ایران کا سفر بذریعہ سڑک، دو طرفہ خطرناک بلوچستان

برسوں سے میں ایران آتا جاتا رہا ہوں، میرا وہاں جانا مختلف الجہات ہوتا ہے روزگار، تفریح، وہاں کے تہذیب و تمدن، معاش و معاشرت، بود و باش، مذہب و سیاست کا مختلف پہلوؤں سے مطالعہ کرنا، سیکھنا اور بہت کچھ دیگر بھی۔ ہر بار میں معاشی نفع و نقصان سے قطع نظر گویا وہاں سے تازہ دم ہو کر ہی آیا کرتا ہوں، اس بار بھی گیا۔
روزگار کا ایک غیر مستقل سلسلہ تلاش کرنے، زیر تحریر سفرنامے ”مشاہدات ایران“ کی تکمیل کے لئے مزید مواد کھوجنے، پرانے دوستوں سے ملاقات کرنے اور یوٹیوب چینل کے لئے معلوماتی اور تفریحی وڈیوز بنانے کے یہ تین چار اہداف مقرر تھے۔ویزہ بذریعہ ایجنٹ لیا جو پہلے تیس دن کا ملتا تھا، اس مرتبہ ایرانی گورنمنٹ کی نئی پالیسی کے پیشِ نظر 21 دن کا ملا۔
پہلے ملتان سے براستہ کوئٹہ تفتان بارڈر سے امیگریشن پار کرتے تھے۔ اس بار یہ روڈ گزشتہ چند سالوں سے بلوچ شدت پسند تنظیموں کی دہشت گردی کے واقعات کے پیشِ نظر خطرناک قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے متبادل ملتان سے براستہ کراچی، گوادر ریمدان بارڈر چند سالوں سے پر امن اور محفوظ متصور ہو رہا تھا۔ دو اپریل کو ویزہ لگ کر آیا۔
دو ماہ قبل سے سفر کی تیاری جاری تھی تب ہی کراچی گوادر ریمدان روڈ سے بھی بسوں سے اتار کر پنجابی شناخت کے حامل لوگوں کے قتل کی خبریں بھی فروری 2025 سے تواتر کے ساتھ موصول ہونا شروع ہو گئیں۔ 11 مارچ 2025 کو جعفر ایکسپریس پر بلوچ شدت پسندوں کے حملے نے بھی مورال ڈاؤن کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر ہم نے اپنے مورال کو بمشکل بحال اور بلند ہی رکھا۔
یہ راستہ بھی اب انتہائی خطرناک ہو چکا تھا۔ بیوی بچوں، احباب و عزیز دوست رشتہ داروں نے کافی سمجھایا، بجھایا، ڈرایا مگر یقین کیجئے کہ بخدا اس وقت اندر سے بحالت خوف ہی سہی نیم مکمل وصیت بھی لکھ کر حوالۂ اہل خانہ کر دی تھی۔
یہ ایڈونچر اس لئے بھی ناگزیر ہو چکا تھا کہ 2019 کے بعد کئی مرتبہ ایران جانے کے ارادے اور تیاریاں بوجوہ ناکام ہوتی آ رہی تھیں۔ کئی نامراد دوست ہمسفری کا ارادہ اور ادعا کر کے راہ فرار اختیار کر جاتے تھے۔ کئی مرتبہ بھرپور تیاری کے باوجود یوں نہ جا سکا کہ جیسے امریکہ کے ویزے کا حصول ہو۔ دو سال تو کرونا کھا گیا تھا۔ جب ایرانی گورنمنٹ کی طرف سے ہمہ قسمی ویزے ہی بند رہے۔
یہ سوچ کہ چار پانچ سال سے تکمیل کا منتظر نامکمل سفرنامہ یونہی نامکمل ہی رہے گا؟ بس اس مرتبہ پھر حماقت آمیز ہمت کر ہی ڈالی گئی۔ اس حماقت بلکہ مسلسل حماقتوں پر سیر حاصل بات چیت اگلے ابواب میں ملاحظہ کیجئے گا۔
ہر چند روز بعد کسی نہ کسی واقعے کی خبر آ جاتی، امریکہ اور ایران کے تعلقات اچانک کشیدہ ہونے لگ گئے، ٹرمپ کی ایران پر حملوں کی دھمکی اور 30 مارچ 2025 کو ایران کی جوابی دھمکی نے ایران کے حالات مخدوش ہونے کے امکانات پیدا کر دیے تھے۔ ایرانی کرنسی کی بابت روزانہ کی حاصل کردہ اطلاعات و معلومات بھی قطعی حوصلہ افزاء نہیں تھیں، کبھی 2800 روپے کا ایک ملین تمان تو چند گھنٹوں بعد یا اگلے دن 3200 پاکستانی روپوں کا ایک ملین تمان، قیمت ٹک کر ہی نہیں دے رہی تھی۔ یعنی کسی طرف سے خیر کی کوئی بھی خبر دستیاب نہ ہو پا رہی تھی اور ادھر ہمارا جوش جنوں بھی کسی طور ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
7 اپریل 2025 بذریعہ ٹرین اے سی سلیپر بعوض 7250 روپے کراچی پہنچا، رکشہ لیا اور یوسف گوٹھ ریمدان بس ٹرمینل پر جا کر الممتاز کوچ والوں سے 3 ہزار کا ٹکٹ لیا۔ 12 بجے بس چل پڑی اور گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد حب چوکی کراس کرتے ہی دل و دماغ میں خوف کی لہریں سرایت کرنے لگیں۔ ہم بلوچستان میں داخل ہو چکے تھے اور آئندہ چھ سے آٹھ گھنٹے مجھے تن کر ہی بیٹھنا پڑا۔ بڑی کوشش کی کہ منفی خیالات جھٹک دیے جائیں مگر گزشتہ ایک دو ماہ سے پنجابی شناخت پر مارے جانے والے پنجابیوں کی ”ہر خبر پر نظر“ نے ایسا کرنے ہی نہ دیا۔ گاڑی کی ہر ہر بریک لگنے پر رونگٹے تسلسل سے کھڑے ہوتے ہی رہے اور بالآخر ہم بہ عافیت ریمدان بارڈر پر پہنچ گئے۔
وہاں رہائشی ایک ہی ہوٹل ہے جس میں کمرہ لینے سے بہتر میں نے بس سروس والوں کے مسافروں کے لئے بنائے گئے برآمدے میں ہی لیٹنا مناسب سمجھا۔ ہوٹل نہ لینے کی وجہ بغیر بجلی، پنکھے اور گندے غلیظ ٹوائلٹ تھے۔ یہاں پاکستانی فون نیٹ ورک کام نہیں کر رہے تھے اور ایرانی سم ہمارے پاس تھی نہیں۔ ایران سے واپس آنے والے ایک مسافر کی ایرانی سم سے ہاٹ سپاٹ لے کر گھر خیریت کے میسجز بھیجے ہی تھے کہ موصوف کا بھی پیکیج ختم ہو گیا۔
ہماری پاکستانی سمز کا نیٹ ورک گوادر تک موجود رہا اور یہاں سے آگے آتے ہی ڈیڑھ گھنٹہ فرق والا ایرانی ٹائم شو ہونے لگا اور پھر جلد ہی نیٹ ورک غائب ہو گئے۔
کوئٹہ تفتان بارڈر پر یہاں کی نسبت کافی زیادہ سہولیات اب بھی موجود ہیں۔ چار پانچ سستے رہائشی ہوٹلز ہیں۔ بہت سی دکانیں ہیں اور اب بھی شنید ہے کہ وہاں ایرانی سمز آسانی سے مل جاتی ہیں۔
اربعین فاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم زائرین ایران، عراق و شام کے لئے تفتان اور اب یہاں ریمدان بارڈر پر بہت کام کر رہی ہے، رہائش، بستروں و لنگر کے ساتھ ساتھ، مسجد و مسافر خانہ، فری ڈسپنسری، مسجدیں بھی اپنی مدد آپ کے تحت بنا رہی ہے اور ہمہ قسم فلاحی کاموں میں ہمہ تن سرگرم عمل ہے۔
یہاں مسافروں سے گپ شپ کہ دوران کافی مسافروں کو مایوس پایا کہ امیگریشن پر کم از کم فی کس دس ہزار روپے اور اس سے زیادہ بھی وصولے جا رہے ہیں اور اس پر مستزاد بہت سے لوگوں پر بہت سے اعتراضات لگا کر ان سے بھاری رقوم طلب کی جا رہی ہیں یا انہیں واپس بھیجا جا رہا ہے۔
ایک موصوف کا ایران عراق کا ٹرانزٹ ویزہ ایجنٹ نے اڑھائی لاکھ روپے میں لگوا دیا تھا اس پر اعتراض ہے کہ وہ 2012 میں سعودی عرب سے ڈیپورٹ ہوا تھا لہذا تم اب واپس جا کر متعلقہ ”ادارے“ سے اپنا پاسپورٹ کلیئر کرواؤ یا پھر اپنی بساط سے زائد جرمانہ یہیں ادا کر کے کلئیرنس لے لو۔ اب وہ ٹرانزٹ براستہ ایران کے بغیر براہِ راست عراق بھی نہیں جا سکتا۔
غالباً 2016 میں آخری مرتبہ بوجوہ 4 دن ویزہ کی میعاد سے زائد گزارنے پر میں بھی ایران سے ڈیپورٹ ہوا تھا مگر اس کے بعد کے سالوں میں بارہا ایران کے اسفار کیے، کبھی کوئی اعتراض نہیں لگا۔ اب پاکستان کی نئی پالیسی کے مطابق کسی بھی ملک سے ڈیپورٹ شدگان کو کسی ملک سفر نہیں کرنے دیا جائے گا یہی خدشہ چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق مجھے بھی لاحق ہوا کہ یار اس قدر خطرات مول لینے کے باوجود اگر اس ڈیپورٹ شدگان والی پالیسی کی زد میں آ گیا تو کیا ہو گا؟ دل میں ہول اٹھے۔ ایک اور ایرانی سم والے مسافر سے ہاٹ سپاٹ لے کر اس ممکنہ خدشے کی بابت ایک تحریر بنا کر اپنے فون کنٹیکٹس میں موجود 5 / 6 سیاستدانوں اور دو تین دوستوں کو بھیج دی۔
صبح 9 بجے امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچا۔ بمشکل اور بہ آسانی کلیئر کیا جس کی تفصیل کہیں اور بیان کروں گا۔ واپس آ کر یقین کامل ہوا کہ ایک نہیں بلکہ تینوں دوستوں نے فون کر کے میری بہ آسانی امیگریشن کلئیرنس کو ممکن بنایا تھا جبکہ کسی بھی ایک سیاستدان نے درخور اعتنا ہی نہ جانا۔ ہاں ایک سیاستدان کے پی اے نے وائس نوٹ بھیجا ہوا تھا کہ ”شاہ جی، متعلقہ بندے کا نمبر بھیجیں تو بات کرتا ہوں“ ۔ اب یہ میسیج تو میں نے تب سنا جب میں نے ڈیڑھ سو کلومیٹر ایران کے شہر چابہار سے ایرانی ایکٹو سم لی تھی۔
بہرکیف ایک پاکستانی دوست وہیں ایرانی بلوچستان کے مضافاتی علاقے درگس میں رہتا ہے جس کی والدہ نے مجھے یہاں ملتان میں آ کر اس کے لئے نئے سلے ہوئے کپڑے بھجوائے تھے، اسے وہ کپڑے بھی دینے تھے اور اس سے ایک سیکنڈ ہینڈ الیکٹرانک ڈیوائس کی کسی قدر بڑے پیمانے پر خریداری کی بابت معلومات بھی لینی تھیں جو نفع بخش بھی ہو سکتی تھی۔
ریمدان بارڈر سے درگس نامی قصبہ تقریباً 100 کلومیٹر تھا مگر چونکہ اس راستے سے میں پہلی بار آیا تھا اور مجھے فی الفور ایرانی سم کی بھی ضرورت تھی جو قبل ازیں اسفار میں تو بارڈر پر پاکستانی جانب سے ہی بہ آسانی مل جاتی تھیں مگر اب ایرانی گورنمنٹ کی اس بابت پالیسی بھی انتہائی سخت ہو چکی ہے۔ پہلے ریمدان سے چابہار گیا۔ وہاں دو چار موبائل کمپنیز کی فرنچائز پر گیا تو انہوں نے سم کے حصول کا اس قدر مشکل ترین رستہ بتایا کہ ہمت جواب دے گئی۔ اس کے بعد اپنا دیسی ٹوٹکا آزمایا نوبندیان کی بس کی ٹکٹ خریدی، اس کے کنڈکٹر کے سامنے حاجت بیان کی، اس نے کسی کو فون کیا اور بلیک میں حاجت روائی بھی کر دی۔ سم مع بیلنس و پیکیج مل گئی بغیر کسی کاغذی کارروائی کے اور وہ بھی ایک لحاظ سے ہوم ڈیلیوری۔ وہاں سے نوبندیان اترا اور ایک کھٹارا منی بس میں بیٹھ کر درگس پہنچ گیا۔ جہاں میرا ہم شہری دوست موبائل رپیئرنگ شاپ چلا کر معقول روزی روٹی کما رہا ہے۔ سخت گرمی میں اس کے پاس پہنچا اور بیک وقت نہانے اور کھانے کا مطالبہ پیش کیا۔
اسے ایک عام، سادہ اور گزارے لائق کمرہ دیا گیا تھا جس کے ساتھ ایک سیمنٹ کے ہی بلاکس سے بنا سادہ سا واش روم تھا۔ اس نے ٹونٹی چلا کر دی اور میں نہا کر فریش ہو گیا۔ تبھی 22 گزی طویل شلواروں، قمیصوں والے اس کے دو تین ارباب/ کفیل یا پارٹنر بھی وہاں پہنچ کر کھانا وغیرہ دسترخوان پر لگا چکے تھے۔ سبزی یاد نہیں کون سی تھی مگر اس میں دو کلو ٹماٹر ڈلے ہوئے ضرور یاد ہیں۔ یاد رہے ایرانی لوگ اپنے ہر سالن میں ٹماٹر تقریباً مذکورہ مقدار میں ہی ڈالتے ہیں۔ فرائنگ پین میں دس ٹماٹر اور ایک یا دو انڈے ڈال کر بھجیا نما آملیٹ یا آملیٹ نما بھجیا بناتے ہیں۔ ان کے ہر کھانے میں سیخ میں پروئے، کوئلوں پر بھنے ٹماٹر لازمی شامل ہوتے ہیں۔ مزیدار کھانا تھا اور ہم بھوکے تھے۔ ڈٹ کر کھایا۔
گپ شپ ہوئی، اس کی امانت کپڑے اور اپنی طرف سے ملتانی سوہن حلوے کے دو ڈبے اس کے حوالے کیے۔ تبھی سہ پہر اس کے کفیل نے ”عرق خرما“ کی پیشکش کی جسے ہم نے خوشی سے قبول کیا اور خوب لطف اندوز ہوئے۔ بہت کم حیرت اس بات پر رہی کہ اس دوران اس کفیل کا بڑا بھائی اور باریش پنجگانہ نمازی والد بھی ہم سے محو گفتگو رہے اور انہوں نے ہماری عرق نوشی کو معمول کا حصہ سمجھا۔ وہ باپ بیٹے باہم دوست تھے اور مہمان نواز بھی۔ یہ اور بات ہے کہ جب ان سے ہم نے کرنسی چینج کروائی تو انہوں نے اس دن کے ریٹ سے کم دیا اور تقریباً 2400 روپے کی ڈنڈی مار لی۔
شام کو میں تھوڑا گھوما پھرا تو معلوم ہوا یہاں کافی ہنرمند پاکستانی لوگ عرصہ دراز سے موجود ہیں اور ان میں زیادہ تعداد پنجابیوں، سرائیکیوں کی ہے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ اگر آپ ہنرمند ہیں، نائی ہیں، کارپینٹر، رنگساز (رنگار) ، پلمبر، بنائی کے مستری، سول ورک یا ٹائل ورک کے مستری ہیں، ڈینٹر، پینٹر، آٹو موٹر مکینک یا الیکٹریشن، موٹر سائیکل مکینک، خرادیے، موبائل فون اور لیپ ٹاپ یا الیکٹرانک آلات کی رپیئرنگ یا اسی قسم کے دیگر ہنرمند ہیں تو آپ کے لئے ایران ایک بہترین ملک ہے۔ یہاں آئیے ایرانی آپ کو 50 فیصد منافع پر اپنے سرمائے سے ورکشاپ، دکان بنا کر دیں گے۔ نوکری یا چھوٹے موٹے کاروبار کا یہاں کوئی سکوپ نہیں ہے۔ قطعی مت آئیے۔
چھ اپریل ملتان سے چلے اور آٹھ اپریل 2025 کو درگس قصبے تک ہم تقریباً 2000 کلومیٹر کا سفر کر چکے تھے، ہماری اگلی منزل بندر عباس تھی۔
(نوٹ) ۔ حسب سابق یہ مضمون میرے برسوں سے زیرِ تحریر سفرنامے ”مشاہدات ایران“ سے مقتبس ہے۔ دعا کیجئے کہ سستی چھوڑ کر مستقل مزاجی سے بیٹھ کر اسے مکمل کر دوں۔ تین سو صفحات لکھے ہوئے ہیں اور اتنے ہی لکھنے باقی ہیں۔
تازہ سفر اسی کی تکمیل کے لئے ہی کیا ہے۔ یکسو ہو کر بیٹھوں تو پندرہ بیس روز میں تکمیل ممکن ہے۔ بہت سارے حساس موضوعات/ معلومات تو یہاں لکھنا ممکن ہی نہیں ہیں۔ یقین کیجئے اس تمہیدی تحریر سے قطع نظر یہ سفرنامہ ایک دستاویز ثابت ہو گا۔ یہ میری خوش فہمی نہیں بلکہ میری معتدل خود اعتمادی ہے۔
- ایرانی یوتھ اور زن زندگی آزادی بزبان نیتن یاہو - 17/06/2025
- ایران کا سفر بذریعہ سڑک، دو طرفہ خطرناک بلوچستان - 13/06/2025
- امریکی اور پاکستانی ٹرمپ کارڈ - 23/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).