لوٹ آنے کے بعد


Loading

جاڑے کی شدید دھند میں لپٹی ایک سسکیوں سے لبریز مظلوم آواز ارد گرد کی فضا کو مزید نم ناک کر رہی تھی۔ ”آج تو حد کر دی ہے اس نے۔ میں اب نہیں جاؤں گا گھر، رہے یہ اکیلی“ چاچے شیدے نے دل کو مضبوط کرتے ہوئے آنسوؤں کو حلق سے اتارتے ہوئے ارادہ کیا۔ ”اب تو اولاد بھی جوان ہو گئی ہے، لیکن اس کو شرم نہیں آتی تماشا لگاتے ہوئے، میں نے کیا کہہ دیا تھا اسے جو مارنے لگی۔ یہی تو کہا تھا ناں کہ تیرا پہلا منگیتر آج گاؤں آیا ہوا ہے، تم اس سے ملی تھیں، کیا کیا باتیں ہوئیں؟ اس پہ اتنا واویلا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بندہ پوچھ ہی لیتا ہے، آخر پانچ سال تک اس کا منگیتر تھا۔ کیا پتہ دل کرتا ہو اس کا۔ میں نے تو ہمدردی سے ہی پوچھا تھا۔“ چاچا شیدا بڑبڑاتے خیالوں کی دھند میں سے نکل کر سامنے چارپائی پر پڑی چاچی شاداں کی طرف دیکھنے لگا۔

چاچی شاداں بھی سوچ میں گم تھی۔ چاچے شیدے اور چاچی شاداں کی شادی کو لگ بھگ 40 سال ہو چکے تھے لیکن ہر روز ان کے گھر کھڑکا دھڑکا ہونا معمول بن چکا تھا۔ شروع شروع میں تو اڑوس پڑوس والے بڑے ہی تنگ تھے۔ جب بھی چاچا شیدا باہر جاتا تو اس سے لوگ پوچھتے چاچا کیسی گزر رہی ہے زندگی؟ وہ اپنے آنسو پی جاتا اور کہتا ”شکر“ ہے بس گزر ہی رہی ہے۔ چاچی شاداں کے بھائی اچھے خاصے امیر تھے لیکن جاہل اور اکھڑ مزاج تھے۔ وہی صفات چاچی شاداں میں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں۔ سسرال والے امیر گھرانے میں شادی کر کے بڑے خوش تھے کہ دلہن کے نام دو کلے زمین بھی آئی ہے۔ چاچی شاداں کو شروع سے ہی لاڈلی اور امیر بہو ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔ چاچا شیدا متحمل مزاج انسان تھا۔ وہ اپنی بیوی کی ہر بات برداشت کرتا رہا۔ اسے پیار سے سمجھاتا بھی تھا کہ اچھی بیوی بن کر رہو لوگ کیا کہیں گے؟ شاداں کو تو تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی کہ کوئی اس کی بد تعریفی کرے یا اس کو سمجھانے کی کوشش کرے۔ آہستہ آہستہ چاچا شیدا اکیلا رہ گیا اس کے بہن، بھائی، چاچی شاداں کے اکھڑ رویے کی وجہ سے گھر آنا جانا چھوڑ گئے۔ اس کے بیٹے اور بیٹیوں کی بھی شادیاں ہو گئی تھیں۔ ان کے سسرال والے بھی چاچی شاداں سے تنگ تھے۔ ایک بیٹی کو جب سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا اور چاچی شاداں نے گھر جا کر اس کی ساس کی چھترول کی اور دھمکی دی کہ اگر دوبارہ میری بیٹی کے ساتھ کسی نے کچھ کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ بیٹے بیٹیاں بھی ماں کے اس رویے کو سمجھتے تھے۔ وہ سب بھی الگ رہنے لگے تھے۔ اس طرح چاچا اور چاچی اکیلے ہی رہنے لگے تھے۔ پھر بھی ہر روز لڑائی ہوتی رہتی تھی۔ صرف چاچے کی وجہ سے گھر چل رہا تھا۔ چاچی شاداں گاؤں میں کسی کی بات برداشت نہیں کرتی تھی۔ گاؤں کا ایک جوان تھا جسے گوگا کہتے تھے۔ صرف اس کی بات متحمل مزاجی سے سن لیتی تھی۔ اس جوان کو بھی بات کرنے کا خاص گر آتا تھا۔ اگرچہ اس کی ملازمت پولیس میں تھی لیکن وہ جانتا تھا کیسے دوسروں کو شیشے میں اتارا جاتا ہے۔ وہ بھی چاچے شیدے کی مظلومیت کی داستانیں قریبا روز ہی سنتا تھا۔ چاچی شاداں کو گوگے کی باتیں یاد آ گئیں۔ چاچی شاداں سوچتے سوچتے گوگے کی باتوں کی یاد میں کھو گئی جو ایک دن اس کے پاس اصل حقائق معلوم کرنے آیا تھا کہ کوئی عورت اپنے خاوند کے ساتھ اتنا تلخ رویہ کیسے رکھ سکتی ہے؟

وہ آتے ہی مخاطب ہوا تھا، ”السلام علیکم، چاچی! کیا حال ہے آپ کا کافی دن بعد آپ کو دیکھا ہے، طبیعت ٹھیک ہے۔“

” وعلیکم السلام، پتر! ٹھیک ہوں، بس بڑھاپے میں گوڈے گٹے رہ جاتے ہیں۔ چل پھر رہی ہوں، تو سنا کم دھندا ٹھیک جا رہا ہے؟“

”جی چاچی، سب ٹھیک ہے، چاچے کا کیا حال ہے؟

”اس کو کیا ہونا ہے؟ ہٹا کٹا ہے روز میرے ساتھ منہ ماری کرتا ہے، اسے پتہ بھی ہے مجھے غصہ آ جاتا ہے لیکن وہ بات کرے گا وہ جس سے مجھے تپ چڑھ جاتی ہے۔“

گوگے نے آج چاچی کے رویے کے بارے میں جاننے کا ارادہ کر لیا تھا۔
”چاچی، ایک بات پوچھوں لیکن وعدہ کرو غصہ نہیں کرو گی۔“
”ماں صدقے پتر تو جانتا ہے تیری بات کا ہی تو میں برا نہیں مانتی، پوچھ سو باتیں پوچھ۔“
”چاچی تو بہت اچھی ہے، لیکن چاچے کی اور تیری لڑائی کیوں ہوتی رہتی ہے؟“

”او ہو، کیا ماضی یاد دلا دیا، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔“ چاچی شاداں نے ٹھنڈی آہ بھری اور ماضی کے اوراق الٹنے لگی۔

”میں بہت چھوٹی تھی، میری ماں بہت ہی بھلی مانس اور سمجھدار عورت تھی۔ میرا والد ایک ظالم شخص تھا، میری دادی نے بھی میری ماں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ کھیتی باڑی میں میری ماں برابر کام کرواتی تھی سارا دن کولھو کے بیل کی طرح جتی رہتی تھی۔ ذرا سی کھانا پکانے میں دیر ہو جاتی یا کھانے میں نمک مرچ تیز ہو جاتا تو میرے باپ اور دادی نے میری ماں کو طعنے بھی دینے اور ذرا سی بات کرتی تو میرا باپ اسے جانوروں کی طرح مارتا تھا۔ میں سہمی دیکھتی رہتی اگر میں کچھ کہتی تو مجھے بھی مار پڑتی تھی۔ میں اپنی ماں سے کہتی اماں ابا کیوں ظلم کرتا ہے تو وہ خاموشی سے آنسو بہانے لگتی۔ زندگی کی تلخیاں برداشت کرتی رہتی میرے بھائی چھوٹے تھے۔ میں سب سے بڑی تھی۔ وقت گزرتا گیا میں اب پندرہ برس کی ہو چلی تھی میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی تھی لیکن میری ماں کا ظلم کم نہ ہوا مجھے مردوں سے نفرت ہونے لگی تھی۔ مجھ میں تلخی بہت بڑھ گئی تھی“ ۔ چاچی شاداں بات کرتے کرتے خاموش ہو گئی گہری سوچوں میں گم جیسے کسی صحرا کی تپتی ریت میں جھلس گئی ہو۔

”چاچی، پھر کیا ہوا؟ چاچی خاموش ہی رہی۔ گوگے نے اسے ہلایا تو اس کی ایک آنکھ سے آنسو گرا تو وہ گویا ہوئی۔

”پتر ایک دن میری ماں گھر کے کام کرتے کرتے تھک گئی، بخار میں تپ رہی تھی کہ میرا والد آ گیا اور ماں پر برس پڑا“ تم ادھر آرام فرما رہی ہو اور حویلی میں جانور بھوکے ہیں ”ابھی میری ماں کی زبان سے بخار کا لفظ ہی نکلا تھا کہ میرے باپ نے یہ زور کا تھپڑ مارا کہ چارپائی کے پائے کے ساتھ میری ماں کا سر اس زور سے لگا کہ خون بہنے لگا، میں بھاگ کر ماں کے پاس گئی لیکن اتنی دیر میں میری ماں کا آخری وقت آ گیا تھا، اس نے میری طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور اپنا ہاتھ اٹھایا، میرے سر تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ گر گیا“ چاچی شاداں آج پہلے دن ایک حساس عورت لگ رہی تھی۔ اس کے اس تلخ رویے کے پیچھے ایک کڑوی داستان پوشیدہ تھی۔ چاچی بالکل خاموش تھی۔

گوگا سب سمجھ گیا تھا۔ ”چاچی، چاچا تو اچھا ہے۔“

”مجھے ہر مرد ظالم لگتا ہے، اس لیے میری جب شادی ہوئی تھی تو میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں مظلوم نہیں بنوں گی۔ ان مردوں سے اپنی ماں کا بدلہ لوں گی۔ بس یہی سبب ہے پتر“ چاچی شاداں نے لمبی سانس لی اور خیالوں میں سے نکل کر چاچے شیدے کی طرف نم آنکھوں سے دیکھا تو چاچے شیدے کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

کافی دن گزر گئے تھے چاچی شاداں کے گھر سے لڑائی کی آوازیں نہیں آ رہی تھیں۔ ایک دن ان کے گھر سے ڈاکٹر کو نکلتے دیکھا تو گوگے نے حال دریافت کیا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ چاچی شاداں کو کینسر ہے اور وہ اپنی آخری سانسیں گن رہی ہے۔ گوگا بھاگ کر گیا تو چاچے شیدا کو اس کے پاس دیکھا۔ چاچی شاداں نے نظر اٹھائی اور مسکرائی۔ جیسے اس کے تمام دکھ ہوا ہو گئے ہوں۔ اب کبھی چاچے شیدے نے شکایت نہیں لگائی۔ اس کے اکھڑپن سے لوٹ آنے کے بعد ۔

ڈاکٹر شگفتہ خورشید
Latest posts by ڈاکٹر شگفتہ خورشید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments