میں تعمیر و ترقی کے کئی منصوبے مکمل کروائے یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر آج بھی ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ صرف انہوں نے اپنی وزارت بڑے دھڑلے سے چلائی بلکہ اپنے آپ کو روپے، پیسے کی سیاست اور کرپشن سے بھی دور رکھا ان کی وفات سے کچھ عرصہ بعد فتح جنگ شہر میں ان کی یاد میں منعقدہ تعزیتی تقریب میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان سمیت اہم شخصیات نے انہیں شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اور کھٹڑ قبیلہ کی ایک اہم اور سرکردہ شخصیت غلام سرور خان آف پنڈ نوشہری خان نے بھی انہیں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم 1988 اور 1993 میں پنجاب اسمبلی میں اکٹھے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے اور پھر صوبائی کابینہ میں اکٹھے وزیر بھی رہے تھے لیکن ان کی سفید پوشی کا یہ عالم تھا کہ ایک بڑے خاندان کے فرد ہوتے ہوئے بھی ان کے لئے الیکشن اخراجات برداشت کرنا بھی مشکل ہوتا تھا ان کے ایک عزیز اور برادری دار سردار ساجد محمود خان آف پنڈ فضل خان کا کہنا ہے کہ ”وہ جب صوبائی وزیر مواصلات تھے، ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ امریکہ جانے والے وفد میں شامل تھے، دورے سے واپسی کے بعد میرے پاس ڈیوٹی فری شاپ بلیو ایریا اسلام آباد تشریف لائے، میں ان دنوں وہاں ایڈمن افسر تھا، مجھے کہتے ہیں کہ چلو وزیر اعظم سیکرٹریٹ جا کر کچھ ڈالرز بچے ہوئے ہیں وہ جمع کروا دیں۔ انتہائی ایماندار انسان تھے، ورنہ آج کل تو حکومتی خزانے کو کھانا وزارت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔“
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
- برطانیہ سے پی آئی اے ڈائریکٹ فلائٹس التواء کا شکار - 03/04/2025
- برمنگھم میں قائداعظم ٹرسٹ کے زیر اہتمام یومِ پاکستان کی تقریب - 28/03/2025
- ذوالفقار علی بھٹو اور نشانِ پاکستان - 28/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).