گم گشتہ اسلامی خواب سے سیکولر سٹیٹ تک


سن اٹھتر میں جنرل ضیا الحق نے افغانستان میں امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر جہاد شروع کر دیا اور افغان مہاجرین دربدر ہو کر پاکستان میں پناہ لینے لگے ۔ جنرل ضیا الحق نے ملک کو مکمل طور پر اسلامی مملکت بنانے کا عزم کیا اور اس پر ریفرنڈم کروایا ۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ جنرل ضیا الحق اسلام لانے کے بارے میں مخلص ہے اور دراصل بندہ مومن ہے ۔ اس لیے ملک کے علمائے کرام نے اُس کے ساتھ مل کر اسلامی قوانین بنانے کا عمل شروع کردیا۔

میں اُس وقت تک ڈاکٹر بن چکی تھی اور حسن ابدال کے ایک کلینک میں جاب کرنے لگی تھی جو وہاں کے فیکٹری ورکرز کے لیے تھا میرے ساتھ ایک مرد ڈاکٹربھی کام کرتے تھے ۔ ایک روزوہ چھٹی پر گئے ـتو اُن کے مریض میں نے دیکھے ۔ اُن کے ایک مریض کو سردرد کی شکایت تھی۔ میں نے بلڈ پریشر چیک کیا تو بہت ہائی تھا۔ میں نے بلڈ پریشر کی دوا پر ڈالا تو اُن کا سردرد ٹھیک ہو گیا۔ اُس نے لوگوں میں میری تعریفیں کرنا شروع کر دیں۔ یہ خبر شاید اُن ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچی ۔ ایک روزوہ میرے دفتر آئے اور کہنے لگے ’’ڈاکٹر غزالہ آپ کو معلوم ہے عنقریب شریعت نافذ ہونے والی ہے‘‘میں نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کہنے لگے ،

’’آپ کو برقعہ پہننا پڑے گا ا ور منہ ڈھانپنا ہوگا۔ اور آپ مرد مریضوں کے بلڈ پریشر وغیرہ چیک نہیں کر سکیں گی ،،

اُس وقت حسن ابدال کی سڑکوں کی مرمت ہو رہی تھی ۔ میں وہاں عورتوں کو سڑکوں پر روڑی کوٹتے دیکھتی تھی۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ عورتیں دراصل بانڈ ڈ لیبر ہیں یعنی ٹھیکے داروں کی ایک لحاظ سے غلام ہیں ۔ وہ اُن کو قرض دیتے ہیں جو وہ اتار نہیں سکتیں اور بالکل تھوڑے معاوضے پر اُن کے لیے مشقت کرتی ہیں ۔ میں نے ان ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ شریعت نافذ کرنے والے اُن عورتوں کے بارے میں کوئی قانون کیوں نہیں بنا رہے ہیں ۔ اُن کو میری اتنی فکر کیوں ہے، میں تو اپنا خیال خود کر سکتی ہوں ۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ ’’لگتا ہے آپ کو اسلام کی الف ب کا بھی علم نہیں ہے۔ شریعت میں عورت کی گواہی آدھی ہے اور وہ بہت سارے عہدے نہیں لے سکتیں ‘‘۔میں نے اُنہیں کہا کہ یہ صرف اس لیے تھا کہ اُس زمانے کی عورتیں پبلک لائف میں اتنی شریک نہیں تھیں ۔ آج کے زمانے کیلئے شریعت میں اجتہاد کی ضرورت ہے وہ مجھے کہنے لگے ،’’آپ جیسی عورتوں کے لیے مولوی اسلام کو نہیں بدل سکتا‘‘۔

اس کے بعد ملک میں حدود آرڈیننس نافذ ہوا۔ کچھ سال کے بعد معلوم ہو ا کہ اس آرڈیننس کے تحت زیادہ تر غریب عورتیں زنا کے الزام میں جیلوں میں قید ہیں ۔ بعض نے وہاں پر بچوں کو جنم دیا ۔ وہ عورتیں جو ریپ ہوئی ہیں وہ بھی بعض دفعہ گرفتار کر لی جاتی ہیں کہ چار مرد گواہ نہیں لا سکتیں ۔ اگر وہ حاملہ ہو جائیں تو ان کے خلاف بہت بڑا ثبوت ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سی عورتیں ریپ ہونے کے بعد خاموش ہو جاتی ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اگر اس نا انصافی کے خلاف بولیں تو اُن پر ’’اسلامی قانون کے خلاف بولنے اور ملک میں فحاشی پھیلانے کا الزام لگتا ہے ۔ ایک دفعہ ایک صحافی نے مولانا منور حسن سے ریپ کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے کہا کہ عورت کو اس معاملے کو عدالت میں نہیں لانا چاہیے ۔ صحافی نے حیرت سے سوال دوہرایا تو مولانا غصے میں آگئے کہ وہ اسلام کے خلاف بول رہا ہے۔ اس بات پر وہ صحافی کلمہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دینے لگا ۔

مقتول کی فیملی کی طرف سے قاتل کو معاف کرنے کا اور خون بہا لینے کا قانون بھی نافذ کیا گیا ۔ وہ باپ یا بھائی جو اپنی بیٹی یا بہن کو غیرت کے نام پر قتل کرتے تھے، اُن کے لیے یہ قانون بہت فائدہ مند ثابت ہوا کہ قاتل کو مقتول کے گھر والے معاف کر دیتے تھے۔ لہٰذا غیرت کے نام پر قتل کے جرم میں کسی کو سزا نہیں ملتی تھی ۔ اس کے خلاف عورتوں کی تنظیموں نے آواز اٹھائی کہ کم ازکم ان کیسز میں تو یہ قانون لاگو نہیں ہونا چاہیے ۔ اُس وقت ملک کے بہت سی اسلامی جماعتوں نے مل کر اس قانون میں ترمیم کے خلاف جلوس نکالا ۔ لیکن کبھی بھی غیرت کے نام پر قتل کے خلاف جلوس نہیں نکالا۔

ملک کے قانون کو اسلام کی روشنی میں پرکھنے کا کام ابھی بھی جاری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے بیان اکثر اخباروں میں چھپتے ہیں۔ ایک بیان اُنہوں نے دوسری شادی کے لیے بیوی کی اجازت کے قانون کے خلاف دیا ۔ ایک میں اُنہوں نے لڑکی کی شادی کی عمر 13سال قرار دی ۔سڑکوں پر روڑی کوٹنے والی اور بھٹوں پر کام کرنے والی بانڈڈ لیبر عورتوں کے بارے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

میں شادی کے بعد امریکہ آگئی ۔ اُس وقت تک افغانستان کا جہاد ختم ہو چکا تھا۔ بہت سال آپس میں لڑنے کے بعد افغانستان میں طالبان کا کنٹرول ہو گیا ۔ پھر اخباروں میں ایسی تصویریں دیکھنے میں ملیں کہ عورت نے ٹوپی والا برقعہ پہنا ہے مگر اُس کے ٹخنے نظر آر ہے ہیں تو اس قصور میں طالبان اُس کے ٹخنوں پر چھڑیاں مار رہے ہیں۔ کہیں کچھ برقعے والی عورتوں کو سرِ عام کوڑے مار رہے تھے کہ اُن پر زنا کا الزام ثابت ہو گیا تھا ۔ کابل کی وہ عورتیں جو ٹرک اور بسیں چلاتی تھیں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتی تھیں کہیں غائب ہو گئیں ۔

جہاد سے پہلے کا کابل

 امریکہ میں میرے ساتھ کچھ افغانی بھی کام کرتے ہیں ۔ اُن کے ساتھ باتیں ہوئیں تو معلوم ہوا وہ اپنے ملک کی تباہی کا سارا الزام پاکستان کو دیتے ہیں ۔ میرے کولیگ ڈاکٹر امان اللہ بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی ہونے والی بیوی کو ایک ریسٹورنٹ میں ماڈرن لباس میں دیکھا اور پسند کیا اور اُس کے والد کو رشتہ بھیجا ۔ یہ افغان جہاد سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان کے زمانے میں مردوں پر داڑھی مونڈھنے پر پابندی تھی ۔ اُن کو زبردستی نماز پڑھائی جاتی تھی ۔ بعض دفعہ وہ نماز پڑھ کر نکلتے مگر ثابت نہ کر سکتے کہ نماز پڑھی ہے تو اُنہیں کسی اور مسجد دھکیل دیا جاتا ۔ ڈاکٹر امان اللہ کہتے ہیں کہ چونکہ ان کی داڑھی نہیں تھی اور جب وہ پاکستان سے افغانستان جا رہے تھے تو اُنہیں دعائے قنوت پڑھ کر سنانے کو کہا ۔ وہ تو خیر گزری کہ ڈاکٹر امان اللہ کو وہ دعا یاد تھی کہ بچت ہوگئی ۔ ڈاکڑ امان بتاتے ہیں کہ شخصی آزادیوں کے سلب ہونے پر عام افغانی بہت برہم تھے۔

سن اناسی میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا۔ وہاں سے بھی کسی عام معافی کی خبر نہ آئی۔ فتح مکہ کی یاد کہیں سے تازہ نہ ہوئی۔ ہزاروں لوگو ں کو قتل کیا گیا۔ حتی کہ ان سوشلسٹوں کی بھی جان بخشی نہ ہوئی جنہوں نے انقلاب کے لیے ملا سے زیادہ جدوجہد کی تھی۔ میرے ایک ایرانی کولیگ بتاتے ہیں کہ ایران کی اکژیت اس قتلِ عام کے خلاف تھی۔ وہ اس حق میں بھی نہیں تھے کہ امریکہ کے سفارت خانے کے لوگوں کو یرغمال بنایا کہ اس سے ان کے ملک کی بدنامی ہوتی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں نے شخصی آزادیوں کو صلب کرنے کو آسانی سے قبول نہیں کیا۔ بہت سے لوگ انقلاب کے شروع کے دنوں میں اور اب بھی وقتاً فوقتاً اجتجاج کرتے رہتے ہیں۔اردو کے کالم نویس ہارون رشید اپنے کالم، جس معرکے میں ملا ہو غازی، میں لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی نے کہا تھا کہ پتلونیں اور نکٹائیاں معاف کر دیتی ہیں مگر جبے اور دستار معاف نہیں کرتے۔ یہ اقبال  کے اس شعر کی طرف اشارہ تھا

میں جانتا ہوں انجام اس کا

جس معرکے میں ملا ہو غازی

women in afghanistan before and after taliban

پاکستان کے حالات بھی افغان جہاد کے بعد ٹھیک نہیں رہے ۔ مذہب کے معاملات میں مزید سختی آگئی ہے۔ لوگوں کو غصہ ، نفر ت اور اشتعال دلانے کو اسلام سے محبت کا نام دیا گیا ہے۔ لہٰذا ہر کوئی اپنی محبت ظاہر کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کر ’’گستاخ ِ اسلام ‘‘کا سر تن سے جد ا کرنے کی باتیں کرنے لگاہے۔ بزرگوں کے مزاروں کو بموں سے اڑانے کا سلسلہ جاری ہو گیا ہے ۔ دیواروں پر شیعہ کافر ہے لکھا جانے لگا ہے ۔ ہر مسلک کی مسجدوں میں بم دھماکے معمول بن گئے ہیں ۔

بلا سفمی کے قانون کو مزید سخت کر کے قتل کی سزا قرار دی گئی اور اس میں نیت اور معافی کی شقوں کو ختم کر دیا گیا اسی قانون کے تحت ایک مزدور کرسچن عورت آسیہ بی بی کو گرفتار کیا گیا ۔ مجھے یاد تھا کہ حنفی فقہ کے مطابق غیر مسلم پر اسلامی حدود نافذ نہیں ہوتی ۔ مجھے تاریخ کی وہ کتابیں بھی یاد آگئیں جہاں لکھا تھا کہ اسپین کی اسلامی حکومت کے دور میں بہت کم غیر مسلم کو بلاسفمی پر قتل کی سزا ملتی ہے۔ ایسے لوگوں کو صرف اسی صورت میں سزا ملتی تھی جب کوئی بار بار منع کرنے کے باوجود باز نہ آتا تھا اور سرِ عام جرم کا مرتکب ہوتا تھا۔نیت اور معافی کا حقدار مسلمان کو بھی سمجھا جاتا تھا۔

میں نے پاکستان کی اخبار میں ایک کالم لکھا اور سب کو یاد کروایا کہ ہمارا دین ہمیں معافی کی تلقین کرتا ہے۔ محبت اور اخوت کا درس دیتا ہے۔ ہمارے نبی رحمت الالعالمین ہیں اور اُن کی سنت پر عمل کریں اور اُن کی سنت پر عمل کرنے والے لوگوں کی مثالیں سامنے رکھیں ۔ دو دن کے بعد اُسی اخبار میں ایک مولوی صاحب کا کالم چھپا جنہوں نے ایسے لوگوں سے باخبر رہنے کو کہا جو اس معاملے میں معافی اور رحم دلی کی تلقین کرتے ہیں ۔ اُن کے خیال میں ایسے لوگوں کو حرمت رسول کا خیال نہیں ہے۔ اُنہوں نے اپنے کالم میں اسلامی تاریخ کے پانچ چھ واقعات بیان کیے جس میں ایک دو دھ پلاتی عورت ،ایک غلام عورت اور کچھ اور آدمیوں کو اس جرم میں قتل کروا دیا گیا تھا ۔ میں نے یہ واقعات کبھی نہیں پڑھے تھے ۔ بعد میں تحقیق کی تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ واقعات مستند نہیں ہیں ۔ مجھے معلوم تھا کہ میرے پیغمبر جو رحمت الالعالمین ہیں اور جن کا دل ایک عورت کے دل سے بھی نرم تھا، جو صادق اور امین تھے اور منصف تھے وہ ایسی بات کا حکم کیسے دے سکتے ہیں ۔

اس واقعہ کے بعد گورنر سلمان تاثیر کو بلا سفمی کے قانون کے خلاف بولنے پر قتل کر دیا گیا اور ان کے قاتل کو غازی کا رتبہ مل گیا ۔ میں نے ایک دو اور کالم پھر اس موضوع پر بھیجے مگر اُسے کوئی اخبار شائع کرنے کو تیار نہیں تھا ۔ وہ آوازیں جو اسلام کو امن و آتشی ، محبت اور سلامتی کا مذہب سمجھتی ہیں اُن کیلئے اس ملک میں جگہ مزید تنگ ہو گئی ہے۔ وہ مولوی جو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں ان کی آوازیں ان آوازوں میں دب گئی ہیں جو مارنے اور مرنے کے فتوے دیتے ہیں۔ مشال خان کے بہیمانہ قیل پر ایک مولانا کا بیان سامنے آیا کہ اگرچہ یہ قتل غلط ہے مگر قاتلوں کی نیت اچھی تھی۔ یہ سب اپنے مخالفین کو دبانے کی سیاست ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس کا اندازہ یو ٹیوب پر ایک وڈیو سے ہوتا ہے جس میں ایک مولانا بہت فخر سے یہ کہتے ہیں کہ گورنر سلمان تاثیر کو مارنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ لبرل اور سیکولر ڈر گئے ہیں ۔

 اس کے بعد خود کش حملوں اور تشدد سے گھبرائے ہوئے پاکستانیوں کے لیے مولانا منور حسن کا یہ بیان شائع ہوا جس میں اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں قتال کا کلچر عام کرنا چاہیے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس وقت جو قتال کا کلچر ہے وہ اس کو کافی کیوں نہیں سمجھتے۔

مسلمانوں میں خلافت کے دوبارہ قیام کی تمنا جنتِ گم گشتہ کے حصول کی خواہش کی ایک شکل ہے۔اس جذبے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے داعش نے پچھلے کچھ سالوں میں خلافت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ داعش کے خلیفہ نے اپنی ریاست کو اسلامی خلافت قرار دیا ہے اور اپنے جھنڈے پر کلمہ لگایا ہواہے۔ اسں ریاست سے لوگوں کے سر قلم کرنے کی ویڈیو اور قیدی عورتوں کی منڈیوں کی ویڈیو سامنے آئی ہیں۔ کسی فلاحی معاشرے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔

 یہ ساری باتیں دیکھ کر میں لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتی ہوں کہ یہ اصلی اسلام نہیں ہے۔ ان اسلامی جماعتوں کو اسلام کی روح کا علم نہیں ہے۔ طالبان اور داعش نے اسلامی تاریخ نہیں پڑھی ہوئی۔ انہیں اسلام کے اخوت اور روا داری کے زریں اصولوں کا علم نہیں ہے۔ میں نے اکا دکا خط امریکہ کے اخباروں میں بھی لکھے جس میں اُنہیں حقیقی اسلام کے بارے میں بتایا جو اُنہوں نے شائع کر دئیے ۔ امریکہ میں بہت سے ہم خیال اور غیر ہم خیال لوگوں سے بحث و مباحثے کے بہت سارے مواقع ملے۔ آن لائن گروپس بھی بنائے اور اُس پر بھی کئی سال ان موضوعات پربحث کی ۔ مجھے یہاں بہت سے لوگوں نے بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں سیکولر امریکہ میں زیادہ مذہبی آزادی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے طریقے سے اسلام کی تعلیم دیتے ہیں اور اُن پر اعتراض کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ کچھ لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ میں یہ کیوں سمجھتی ہوں کہ مجھے ہی اسلام کا اچھی طرح علم ہے۔ کیا سعودی عرب ، ایران ، پاکستان کے علما، افغان کے طالبان اور داعش کو اسلام کا علم نہیں ہے؟

مجھے ان سوالوں کے جواب معلوم نہیں ہیں۔ مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ میرا اسلام مجھے انسانی مساوات ، رواداری ، معافی اور عدل وانصاف کا درس دیتا ہے۔ میرے قرآن کی ہر آیت (سوائے سورۃ توبہ کے) اُس خدا کے نام سے شروع ہوتی ہے جو رحیم اور رحمان ہے۔ لیکن میرے پاس اس اسلام کو نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ میں نے ابھی بھی اُس اسلام کے تصور کو نہیں چھوڑا ۔ مگر میں نے یہ بحث بند کر دی ہے کہ کس طرح کا اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے کہ میرے دلائل کے جواب میں میرے نظریاتی مخالفین کو قرآنی آیات اور احادیث عربی میں یاد ہیں ۔ میں اس بحث میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی کہ یہ میرا شعبہ نہیں ہے۔

مجھے 45 برس کی بحثوں اور اسلام نافذ کرنے والوں کے عملی اقدام دیکھ کر اندازہ ہوا ہے کہ اس جنت ِ گم گمشہ کا قیام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسلامی ریاست کا نا م دے کر جو اقدام کیے جاتے ہیں وہ اسلام کی روح کو سمجھے بغیر کیے جاتے ہیں۔ اسلام کو اصلی خطرہ ان اقدام سے ہے کہ اس طرح کے اقدام سے ہمارے دین کی پوری دنیا میں بدنامی ہو رہی ہے ۔ لوگوں نے ان اقدام کو اصل دین سمجھ لیا ہے۔ لہٰذا میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ریاست اور مذہب کو جدا کرنے سے ہی میں اپنے اسلام پر اور مولوی اپنے اسلام پر قائم رہ سکتا ہے۔ اس نظام کو سیکولر نظام کا نام دیا گیا ہے۔ جو مغربی ممالک نے ہمارے ملکوں جیسے حالات اور مسلک کی بنیاد پر جنگوں اور قتال کے بعد اپنے ملکوں میں رائج کیا ہے۔

کیا سیکولر ریاست پاکستان کے لیے جنت ہوگی ؟ہر گز نہیں۔ مگر اس سیکولر ریاست میں اکیسویں صدی کے انسانوں کے لیے اسی صدی کے انسان انصاف، مساوات، اور انسانیت کی بنیاد پر قوانین بنائیں گے ۔پھر اگر کوئی ان قوانین پر اعتراض کرے گا تو کوئی غازی بننے کے شوق میں اُسے قتل نہیں کرے گا ۔ مولوی کو دین کے بارے میں درس دینے کی آزادی ہوگی مگر اس کو مذہب کی بنیاد پر قوانین بنانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ اپنی بات کہنے کی آزادی ہوگی مگر نفرت اور انتشار پھیلانے کی اجازت نہ ہوگی ۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میرا دین انسانی مساوات کے اصول کی بنیاد پر بنے کسی نظام کا مخالف نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی مجھے مساوات اور عدل وانصاف کا درس دیتا ہے۔ یہ نظام ریاست سے مذہب کو جدا کرتا ہے مگر دین کو دلوں میں داخل کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے کہ دل بدلنے سے معاشرے صالح ہو تے ہیں ، کوڑے مارنے سے نہیں۔

اس تحریر کا پہلا حصہ پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کیجئے

https://www.humsub.com.pk/83305/ghazala-qazi-7/

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi