ستارہ دیوی – ایک مرد مار عورت کی تصویر


اب ایک اور لطیفہ سنئے، الناصر جو اب تک بہت موٹا اور بھدا ہوگیا ہے۔ جب وہ شروع شروع میں فلم سٹی آیا تھا تو بہت خوبصورت تھا، بڑا نرم و نازک، سرخ و سپید ڈیرہ دون کی پہاڑی فضاء نے اس کو نکھار دیا تھا، میں تو یوں کہوں گا کہ وہ نسائیت کی حد تک خوبصورت تھا، اس میں وہ تمام ادائیں تھیں جو ایک خوبصورت لڑکی میں ہوسکتی ہیں۔ میں جب دہلی میں ڈیڑھ برس گزارنے کے بعد سید شوکت حسین رضوی کے بلانے پر بمبئی پہنچا تو اس سے میری ملاقات منرواموری ٹون میں ہوئی۔ وہ گیٹ کے باہر کھڑا تھا۔ میں حیرت زدہ تھا۔ گالوں کا گلابی رنگ ندارد جسم پر پتلون ڈھیلی ڈھالی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ سکڑ گیا ہے، نچڑ گیا ہے۔ میں نے اسے بڑے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’ میری جان! یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے۔ ‘‘ اس نے اپنا منہ میرے کان کے پاس لاکر سرگوشی میں کہا۔ ’’ستارہ۔۔۔ ۔۔۔ میری جان۔۔۔ ۔۔۔ ستارہ۔ ‘‘ جہاں دیکھو ستارہ۔۔۔ ۔۔۔ میں نے سوچا کہ یہ ستارہ صرف زردیاں پیدا کرنے کے لئے پیدا کوئی ہے۔ ادھر پی۔ این اروڑہ انگلینڈ کا تعلیم یافتہ صدا بند، ادھر ڈیرہ دون اسکول کا پڑھا ہوا نوخیز لڑکا۔ الگ لے جا کر جب میں نے اس سے پوری تفصیل پوچھی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ ستارہ کے چکر میں پڑ گیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بیمار ہوگیا ہے۔ جب اس کو اس بات کا احساس ہوا کہ اگر وہ زیادہ دیر تک اس چکر میں رہا تو وہ ختم ہو جائے گا تو وہ ایک روز ٹکٹ کٹا کر ڈیرہ دون چلا گیا، جہاں اس نے تین مہینے ایک سینے ٹوریم میں گزارے اور اپنی کھوئی ہوئی صحت کسی حد حاصل کی، اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ وہ اس دوران میں مجھے ہندی زبان میں بڑے لمبے لمبے خط لکھتی رہی لیکن میں یہ خط پڑھ نہیں سکتا تھا البتہ ان کی آمد سے کانپ کانپ ضرور جاتا تھا، اس نے پھر میری کان میں کہا۔ ’’منٹو صاحب! بڑی عجیب و غریب عورت ہے۔ ‘‘

ستارہ اصل میں ہے ہی عجیب و غریب عورت، ایسی عورتیں لاکھ میں دو تین ہوتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کئی مرتبہ خطرناک طور پر بیمار ہوئی اس کو ایسے ایسے عارضے لاحق ہوئے کہ عام عورت کبھی جانبر نہ ہوسکتی مگر وہ ایسی سخت جان ہے کہ ہر بار موت کو غچہ دیتی رہی۔ اتنی بیماریوں کے بعد خیال تھا کہ اس کے ناچنے کی قوتیں سلب ہوجائیں گی مگر وہ اب بھی اپنے عہد جوانی کی طرح ناچتی ہے۔ ہر روز گھنٹوں ریاض کرتی ہے۔ مالشئے سے تیل کی مالش کراتی ہے اور وہ سب کچھ کرتی ہے جو پہلے کرتی آئی ہے۔ اس کے گھر میں دو نوکر ہوتے ہیں، ایک مرد، ایک عورت، مرد عام طور پر اس کا مالشیا ہوتا ہے، جو عورت ہے اس کے متعلق میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ پرانی کہانیوں کی کٹنی معلوم ہوتی ہے جو آسمان میں تھگلی لگایا کرتی تھیں۔ وہ ململ کی باریک ساڑھی پہنتی ہے۔ اتنی باریک کہ اس کا سارا ڈھیلا ڈھالا جسم اس میں سے چھن چھن کر باہر آتارہتا ہے اور دیکھنے والوں کے لئے کراہت کا موجب ہوتا ہے۔ یہ عورت میں نے جب بھی دیکھی بہت کم گو، مگر بڑی تیز نظر دیکھی۔ اس کی عمر کم از کم پچپن برس کے قریب ہوگی مگر وہ جوانوں کی مانند چاق و چوبند تھی اس کی آنکھیں عقاب کی طرح دیکھتی تھیں۔ جب ستارہ اکیلی تھی یعنی وہ کسی ایک کی ہو کے نہیں رہتی تھی تو اس کا مکان دادر کے’’خداداد سرکل‘‘ میں تھا اور جو صفتیں یا قباحتیں ستارہ میں ہیں، وہ بھی خداداد ہیں۔ نذیر جو اب سورن لتا سے منسلک ہے، بڑی خوبیوں کا مالک ہے۔ اس نے بہت دیر تک ستارہ کو برداشت کیا مگر جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں وہ ایک مرد کی عورت نہیں ہے ۔ چنانچہ جب نذیر تنگ آ گیا اور اس کو حتمی طور پر معلوم ہوگیا کہ وہ اس سے نباہ نہیں کرسکتا تو اس نے ایک روز اس سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ’’ستارہ مجھے بخش دو۔ مجھ سے جو غلطی ہوگئی میں اس کے لئے پشیمان ہوں اور تم سے معافی کا خواستگار۔ ‘‘ نذیر ستارہ کو مارا پیٹا کرتا تھا۔ وہ اس سے ناخوش نہیں تھی۔ ایسی عورتیں زدوکوب سے ایک خاص قسم کی جنسی لذت محسوس کرتی ہیں مگر ان سے منسلکہ مرد کب تک ہاتھا پائی کرتا رہے۔ وہ غریب بھی ایک عرصے کے بعد عاجز آجاتا ہے۔

اب اسی سلسلے کی ایک اور کڑی کے متعلق بھی سنئے۔ جس زمانے میں ستارہ نذیر کے یہاں تھی اسی زمانے میں نذیر کا بھانجا کے۔ آصف بھی وہیں تھا۔ کے ۔ آصف بڑا تنومند تھا۔ بڑا ہٹا کٹا، جوانی سے بھرپور جس کو عورت ذات سے شاید کبھی سابقہ ہی نہیں پڑا تھا، اپنے ماموں کے ہاں رہتا تھا اور اس سے فلمی صنعت کے متعلق واقفیت حاصل کررہا تھا۔ دل میں سینکڑوں ولولے تھے، بڑے ارمان تھے، پھر فلمی دنیا میں آکر اس نے عورتوں( اور وہ بھی ایکٹرسوں) کو قریب سے دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے ماموں نذیر اورستارہ کے باہمی تعلقات بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کے۔ آصف کی جوانی پھوٹی پڑی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب مرد اپنی جوانی کے جوش میں پتھروں کی دیوار سے بھی بھڑ جانا چاہتا ہے اور ستارہ یقیناً ایک پتھریلی دیوار تھی جو کسی سے ٹکرانا چاہتی تھی۔ نذر اس زمانے میں رنجیت فلم اسٹوڈیوکے عین سامنے ایک احاطے کے اندر رہتا تھا۔ بڑی غلیظ سی جگہ تھی۔ نذیر نے ایک پورا فلیٹ لے رکھا تھا۔ اسی میں اس کی قائم کی ہوئی’’ہندپکچرز‘‘ کا دفتر بھی تھا۔ دو تین کمرے تھے، ان میں تخلیہ کیا ہوسکتا ہے چنانچہ پُر جوش نوجوان آصف کو ہر وہ پہلو دیکھنے کا موقع ملا جو اس مرد و زن کے باہمی تعلقات سے وابستہ ہوتا ہے۔

نوجوان آصف کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ بڑا حیرت انگیز، اس نے اپنے شادی شدہ دوستوں سے ازدواجی زندگی کے اسرار کئی بار سنے تھے مگر اسے کبھی تعجب نہیں ہوا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ ایک بستر ہوتا ہے جس پر انسانی فطرت اپنی ازلی و ابدی کھیل کھیلتی ہے مگر آصف کی آنکھوں نے جو کچھ ایک بار محض اتفاق سے دیکھا وہ بالکل مختلف تھا۔ بڑا خوفناک جس نے اس کی ہڈی ہڈی جھنجھوڑ دی۔ اس نے کئی بار کتوں کی لڑائی دیکھی تھی جو ایک دوسرے سے بڑے وحشت ناک طریقے پر گتھ جاتے تھے۔ ایک دوسرے کو جھنجھوڑتے، بھنبھوڑتے، کاٹتے اور نوچتے تھے۔۔۔ ۔۔۔ اس کا تن بدن لرز گیا۔ اس نے سوچا یہ محبت و حبت سب بکواس ہے۔ اصل میں انسان درندہ ہے اور اس کی محبت ایک بڑی خوف ناک قسم کی کشتی مگر اس اکھاڑے میں اترنے اور ایسی کشتی لڑنے کا شوق ضرور تھا، اس کے بازوؤں میں قوت تھی، اس کے بدن میں حرارت تھی، اس کے تمام پٹھے فولادی تھے۔ اس کی خواہش تھی کہ صرف ایک بار اسے موقع دیا جائے تو وہ حریف کو چاروں شانے چت گرا دے۔

باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8