پاکستان میں صنفی مساوات: مستقل چیلنجز اور پیش رفت


پاکستان میں صنفی مساوات کی جانب سفر نے کئی مستقل چیلنجز اور کچھ پیش رفت دیکھی ہے۔ صنفی تفاوت کی ایک اہم وجہ معاشرتی صنفی اقدار ہیں۔ پاکستان میں عمومی طور پر مردوں کو خاندان کا کفیل تصور کیا جاتا ہے جبکہ خواتین سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر میں رہیں اور بچوں اور خاندان کے بزرگوں کی دیکھ بھال کریں، اور یہ سارا کام وہ بغیر کسی داد و تحسین یا معاوضے کے انجام دیتی ہیں۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 قانون کے سامنے مساوات اور قانون کے مساوی تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ صرف صنف کی بنیاد پر کسی سے امتیاز نہیں برتا جائے گا۔

2030 تک صنفی مساوات حاصل کرنے کے راستے میں ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان میں اس مقصد کے لیے درکار توجہ اور سرمایہ کاری کی کمی ہے۔ بدقسمتی سے، پاکستانی خواتین کی مالی وسائل اور خدمات تک رسائی محدود ہے۔ وہ اپنے مرد رشتہ داروں جیسے والد، شوہر، بھائی یا بیٹے پر انحصار کرتی ہیں۔ خواتین کی اقتصادی شمولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی وسائل اور خدمات تک محدود رسائی ہے، جیسے کہ قرضے، بینکاری سہولیات، زمین اور کاروبار۔ انہیں ان کے وراثتی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔

مزید برآں، پاکستان اقوام متحدہ کے اس کنونشن کا دستخط کنندہ ہے جو خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے سے متعلق ہے، جو حکومتوں کو یہ پابند کرتا ہے کہ وہ خواتین کے سیاسی اور عوامی زندگی میں مکمل شرکت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں، جن میں انتخابات بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں خواتین کا حصہ صرف 20 فیصد ہے۔ ووٹروں میں بھی صنفی فرق موجود ہے۔

اگرچہ سیاست میں فاطمہ جناح اور بینظیر بھٹو جیسی خواتین نے خواتین کی شرکت کی بنیاد رکھی، اور حالیہ 2024 کے انتخابات میں مریم نواز نے پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کے طور پر تاریخ رقم کی، پھر بھی سیاست کو بطور کیریئر اختیار کرنا معاشرے کے بڑے حلقے کی نظر میں خواتین کے لیے قابلِ قبول نہیں۔

اسی طرح عدلیہ میں بھی بہت کم خواتین اعلیٰ عہدوں تک پہنچتی ہیں۔ 2018 میں سیدہ طاہرہ صفدر کسی بھی عدالت کی پہلی خاتون چیف جسٹس بنیں۔ 2021 میں جسٹس عائشہ اے ملک سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر ہوئیں۔ 11 جولائی 2024 کو جسٹس عالیہ نیلم لاہور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس کے طور پر حلف بردار ہوئیں۔

پاکستان میں تعلیم کے اعداد و شمار نہایت پریشان کن اور مایوس کن ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی 2021۔ 2022 کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً 2 کروڑ 62 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ یہ تعداد دنیا کے 150 ممالک کی آبادی سے زیادہ ہے۔ حکومت نے ان بچوں کو اسکولوں میں واپس لانے کے لیے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔ غربت پاکستان میں صنفی برابری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مالی مشکلات کا شکار خاندان عام طور پر لڑکوں کو تعلیم کے لیے ترجیح دیتے ہیں۔ والدین کا یہ بھی ایک حقیقی خدشہ ہوتا ہے کہ اسکول آتے جاتے یا اسکول کے اندر لڑکیوں کی حفاظت و سلامتی خطرے میں ہوتی ہے، جو والدین کو بیٹیوں کو اسکول بھیجنے سے روکتا ہے۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے ریپ، ہراسانی اور لڑکیوں پر تشدد کے واقعات اس خوف کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ 12 ستمبر 2024 کو ایم پی اے سارہ احمد نے پنجاب اسمبلی میں گوجرانوالہ جنسی زیادتی واقعہ پر توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا تاکہ ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

ایک نجی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ رپورٹ ہونے والے جرائم میں جنسی تشدد سرفہرست تھا، جس کے کل 858 کیسز رپورٹ ہوئے۔

کم عمری کی شادی اور ابتدائی ماں بننے کے رجحان سے نوجوان لڑکیاں تعلیمی اور معاشی مواقع سے محروم ہو جاتی ہیں، جس کے باعث وہ مزید پسماندگی کی طرف دھکیلی جاتی ہیں۔

پاکستان میں خواتین کو لیبر مارکیٹ میں داخلے کے وقت بھی صنفی اقدار سے جڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کہ محفوظ ٹرانسپورٹ کی کمی، کام کی جگہوں پر خواتین کے لیے سہولیات کا فقدان، اور گھریلو ذمہ داریوں کے باعث وقت کی کمی۔

پاکستان نے صنفی مساوات کے فروغ اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کے میدان میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے تاکہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کا سدباب کیا جا سکے۔

تعلیم تک بہتر رسائی کے لیے، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے، حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے اقدامات کیے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا پرائمری اسکول نیوٹریشن پروگرام 6 ستمبر 2024 کو وزیر اعلیٰ پنجاب نے شروع کیا۔

اسی طرح، حکومت نے خواتین کی معاشی شراکت داری اور با اختیاری بڑھانے کے لیے مائیکرو فنانس اسکیمیں، ہنر مندی کی تربیت اور کاروباری معاونت کے پروگرام بھی شروع کیے ہیں۔

اگرچہ پاکستان نے صنفی مساوات کے فروغ میں کچھ پیش رفت کی ہے، مگر ابھی بھی کئی سنجیدہ چیلنجز باقی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان معاشرتی اقدار اور رویوں کو چیلنج کریں جو صنفی امتیاز اور عدم مساوات کو برقرار رکھتے ہیں۔ ایسا کر کے ہم ایک ایسا ماحول تخلیق کر سکتے ہیں جہاں ہر فرد، خواہ مرد ہو یا عورت، ترقی کر سکے اور معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکے، کیونکہ یہ صرف ایک بنیادی انسانی حق ہی نہیں بلکہ پائیدار ترقی کے لیے ایک اہم محرک بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments