ستارہ دیوی – ایک مرد مار عورت کی تصویر


ستارہ دیوی  8 نومبر 1920 کو پیدا ہوئیں۔ 25 نومبر 2014 کو ممبئی میں انتقال ہوا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے انہیں کم عمری ہی مین کتھک کی ملکہ کا خطاب دیا تھا۔ بھارت سرکار نے انہیں پدم شری کے اعزاز سے نوازا۔ ذیل میں سعادت حسن منٹو کی ایک تحریر پیش کی جا رہی ہے۔ منٹو نے اپنے خاص انداز میں کتھک کی ملکہ اور اداکارہ ستارہ کی تصویر کھینچی ہے۔

٭٭٭     ٭٭٭

لکھنے کے معاملے میں، میں نے بڑے بڑے کڑے مراحل طے کئے ہیں لیکن مشہور رقاصہ اور ایکٹرس ستارہ کے بارے میں اپنے تاثرات قلمبند کرنے میں مجھے بڑی ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے، آپ تو اسے ایک ایکٹریس کی حیثیت سے جانتے ہیں جو ناچتی بھی ہے اور خوب ناچتی ہے لیکن مجھے اس کے کردار کا مطالعہ کرنے کا بھی موقع ملا ہے جو عجیب و غریب ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی عورتوں کے کردار و اطوار کا مطالعہ کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ستارہ کے حالات زندگی مجھے آہستہ آہستہ معلوم ہوئے تو میں چکرا گیا، وہ عورت نہیں ایک طوفان ہے اور وہ بھی ایسا طوفان جو صرف ایک مرتبہ آکے نہیں ٹلتا۔ بار بار آتا ہے

ستارہ یوں میانہ قد کی عورت ہے مگر بلا کی مضبوط ہے۔ اس نے جتنی بیماریاں سہی ہیں، میرا خیال ہے کہ اگر کسی اور عورت پر نازل ہوتیں تو وہ کبھی جانبر نہ ہوسکتی۔ وہ طبعاً بہت حوصلہ مند ہے شاید اس لیے کہ وہ کسرت کی عادی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ صبح سویرے اٹھ کر وہ کم از کم ایک گھنٹے تک ریاضت کرتی تھی اور یہ ریاضت کوئی معمولی ریاضت نہیں ہوتی تھی، ایک گھنٹہ بھرپور ناچنا ہڈیوں تک کو تھکا دیتا ہے مگر ستارہ مجھے کبھی تھکی تھکی دکھائی نہیں دی۔ اصل میں اس میں وہ چیز جسے انگریزی میں اسٹیمنا STAMINA  کہتے ہیں، بدرجہ اتم موجود ہے وہ تھکنے والی جنس نہیں، دوسرے تھک ہار جائیں گے مگروہ ویسی کی ویسی رہے گی جیسے اس نے کوئی مشقت نہیں کی، اس کو اپنے فن سے پیار ہے اسی والہانہ قسم کا جو وہ مختلف مردوں سے کرتی رہی ہے۔ معمولی ڈانس کے لئے وہ اتنی محنت کرے گی جتنی کوئی رقاصہ عمر بھر نہیں کرسکتی، اس کی طبیعت میں اپج ہے وہ ہمیشہ کوئی خاص بات کرنا چاہے گی۔ چلت پھرت جو ایک نٹنی میں ہوسکتی ہے اس میں ضرورت سے زیادہ موجود ہے وہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی نچلی نہیں بیٹھ سکتی اس کی بوٹی بوٹی تھرکتی رہتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ نیپال کی رہنے والی ہے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ ستارہ کے علاوہ اس کی دو بہنیں اور تھیں۔ یہ ترشول یوں مکمل ہوتا ہے۔ تارہ، ستارہ اور الکنندہ، تارہ اور الکنندہ تو اب قریب قریب معدوم ہو چکی ہیں۔ میرا خیال ہے ان کا نام بھی کسی کو یاد نہیں ہوگا۔ ان تین بہنوں کی زندگی ویسے بہت دلچسپ ہے۔ تارہ کی کئی مردوں سے وابستگی رہی۔ اس ہجوم میں ایک شوکت ہاشمی بھی ہیں جو ان تک کئی پاپڑ بیل چکے ہیں۔ حال ہی میں ان کی بیوی پورنیما نے ان سے طلاق لی ہے اور وہ اس سلسلے میں بڑے دردناک بیان دے چکے ہیں۔ الکنندہ کئی ہاتھوں سے گزری اور آخر میں پربھات کے شہرت یافتہ ایکٹر بلونت سنگھ کے پاس پہنچی، اس کے پاس وہ ابھی تک ہے یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں۔ ان تین بہنوں کی زندگی کی روئیداد اگر لکھی جائے تو ہزاروں صفحے کالے کئے جاسکتے ہیں۔ لوگ مجھے کوستے ہیں کہ میں فحش نگارہوں، گندہ ذہن ہوں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس دنیا میں کیسی کیسی ہستیاں موجود ہیں، میں اسے فحش نہیں کہتا۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ یا تو کوئی آدمی ماحول کے باعث مذموم حرکات کا مرتکب ہوتا ہے یا اپنی جبلت کے باعث۔ جو چیز آپ کو فطرت نے عطاء کی ہے اس کی اصلاح نفسانی علاج سے کسی حد تک ممکن ہے لیکن اگر آپ اس سے غافل رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ذرا سوچنے کی بات ہے۔

تارہ، ستارہ اور الکنندہ تین بہنیں کسی کے ہاں پیدا ہوئیں، غالباً نیپال کے کسی گاؤں میں وہاں سے وہ ایک ایک کرکے بمئی میں آئیں کہ فلمی دنیا میں قسمت آزمائی کریں لیکن یہ مقدر کی بات ہے کہ صرف ستارہ کا ستارہ چمکا جو باقی دو تھیں وہ ٹمٹاتی رہ گئیں۔ ستارہ کے متعلق میں پوری تفصیل سے لکھتے ہوئے جھجکتا ہوں، وہ ایک عورت نہیں، کئی عورتیں ہے۔ اس نے اتنے جنسی سلسلے کئے ہیں کہ میں اس مختصر مضمون میں ان کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ انگریزی زبان میں ایسی عورت کو  Nymphomaniac  کہا جاتا ہے۔ یہ عورت کی ایک خاص قسم ہے جو ایک مرد کے علاوہ اور سینکڑوں سے تعلق قائم کرتی ہے۔ ستارہ کا میں جب بھی تصور کرتا ہوں تو وہ مجھے بمبئی کی پانچ منزلہ بلڈنگ معلوم ہوتی ہے جس میں کئی فلیٹ اور کئی کمرے ہوں اور یہ واقع ہے کہ وہ بیک وقت کئی مرد اپنے دل میں بسائے رکھتی تھی۔

مجھے اتنا معلوم ہے کہ جب وہ بمبئی میں آئی تو اس کا تعلق ایک گجراتی فلم ڈائریکٹر سے قائم ہوا جس کا پورا نام مجھے یاد نہیں رہا لیکن وہ ڈیسائی تھا۔ دبلا پتلا مریل قسم کا انسان لیکن تھا بہت خوبیوں کا مالک، اپنے کام میں کافی ہوشیار تھا مگر قسمت نے اس کی یاوری نہ کی۔ چونکہ ضدی تھا اس لیے جگہ جگہ ٹھکرایا گیا۔ اس سے میری ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب سروج فلم کمپنی زندہ تھی لیکن اصل میں زندر درگور تھی۔ میری اس کی فوراً دوستی ہوگئی اس لیے کہ وہ فن شناس تھا اور ادبی ذوق بھی رکھتا تھا۔ اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ ستارہ اس کی بیوی ہے لیکن اس سے جدا ہوگئی ہے۔ ڈیسائی کو مگر اس جدائی کا اتنا رنج نہیں تھا اس کی باتوں سے مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ اس عورت سے پورا نبٹ نہیں سکتا تھا۔ ستارہ اس زمانے میں کسی اور کے پاس تھی لیکن کبھی کبھی اپنے شوہرڈیسائی کے پاس بھی آجاتی تھی۔ وہ خود دار انسان تھا اس لیے وہ اس سے عموماً بے اعتنائی برتتا تھا اور اسے مختصر ملاقات کے بعد رخصت کردیا کرتا تھا۔ ہندوؤں کے مذہب کے مطابق کوئی عورت طلاق نہیں لے سکتی۔ ڈیسائی سے ستارہ کی شادی ہندو قانون کے تحت ہوئی تھی اس لیے اب بھی وہ مسز ڈیسائی ہے حالانکہ وہ کئی مردوں سے منسلک ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کرچکی ہے۔

باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8