حافظ حسین احمد: کیسی کیسی صورتیں خاک میں پنہاں ہو گئیں
الفاظ کا سحر، منطق کی تلوار، برجستہ گوئی کا دریا، سیاست کے ایوان کا دھڑکتا دل حافظ حسین احمد محض ایک سیاستدان نہیں، بلکہ جرات و استقامت کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ دلیل ایسی کہ مخالف گنگ ہو جائے، جملہ ایسا کہ صحافیوں کو شہ سرخی تراشنے کی حاجت نہ رہے، خبر خود بخود بن جائے، اور جواب ایسا کہ ہر گوشے میں بازگشت چھوڑ جائے وہ نہ صرف جمعیت علمائے اسلام کا معتبر چہرہ تھے بلکہ ایک قومی سیاسی رہنما کے طور پر اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔ ان کی گفتگو میں ایسا بانکپن تھا کہ ہر جملہ منطق اور دلیل سے مزین ہوتا۔ حافظ حسین احمد الفاظ کی نزاکت اور لہجے کے وقار سے آشنا تھے، ”شگفتہ بیانی اور بذلہ سنجی“ ان کا طرہ امتیاز تھا برجستہ جواب میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ جس زمانے میں پنجاب اسمبلی میں مرحومہ بشریٰ رحمٰن اور اسلم گورداسپوری ایک دوسرے کو اشعار میں جواب دیتے، اسی دور میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں حافظ حسین احمد کا شہرہ ہوا، حافظ حسین احمد کی شگفتہ بیانی اور حاضر جوابی کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ عہد مشرفانہ میں ( 2002 ء ) قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کے اہم رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ جب ایم ایم اے کی قیادت زیر عتاب تھی حافظ حسین احمد کو جنرل احتشام ضمیر کا فون آیا، کہ ”آپ ابن زیاد کو مل لیں“ ۔ فون ختم ہوا تو حافظ صاحب سے پوچھا گیا کہ یہ ابن زیاد کون ہے مسکرا کر کہنے لگے ”آج کل طارق عزیز ( پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری ) کا نام ابن زیاد ہے۔ یہ وہ دور تھا جب ایم ایم اے کے لوگ جگہ جگہ احتجاج کرتے، پولیس لیڈروں کو ڈھونڈتی تھی، حافظ حسین احمد حلیہ بدل کر جاتے، خطاب کرتے اور تقریر کے بعد حلیہ بدل کر موٹر سائیکل پر فرار ہو جاتے۔ جب یہ احتجاج قومی اسمبلی کے اندر آ گیا، ایم ایم اے کے لوگ“ ایل ایف او نا منظور ”کی پٹیاں باندھ کر اجلاسوں میں شریک ہونے لگے۔ ایک دن قومی اسمبلی ہال سے نکل رہے تھے حکومتی رکن کشمالہ طارق نے پٹی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ“ آپ ”نا“ ہٹا دیں ”۔ حافظ صاحب کی حس مزاح جاگی، کہنے لگے“ آپ ہاں کر دیں، ہم ”نا“ ہٹا دیتے ہیں۔ حافظ حسین احمد اکثر کہا کرتے تھے، ”میں آئینہ دیکھتا کم ہوں دکھاتا زیادہ ہوں“ ۔ وہ 8 زبانوں پر قدرت رکھتے تھے۔ زبردست طنزو ظرافت کی فطری حس برجستہ اور جرات مندانہ اظہار کی وجہ سے وہ پسندیدہ سیا ست دان تھے۔ ان کی تقریروں سے لوگ اسی طرح لطف اندوز ہوتے، جس طرح مرحوم جسٹس کیا نی کی تحریروں سے۔
کیسی کیسی صورتیں خاک میں پنہاں ہو گئیں
حافظ حسین احمد 35 سال پارلیمانی سیاست کا حصہ رہے، قومی اسمبلی اور سینٹ کے منتخب رکن رہے، جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل، نائب صدر اور مرکزی ترجمان جیسے اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ صحافی برادری میں ان کی مقبولیت دیدنی تھی۔ خبر خود ان کے لبوں سے جنم لیتی تھی۔ پریس کانفرنس کرتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے میڈیا کے دریا کو نیا دھارا مل گیا ہو، تنقید کرتے تو مقابل ماہی بے آب کی طرح تڑپ کر رہ جاتا۔ وہ نہیں رہے، مگر ان کی گونج ہمیشہ ایوانوں، صحافتی محافل، اور سیاست کے میدان میں سنائی دیتی رہے گی۔ ان کے الفاظ، جملے، حاضر دماغی ہمیشہ زندہ رہے گی۔ شاید ان جیسا کوئی اور نہ آئے۔ سیاست میں ظرافت، برجستہ گوئی اور فی البدیہہ جملوں سے سنگلاخ اور مشکل موضوعات کو چٹکلوں میں ہنستے مسکراتے بیان کرنا انہی کا فن تھا۔ حافظ صاحب نے بلوچستان سے جمعیت علماء اسلام کے پرچم تلے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا، اپنی صلاحیتوں، فطری استعداد، نظریاتی استقامت اور نشیب و فراز میں جماعت سے وفاداری سے ملکی سیاست میں نمایاں مقام اور مرتبہ حاصل کیا۔ حافظ صاحب کے ظریفانہ چٹکلے عرصے تک میڈیا کی سرخیوں میں رہتے اور زبان زد عام ہوتے ان میں سے ایک چٹکلہ یہ بھی تھا کہ جب باریش صدر جناب رفیق تارڑ پر جنرل مشرف نے صدارت سے استعفا دینے کے لئے دباؤ ڈالا، تو حافظ صاحب نے نہایت برجستہ تبصرہ فرمایا کہ ”میں رفیق ہوں کسی اور کا مجھے تاڑتا کوئی اور ہے“ ۔ ان کے طنز و ظرافت کی کچھ اور جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔
”نواز شریف حکومت نے پہلی بار بجلی بلوں پر سرچارج لگایا تو اپوزیشن اور عوام کی جانب سے کافی سخت ردعمل آیا۔ سینٹ کے اجلاس کی صدارت بلوچستان کی نورجہان پانیزئی کر رہی تھیں۔ حافظ حسین احمد اٹھے اور کہا وزیر خزانہ سرچارج عزیز صاحب بتائیں گے؟ ابھی سوال نامکمل تھا کہ سرتاج عزیز نے کہا“ انہیں سمجھائیں، میرا نام درست لیں۔ ”حافظ صاحب کہنے لگے :“ آج اخبار میں ”سرچارج“ کا تذکرہ بہت پڑھا، ممکن ہے وہی اٹک گیا ہو۔ وزیر صاحب اپنا درست نام بتا دیں۔ سرتاج عزیز انتہائی غصے میں اٹھے اور کہنے لگے : ”میرا نام سرتاج ہے سرتاج! ! یہ کہنے کی دیر تھی کہ حافظ حسین نے کہا محترمہ چیئرپرسن! آپ انہیں سرتاج (شوہر ) کہہ سکتی ہیں؟ ڈاکٹر نورجہاں پانیزئی بولیں :“ نہیں میں نہیں کہہ سکتی ”حافظ حسین احمد نے جواباً کہا جب آپ انہیں“ سرتاج ”نہیں کہہ سکتیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟
وسیم سجاد سینٹ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے اقبال حیدر (مرحوم) کی عادت تھی کہ وہ اجلاس سے اٹھ کر ہال کے ساتھ والے کمرے میں سگریٹ پیتے۔ چیئرمین نے پوچھا اقبال حیدر کہاں ہیں؟ حافظ حسین احمد نے کہا ”پینے گئے ہیں“ پورے ہال میں قہقہے گونجنے لگے تو اقبال حیدر فوراً ایوان میں داخل ہوئے اور کہنے لگے جناب چیئرمین! انہو ں نے مجھ پر بہتان لگایا ہے ’اقبال حیدر غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے، حافظ حسین احمد اٹھے اور کہا جناب چیئرمین! آپ ان سے پوچھیں یہ سگریٹ پی کر نہیں آئے؟ میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ پینے گئے ہیں۔ حافظ حسین احمد سیاست دانوں، طالب علموں اور صحافیوں میں یکساں مقبول تھے، وہ کئی مرتبہ حامد میر کا ذکر کرتے اور کہتے ”مجھے سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ آپ کے ساتھ“ ایک دن جیو کے ساتھ ”کرنا ہے تو میں کہتا ہوں کہ“ ایک رات جیو کے ساتھ کروں ”۔
14 اگست 1951 ء کو کوئٹہ میں پیدا ہونے والے حافظ حسین احمد 19 مارچ 2025 ء ( 18 رمضان ) کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ وہ دس سال سے گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ان کا ہفتے میں دو بار ڈائیلاسز ہوتا تھا۔ انہوں نے حکومت کی پیشکش کے باوجود سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کرانے سے انکار کر دیا تھا۔
ہر انسان زندگی کی صورت میں موت کی بانہوں میں جھولتا اور پھر ایک دن موت، زندگی کو جکڑ کر ہست سے نیست کر دیتی ہے۔ قصہ مختصر حافظ حسین احمد ہماری سیاست کا ایک یادگار کردار تھے، ان کے ماتھے پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھا۔ حافظ حسین احمد کے چاہنے والے بے شمار ہیں۔
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے
کتنی ویران سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کتنے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
یوں تو محفل سے تری اُٹھ گئے سب دل والے
ایک دیوانہ تھا، وہ بھی نہ رہا، کہتے ہیں
وفاداری اور نظریاتی استقامت کے اس پہاڑ کی وفات سے معتدل، شریفانہ اور ادبی سیاست کا ایک سنہری باب بند ہو گیا ہے۔
- ٹرمپ کا ٹیرف بم: انجام گلستاں کیا ہو گا؟ - 09/04/2025
- رمضان: کل اور آج - 28/03/2025
- حافظ حسین احمد: کیسی کیسی صورتیں خاک میں پنہاں ہو گئیں - 24/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).