نارسائی
سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب اور روبینہ دونوں کو مبارکباد ڈاکٹر صاحب جنہوں نے اتنی اچھی تقریب کا اہتمام کیا اور روبینہ جنہوں نے محنت اور عرق ریزی سے اتنی اچھی کتاب تحریر کی۔ لیکن میں اس کے علاوہ بھی ان کی شکر گزار ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی رہنمائی صبر تحمل اور کتابوں کے لیے شکریہ اور روبینہ کا اس تقریب میں شرکت اور ناول کا رویو لکھنے کی دعوت دینے کے لیے تو شکریہ ہے ہی لیکن ان سے مل کر میری ایک بہت ہی گرؤانڈڈ ادیب سے ملاقات ہوئی روبینہ سے ڈاکٹر صاحب کے توسط سے میرا غائبانہ تعارف تھا اور مجھے لگتا تھا کہ وہ ادیب ہیں فلمساز ہیں تو شاید مغرور ہوں گی لیکن جب آپ غلط ثابت ہوں تو اسے مان لینا چاہیے میری فیملی آف ہارٹ میں دوسری یا تیسری تقریب میں شرکت ہوگی میں دیر سے آئی تھی اور ہال میں داخل ہونے سے پہلے میں ہال وے میں کھڑی بہت نروس تھی کہ اندر جا کر اپنا مضمون پڑھوں یا نہ پڑھوں کہ ایک خاتون ہال سے نکلیں انہوں نے مجھے مسکرا کے سلام کیا اور کہا کہ تقریب شروع ہو گئی ہے آج جائیں میرے لیے کافی سرپرائزنگ تھا کیونکہ ٹورنٹو میں بھی اسلام آباد کے ادیبوں والا ماحول بہت عام ہے یہ خاتون روبینہ تھیں اور میرا روبینہ کی طرف perception بدل گیا کیونکہ میرے لیے اس ادیب کا احترام کرنا کافی مشکل ہے جو عام لوگوں سے بغیر غرور کے نہیں مل سکتا اس لیے روبینہ کو یہ بات یاد ہو یا نہ ہو مجھے ہمیشہ یاد رہے گی اور ان کو انکار کرنا میرے لیے ناممکن تھا حالانکہ اس وقت میرا بیٹا بیمار تھا اور ڈاکٹر صاحب اور روبینہ کی آدھی بات مجھے سمجھ آ رہی تھی اور آدھی نہیں لیکن میں نے پھر بھی حامی بھر لی اور میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے حامی بھری کہ اتنی اچھی کتاب میں پڑھ پاتی اور اس کرائسس میں اس کتاب نے ایک اور روزن مجھ پر کھولا وہ میری اپنی تنگ نظری کا تھا کہ کلاس سٹرگل کی بات کرتے ہوئے ہم ادب میں کلاس سسٹم کی تفریق بھول جاتے ہیں کہ اگر امیر شاعری کرے تو واہ واہ کہ جی ہاورڈ کے پڑھے ہیں شاعری تو ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ لباس کا کلف اور خوشبو جملے اور شعر کی قبولیت آسان بناتا ہے لیکن ایک کم پڑھا لکھا شخص مزدور کسان اگر یہ جسارت کرے تو ہم ترقی پسند دانشور بھی اپنے کپڑے سمیٹ کر بیٹھتے ہیں کہ کہیں ہمارے کپڑے گندے نہ ہو جائیں ہمارا pseudo intellectualism ہمیں ہماری ”میں“ سے آگے دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کلاس سسٹم ادب میں ادیب لفظ بیچتے ہیں غریب کی غربت بیچتے ہیں لیکن اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے اپنے برابر نہیں سمجھ سکتے کیونکہ علم کا غرور ہوتا ہے ان کے مطابق ادیب ہونے کے لیے بھی خاص کلاس ضرورت ہے اور یہ غریب کی بات کر رہے ہیں جس سے بات کرنا ان کی توہین ہے۔
میری نظر میں نارسائی اور روبینہ فیصل کے کے ساتھ اس سے بڑی نا انصافی کوئی اور نہیں کہ اس کو صرف اس تناظر میں دیکھا جائے کہ یہ ایک ادیبہ شاعرہ کی زندگی پر مبنی ناول ہے۔ اس طرح کی کہانی کو اپنے ناول کا مرکز بنانے کے لیے حساس دل و دماغ کی ضرورت ہے۔ اگر اس ناول کو آپ پاکستان کی کسی بھی باشعور عورت کو پڑھنے کے لیے دیں جس کو اس شاعرہ کے بارے میں کوئی علم نہ ہو تو وہ آپ کو بتائے گی کہ روبینہ نے عام پاکستانی عورت کے مسائل کو اپنی ہیروئن کی زندگی کے لینز سے پیش کیا ہے اور یہاں مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ کیونکہ میرا علم اور شوق مطالعہ ہمیشہ کلاس سٹرگل تک رہا ہے اس لیے مجھے ان شاعرہ کے بارے میں سوائے اس کے کہ وہ جدا طرز بیان کی شاعرہ تھیں ہندوستان میں مشہور اور پاکستان میں لعن طعن کا شکار تھیں اور جوانی میں خودکشی کرلی سے زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ اس لیے اس ناول کے پہلے سو ڈیڑھ سو صفحے میں نے ہر قسم کے تعصب اور رنگ سے بے نیاز ہو کر پڑھے اور میرے رونگٹے کھڑے تھے جس کی دو وجوہات تھیں ایک میں خود جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی ہوں اور عورتوں خاص کر لوئر مڈل کلاس اور لوئر انکم کلاس کی خواتین کی زندگی کس قسم کے مظالم کا شکار ہوتی ہے میں اس سے واقف ہوں دوسرے میرے والد کی خواتین کے حقوق کے اور کلاس سسٹم کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے میرے گھر میں یہ سب باتیں ان کی گفتگو کا حصہ رہیں اور جس قسم کے ظلم کا سامنا اور معاشرتی اور ریاستی جبر کا سامنا ان خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ان کو انصاف دلانے کے سلسلے میں کرنا پڑتا ہے میں اس کی عینی شاہد ہوں۔ میرے علم میں ہے کہ یہ باتیں کافی لوگوں کو گراں گزریں گی اور ان کو ایک پروپیگنڈے کا حصہ قرار دیا جائے گا ان سب کے لیے عرض ہے کہ مختاراں مائی ہمارے ہی ملک کی ریسنٹ تاریخ کا حصہ ہیں اسی ناول کی ہیروئن کی طرح جنوبی پنجاب کے ایکُ پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں اجتماعی زیادتی کی پنچایت سے دی گی سزا کے بعد ان کے مجرموں کو سپریم کورٹ نے بری کر دیا لیکن انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہمارے معاشرے کے ایک بڑے طبقے کا خیال تھا کہ ان کو خود کشی کر لینی چاہیے حالانکہ وہ بے گناہ تھیں لیکن ان مردوں کے بارے میں جنہوں نے یہ درندگی کی کبھی کسی نے اس خواہش کا اظہار نہیں کیا وہ جیل سے چھوٹے اور سینہ تان کر وہیں سے جینا شروع کیا جہاں پہ مختاراں کو انہوں نے درندگی کا نشانہ بنے یایا تھا لیکن آج تک مختاراں مائی کو ہراسمنٹ اور اس سوال کا سامنا ہے کہ اس سب کے بعد بھی وہ زندہ ہے اس نے خودکشی کیوں نہیں کی یا میں آپ کو اس ناول کی ہیروئن کی مانند کم سن ہندو لڑکیوں کی سندھ کی عدالتوں میں گونجتی چیخیں سناؤں جو وہاں کے انتہائی محترم پیر میاں مٹھو کے طفیل مسلمان کر کے ادھیڑ عمر مسلمان مردوں کے حوالے کر دی جاتی ہیں 14 15 سال کی بچی اور چالیس پچاس سال کے مرد جن کو ان کی مختلف خدمات کے صلے میں چائلڈ برائڈ سے نوازا جاتا ہے یا نو سال کی فاطمہ فاریو کے بارے میں بتاؤں جس کو رانی پور کے ادھیڑ عمر پیر اسد علی شاہ نے اپنے سب گھر والوں کی گھر میں موجودگی میں ایسے ریپ کیا جیسے روٹین ہو اور کچھ عرصے کی جیل اور عدالت کے بعد اس کمسن بچی کے ماں باپ پر دباؤ ڈال کر دیت قصاص کے تحت باہر آ کے اسی گدی پر تخت نشین ہو کر اپنے علاقے کے لوگوں میں فیض بانٹ رہا ہے۔ کافی صفحات کے بعد جب مجھے مختلف ادبی حوالوں سے اس ناول کے سلسلے ماضی میں جاتے محسوس ہوئے لیکن میرے لیے اس وقت تک ایک نیا در کھلا چکا تھا دروازوں کے پیچھے خواتین کے اوپر تشدد کی کہانی میں اس ناول میں پڑھ رہی تھی۔ جس سے مجھے کوئی سروکار نہیں تھا کہ یہ کہانی کسی کی اصل سٹوری ہے جس کو اس نے exaggerate کیا یا نہیں نہ ہی میں اس بحث میں پڑنا چاہتی ہوں کہ آپ اس خاتون کہ ساتھ sympathy رکھتے ہیں یا grudge۔ کیونکہ اس کو پڑھتا وقت میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ میرا دماغ ایک خالی سلیٹ کی مانند تھا اور اس ناول کی اور مصنفہ کی گواہی کی سچائی یہ ہے کہ میرے دماغ کو اور دل کو یہ سچ لگا۔ میں ایسی لاتعداد عورتوں کو جانتی ہوں جو ڈومیسٹک وائلنس کا شکار ہو کر مر گئیں۔ ملتان کی دو بچوں کی ماں بیس سالہ ثانیہ زہرا جن کو پنکھے سے لٹکا دیا گیا، حیدر آباد کی عینی بلیدی، خیبر پختوانخواہ کی صائمہ رضا، اسلام آباد کی نور مقدم، مری کی ماریہ، ایبٹ آباد کی ماریہ اقبال جب خواتین کے تحفظ کی بات کی جاتی ہے تو یہ ایلیٹ کی بیگمات کی بات نہیں کی جا رہی ہوتی اسی نوے فیصد آبادی کی بات کی جا رہی ہوتی ہے جو غربت اور تعصب اور تشدد کا شکار ہے۔
روبینہ فیصل کی ہیروئن کم عمر ہے کم پڑھی لکھی ہے مفلوک الحال ہے ایک اجڑی ہوئی بیٹی بہن ماں ہے لیکن پھر بھی پڑھی لکھی سوڈو انٹلیکچول عورتوں سے بہتر ہے اس نے کسی مرد کے گناہ پر پردہ ڈال کر اپنا گھر نہیں بسایا اس نے اپنی بھانجی کے ساتھ بدکرداری کرتے ہوئے خاوند کے آگے اسی کی بیٹی پیش کی کہ خدا بھی زمین پر اتر آئے تو اس ہوس کی آگ کو ٹھنڈا نہیں کر سکتا حالانکہ ہمارے ہی اردگرد کتنی عورتیں ایسے مردوں کو برداشت کرتی ہیں جو انہی کی بیٹیوں کو نوچ رہے ہوتے ہیں ایک سو کالڈ عزت بچانے کے لیے یا جھوٹی تسلی کے لیے کہ ہم سہاگن ہیں وہ سہاگن جس کا سہاگ روزانہ اس کی کھوکھ اجاڑتا ہے۔ چائلڈ برائڈ اور میریٹل ریپ اور اس کے نفسیاتی اثرات پر لکھنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس کے جسمانی اثرات تو پھر بھی کچھ نہ کچھ معاشرے کو نظر آ جاتے ہیں لیکن نفسیاتی پہلوؤں پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اس ناول کی ہیروئن کی طرح ان خواتین کو جن آ گئے ہیں پاگل ہے نفسیاتی ہے کہہ کر پیروں کے مزید جنسی تشدد یا پاگل خانوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس طرح ان کی تذلیل کی گئی ہے ان کے بچپن کو کیسے روند دیا گیا ہے۔ بہت دفعہ ایسی کہانی اور لفظوں کو ٹون ڈاؤن کر کے معاشرے کے لیے قبل قبول بنانا ہوتا ہے لیکن اس ناول میں ایسا کہیں نہیں ہوا جو سچ جیسا تھا اس کو ویسے ہی بیان کر دیا گیا اور یہ بطور مصنف آپ کے لیے خطرناک ہوتا ہے کہ ادبی حلقوں اور معاشرے میں آپ کی اپنی acceptability کو threaten کرتا ہے خاص اگر اس ساری داستان میں کئی سو کالڈ بڑے ادیبوں کے نام بھی شامل ہوں۔ لیکن مجھے روبینہ اس ناول میں اس چیز سے بالکل بے پرواہ اور اپنی کہانی کی سچائی سے کمٹڈ نظر آئیں۔
روبینہ کی صرف کہانی پر گرفت مضبوط نہیں بلکہ زبان پر بھی گرفت مضبوط ہے ہر وہ ادیب جو دکھوں اور تکلیفوں سے گھرے انسانوں کی تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کر سکتا ہے اس کے لفظ اتنے ہی طاقتور ہوں گے اس ناول کے ہر صفحے پر ایک ایسی سطر یا ایسا پیراگراف ڈھونڈ سکتے ہیں جو سیدھا آپ کے دل میں اتر جائے لیکن کہانی بالکل سفاک حقائق کے ساتھ آنکھوں کے آگے زندہ نظر آتی ہے۔
اس ناول کی کہانی معاشرتی سچائی پر مبنی اور روبینہ کا مشاہدہ اپنے اطراف کی طرف بہت گہرا اور شفاف ہے میرے لیے اس کہانی کا بہت روانی سے پاکستان سے کینیڈا شفٹ ہو جانا دلچسپ تھا۔ کہانی کی روانی کو توڑے بغیر روبینہ نے ماضی سے حال اور تھرڈ ورلڈ سے فرسٹ ورلڈ کی عورت کی طرف اس کہانی کا رخ موڑا اور اس میں اہم یہ ہے وہ کسی inferiority complex کا شکار نہیں جیسے عموماً ہم دیسی ہوتے ہیں کہ کینیڈا میں دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور عورتوں کے کوئی مسائل نہیں۔ روبینہ کینیڈا میں بھی امیگرینٹ خواتین اور پاکستانی خواتین کے حالات اور مجبوریوں سے بھی آگاہ ہیں اور یہ کہ کینیڈا امیگریشن نے عورت کے حالات بدل دیے یا مرد کی پرسیپشن چینج کر دی ایسی کسی خوش گمانی کا شکار نہیں۔ یہاں بھی کلاس سسٹم منہ کھول کر کھڑا ہے اور وہی اکیلی عورت کا فائدہ اٹھانے کی سوچ بھی موجود ہے۔ یہ اختتام میرے لیے دلچسپ تھا لیکن ہارٹ بریکنگ بھی شاید ہر بیٹی کے لیے ہو جو سر اٹھا کر جینا چاہتی ہے
تجھے جب بھی کوئی دکھ دے
اس دکھ کا نام بیٹی رکھنا
سے ہم عورتوں نے ایک لمبا سفر طے کیا اور آج میں کہہ سکتی ہوں
انہوں نے مجھے خبردار کیا
کہ اگر تمھاری بیٹی ہوئی وہ تمھاری سزا ہوگی
لیکن وہ غلط تھے
وہ میری سزا نہیں
وہ میری جزا ہے
وہ میرے درد کا علاج ہے
وہ میرے جینے کا دوسرا موقع ہے
وہ دنیا کے لیے میری امید ہے
وہ میرا دل ہے جو آزاد ہے
وہ میری سزا نہیں
وہ میری جزا ہے
یہی دکھ اور سفر اس ناول کا سچ ہے اور روبینہ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ یہ کڑوا سچ انہوں نے پوری ایمانداری کے ساتھ نارسائی میں بیان کیا اور اپنے حصے کا قرض ادا کر دیا۔
(یہ مضمون فیملی آف ہارٹ کے زیر اہتمام تقریب پذیرائی نارسائی ناول تحریر کردہ روبینہ فیصل، 6 اپریل 2025 کو پڑھا گیا)
- نارسائی - 16/04/2025
- ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب سالک - 05/02/2025
- ذہن تنہائی، انٹروورٹ یا کریٹوی منورٹی - 12/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).