ایکو فیمینزم: عورت، فطرت اور وجودی بقا کا مکالمہ


Loading

ایکو فینیزم جسے ماحولیاتی نسائیت کہا جاسکتا ہے۔ ایک فکری تحریک ہے جو عورتوں اور فطرت کے استحصال کے بارے میں معلومات دینے کے ساتھ آواز بلند کرتی ہے۔ اس نظریے کی بنیاد یہ تصور ہے کہ پدرشاہی نظام نے صدیوں سے نہ صرف عورت کو تسلط میں رکھنے کی کوشش کی ہے، بلکہ اسی طاقت ور ذہنیت نے قدرتی ماحول کو بھی ذاتی مفاد، استحصال اور قابض رویوں کے تحت برباد کر ڈالا۔ یہ نظریہ عورت اور فطرت کو محض مظلوم نہیں مانتا، بلکہ ان کی باہمی وابستگی اور وجودی طاقت کو ایک نئی اخلاقی، فکری اور سائنسی روشنی میں دیکھنے پر اصرار کرتا ہے۔

دراصل یہ نظریہ بیسویں صدی کے آخری حصے میں متعارف ہوا، ، جس کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تباہی، ایٹمی خطرات، سرمایہ دارانہ استعماریت، اور خواتین کے حقوق کی تحریکوں نے دنیا میں ایک فکری ہلچل پیدا کی۔ فرانسیسی فلسفی Françoise d ’Eaubonne نے سب سے پہلے 1974 میں ”ایکو

فیمینزم ”کی اصطلاح استعمال کی۔ جس کے لئے واضح کیا گیا کہ عورتوں کی فطرت سے قربت اور ان کا جسمانی و تولیدی نظام، ان کی وہ شناخت ہے، جسے پدرسری نظام نے ایک بوجھ سمجھ کر دبا دیا۔ لیکن یہی شناخت انسانیت کی بقا کے لیے ایک نئی بنیاد بن سکتی ہے۔

ماحولیاتی نسائیت جیسے منفرد فکری زاویے کے مطابق عورت اور زمین، دونوں تخلیق کی علامتیں ہیں۔ عورت ماں ہے، زمین بھی ماں ہے۔ مگر دونوں پر تسلط قائم کر کے، وسائل کا ذریعہ بنا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو قدیم تہذیب میں یہ تصور ملتا ہے۔ دنیا میں پہلی ”دھرتی ماتا“ (Mother Earth) کا تصور قدیم تہذیبوں میں پایا جاتا ہے، جہاں زمین کو ماں کا درجہ دے کر اس کی پرورش، زرخیزی اور زندگی بخشنے والی صفات کو مقدس مانا گیا۔ سب سے قدیم حوالہ ماقبلِ تاریخ دور کی مادری دیویوں سے ملتا ہے، جیسے ”Venus of Willendorf“ (تقریباً 25,000 قبل مسیح) ، جو زمین کی زرخیزی اور نسوانی طاقت کی علامت ہے۔ ہندوستانی تہذیب میں پرانی ویدوں میں ”پرتھوی ماتا“ کا ذکر آتا ہے، جسے آکاش (آسمان) کے ساتھ جوڑ کر زندگی کی تخلیق کا

ماخذ مانا گیا۔ یہی تصور دنیا کے مختلف حصوں میں ”گایا“ (یونانی دیوی Gaia) ، ”پچاما“ (انک تہذیب) ، اور دیگر روایات میں مختلف ناموں سے پایا جاتا ہے۔ دھرتی ماتا کو عزت دینا دراصل انسان کے فطرت کے ساتھ رشتے کو ماننے اور اس کی قدر کرنے کا پہلا روحانی قدم تھا۔

دوسری جانب، جدید سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کے جسم اور زمین کے قدرتی وسائل کو ایک ہی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ دونوں کو منافع بخش اشیاء سمجھا گیا ہے۔ اس عمل نے نہ صرف عورت کو اس کے فطری مقام سے محروم کیا بلکہ فطرت کو بھی اس کے توازن سے بے دخل کر دیا۔

یہ نظریہ صرف شاعرانہ رومانیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے پیچھے مضبوط سائنسی اور نفسیاتی جواز بھی ہیں۔ ایک طرف نیورو سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ خواتین میں Empathy اور ecological consciousness کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے، تو دوسری طرف معاشرتی نفسیات کے مطابق : عورت کو بچپن سے زمین، جانور، درخت، اور ماحول سے زیادہ محبت سکھائی جاتی ہے چاہے وہ ایک چھوٹے پودے کو سینچنے کی بات ہو یا پرندوں کو دانہ ڈالنے کی۔ مگر جب یہی عورت صنعتی نظام کا ایندھن بن جاتی ہے، تو اس کی فطری ہمدردی بھی نظام کے ظلم کے نیچے دفن ہو جاتی ہے۔

ماحولیاتی نسائیت کے کئی ماہرین اور نظریہ ساز ہیں۔ ان میں سے Vandana Shiva (بھارت) ، Maria Mies (جرمنی) ، Karen Warren (امریکہ) اور Greta Gaard جیسے مفکرین نے عورت اور فطرت کی مشترکہ تاریخ پر بحث کی۔ وندنا شیوا نے بتایا کہ کس طرح مغربی سائنسی سوچ نے قدرت کو محض ایک مشین سمجھا، اور عورت کو صرف Reproductive labor کی اکائی۔ انہوں نے زرعی نظام، بیج، پانی اور جنگلات کے بچاؤ کو خواتین کی آزادی سے جوڑا۔

Maria Mies نے ”Patriarchy and Accumulation on a World Scale“ جیسی کتابوں میں یہ واضح کیا کہ استعماری طاقتوں نے عورتوں کے کام، بچوں کی پرورش، گھر کی صفائی، اور کھانا پکانے جیسے ”بغیر کسی اجرت“ کام کو نظر انداز کیا، جس میں زمین کی مفت پیداوار بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت اور زمین دونوں کی محنت کو پوشیدہ رکھا گیا تاکہ مردانہ طاقت کو دوام دیا جا سکے۔

ایکو فیمینزم فطرت کو ایک زندہ، متحرک، اور نسوانی وحدت کے طور پر دیکھتا ہے۔ زمین، دریا، درخت، بارش، مٹی اور آسمان یہ سب عورت کے داخلی شعور کے استعارے بن جاتے ہیں۔ عورت جب اپنے آپ کو فطرت سے جوڑتی ہے تو وہ صرف ایک علامتی عمل نہیں بلکہ ایک سیاسی علانیہ ہے کہ وہ ان تمام نظاموں کے خلاف کھڑی ہے جو زندگی کو خاموش اور زرخیزی کو بانجھ بنانے کے درپے ہیں۔ ایکو فیمینزم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جس طرح عورت و فطرت کو استعمال کے بعد تباہی کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ کیرولین مرچنٹ نے کہا تھا ”جب ہم نے فطرت کو ایک مشین سمجھنا شروع کیا، تب ہم نے عورت کو بھی اس کا پرزہ سمجھنا سیکھا۔“

یہ نظریہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام، سامراج، اور نوآبادیاتی ذہنیت پر شدید تنقید کرتا ہے۔ ان نظاموں نے زمین کو سرمایہ بنا کر اس کا بے دریغ استحصال کیا اور عورت کو ایک جسم، ایک خدمت گزار، اور ایک غیر متحرک کردار میں قید کر دیا۔ ایکو فیمینزم ان دونوں کو مظلوم طبقات کے طور پر سامنے لاتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کی جدوجہد مشترکہ ہے۔ عورت کی کہانی درخت کی کہانی ہے، ندی کی کہانی ہے، اور بارش کی پہلی بوند کی خاموش خوشبو ہے جسے بارہا روندا گیا۔

بھارت میں وندنا شیوا نے زراعت، بیج، پانی، اور زمین کی نجکاری کے خلاف عورتوں کی آواز کو مرکزی حیثیت دی۔ ان کے مطابق مقامی عورتیں ہی زمین کو بہتر جانتی ہیں، وہ اس کے ساتھ رہتی ہیں، اس سے بات کرتی ہیں، اسے سنبھالتی ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ طاقتوں نے ان عورتوں کے علم کو غیر سائنسی کہہ کر رد کر دیا۔ اسی طرح کیرولین مرچنٹ نے مغرب میں سائنسی انقلاب کے بعد فطرت کو ’مردہ‘ اور ’بے جان‘ کہنے کے تصور کو رد کرتے ہوئے اسے ایک روح دار، جاندار، اور نسوانی اکائی قرار دیا۔ ان کے مطابق سائنسی سوچ نے عورت اور فطرت دونوں کو نفع اور استعمال کی نظر سے دیکھا اور دونوں کو بے زبان بنا دیا۔

کارول ایڈمز نے اس نظریے کو مزید پھیلاتے ہوئے گوشت خوری، جانوروں کے استحصال، اور عورتوں کی جنسی شبیہات کے بیچ گہرے رشتے کو اجاگر کیا۔ ان کے مطابق جس طرح جانوروں کو قصائی خانوں میں بے زبان مارا جاتا ہے، اسی طرح عورتوں کو اشتہارات، فلموں، اور جنسی ثقافت میں محض جسمانی شے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کا رول ایڈمز کے مطابق ”عورتوں کے خلاف تشدد اور جانوروں کے استحصال میں صرف ایک فرق ہے زبان کا، درد تو دونوں کو ہوتا ہے۔“

اس کی کئی عملی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں جیسے افریقہ کی Green Belt Movement جس کی بانی Wangari Maathai تھیں، خواتین کو جنگل اگانے، درخت لگانے اور مقامی ماحول کو محفوظ بنانے کی تربیت دیتی ہے۔ اس تحریک سے ہزاروں خواتین نے نہ صرف اپنا روزگار بنایا بلکہ ماحولیاتی تحفظ میں بھی کردار ادا کیا۔

ایک اور مثال جنوبی ایشیاء میں Chipko Movement ہے، جہاں گاؤں کی خواتین نے درختوں سے لپٹ کر لکڑی کے سوداگروں کو روکا۔ اس علامتی عمل نے یہ پیغام دیا کہ عورتیں فطرت کی محافظ ہیں، اور ماحولیاتی بربادی دراصل عورت کے وجود پر حملہ ہے۔

ایکو فیمینزم میں کئی سطحوں پر تضاد کو سامنے لایا جاتا ہے : مرد بمقابلہ عورت، عقل بمقابلہ جذبہ، ٹیکنالوجی بمقابلہ فطرت، طاقت بمقابلہ پرورش، ترقی بمقابلہ بقا۔ اس کا مقصد ان تمام بائنری مخالفوں کو توڑ کر ایک نیا انسانی رویہ متعارف کروانا ہے جو رحم، شعور، باہمی تعلق، اور تخلیقی قوت پر مبنی ہو۔

ایک مشہور ایکو فیمینسٹ مصنفہ Greta Gaard کہتی ہیں :
”Ecofeminism is about connectedness and wholeness of theory and practice.“
(ایکو فیمینزم نظریے اور عمل کی ہم آہنگی اور ربط کا نام ہے )

جب ہم جدید دنیا کی بات کرتے ہیں، جہاں ماحولیاتی بحران، ماحولیاتی تبدیلی و بحران، پانی کی قلت، جنگلات کی کٹائی، اور زمین کے زرخیزی کا زوال شدت اختیار کر چکا ہے، وہاں عورت کا کردار صرف مظلوم کا نہیں بلکہ با اثر کا ہونا چاہیے۔ عورتوں کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی ماحولیاتی پالیسی موثر نہیں ہو سکتی۔ اور جب عورت کو قدرت کے ساتھ اس کی فطری ہم آہنگی میں زندہ رہنے دیا جائے تو وہ نہ صرف خود محفوظ ہوتی ہے بلکہ پوری انسانی نسل کی بقا کو یقینی بناتی ہے۔

ماحولیاتی نسائیت کا یہ فکری انداز عورت کو Passive Object نہیں سمجھتا، بلکہ اسے ایک
Existential Agent سمجھتا ہے، ایسا وجود جو خود ساختہ، فطرت کا ہمدرد، اور انسانی بقا کا راز ہو۔
جیسا کہ Vandana Shiva کہتی ہیں :
”To be free, nature and women must be liberated together.“
(آزادی تبھی ممکن ہے جب فطرت اور عورت دونوں کو ایک ساتھ آزاد کیا جائے )

یہ حقیقت ہے کہ عورت کی نجات صرف پدرشاہی کے خاتمے میں نہیں، بلکہ انسان اور فطرت کے نئے تعلق میں ہے۔ جب عورت زمین سے جُڑے کاموں کو فقط بوجھ نہیں بلکہ تخلیقی قوت مانتی ہے، تو وہ ایک نیا معاشرہ تشکیل دیتی ہے جو سرمایہ داری کے بجائے، ہم آہنگی پر مبنی ہوتا ہے۔

ایکو فیمینزم محض عورتوں کے حقوق کی جدوجہد نہیں بلکہ انسانی تہذیب کی بقا کی تحریک ہے۔ جب عورتوں کو ماحولیاتی پالیسیوں میں قیادت دی جائے، جب ان کے تجربات کو سنا جائے، اور جب ان کی زندگی کو زمین کی زندگی سے جوڑا جائے، تب جا کر ہم ایک ایسا سماج تشکیل دے سکتے ہیں جو ظلم، استحصال اور ماحولیاتی تباہی سے پاک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).