کبوتروں والا سائیں


اجنبی اپنے ہاتھوں کو آگ کے الاؤ پر زور زور سے مل کر اُٹھا اور جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے باہر چلا گیا۔ سُندر جاٹ بہت بڑا ڈاکو تھا۔ اس کی دہشت اتنی تھی کہ مائیں اپنے بچوں کو اُسی کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں۔ بے شمار گیت اسکی بہادری اور بیباکی کے گاؤں کی جوان لڑکیوں کو یاد تھے۔ اس کا نام سُن کر بہت سی کنواریوں کے دل دھڑکنے لگتے تھے۔ سُندر جاٹ کو بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا مگر جب چوپال میں لوگ جمع ہوتے تھے تو ہر شخص اس سے اپنی اچانک ملاقات کے من گھڑت قصے سُنانے میں ایک خاص لذت محسوس کرتا تھا۔ اس کے قدوقامت اور ڈیل ڈول کے بارے میں مختلف بیان تھے۔ بعض کہتے تھے کہ وہ بہت قد آور جوان ہے، بڑی بڑی مونچھوں والا۔ ان مونچھوں کے بالوں کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ دو بڑے بڑے لیموں ان کی مدد سے اُٹھا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بیان تھا کہ اس کا قد معمولی ہے مگر بدن اس قدر گٹھا ہوا ہے کہ گینڈے کا بھی نہ ہو گا۔ بہرحال سب متفقہ طور پر اسکی طاقت اور بیباکی کے مُعترف تھے۔ جب مائی جیواں نے یہ سنا کہ سُندر جاٹ انکے گاؤں پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے آرہا ہے تو اسکے آئے اوسان خطا ہو گئے اور وہ اس اجنبی کے سلام کا جواب تک نہ دے سکی اور نہ اس کا شکریہ ادا کرسکی۔ مائی جیواں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ سُندر جاٹ کا ڈاکہ کیا معنی رکھتا ہے۔ پچھلی دفعہ جب اس نے ساتھ والے گاؤں پر حملہ کیا تھا تو سکھی مہاجن کی ساری جمع پونجی غائب ہو گئی تھی اور گاؤں کی سب سے سُندر اور چنچل چھوکری بھی ایسی گُم ہوئی تھی کہ اب تک اس کا پتہ نہیں ملتا تھا۔ یہ بلا اب ان کے گاؤں پر نازل ہونے والی تھی اور اس کا علم سوائے مائی جیواں کے گاؤں میں کسی اور کو نہ تھا۔ مائی جیواں نے سوچا کہ وہ اس آنے والے بھونچال کی خبر کس کس کو دے۔ چوہدری کے گھر خبر کردے۔ لیکن نہیں وہ تو بڑے کمینے لوگ تھے۔ پچھلے دنوں اس نے تھوڑا سا ساگ ان سے مانگا تھا تو انھوں نے انکار کردیا تھا۔ گھسیٹا رام حلوائی کو متنبہ کردے۔ نہیں، وہ بھی ٹھیک آدمی نہیں تھا۔ وہ دیر تک ان ہی خیالات میں غرق رہی۔ گاؤں کے سارے آدمی وہ ایک ایک کرکے اپنے دماغ میں لائی اور ان میں سے کسی ایک کو بھی اس نے مہربانی کے قابل نہ سمجھا۔ اس کے علاوہ اس نے سوچا اگر اس نے کسی کو ہمدردی کے طور پر اس راز سے آگاہ کردیا تو وہ کسی اور پر مہربانی کرے گا اور یوں سارے گاؤں والوں کو پتہ چل جائے گا جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ آخر میں وہ یہ فیصلہ کرکے اٹھی کہ اپنی ساری جمع پونجی نکال کر وہ سبز رنگ کی غلاف چڑھی قبر کے سرہانے گاڑ دے گی اور رحمان کو پاس والے گاؤں میں بھیج دے گی۔

جب وہ سامنے والی کوٹھڑی کی طرف بڑھی تو دہلیز میں اسے عبدالغفار یعنی کبوتروں والاسائیں کھڑا نظر آیا۔ ماں کو دیکھ کر وہ ہنسا۔ اس کی یہ ہنسی آج خلافِ معمول معنی خیز تھی۔ مائی جیواں کو اس کی آنکھوں میں سنجیدگی اور متانت کی جھلک بھی نظر آئی جو کہ ہوشمندی کی نشانی ہے۔ جب وہ کوٹھڑی کے اندر جانے لگی تو عبدالغفار نے پوچھا۔

’’ماں، یہ صبح سویرے کون آدمی آیا تھا؟‘‘

عبدالغفار اس قسم کے سوال عام طور پر پوچھا کرتا تھا، اس لیے اس کی ماں جواب دیئے بغیر اندر چلی گئی اور اپنے چھوٹے لڑکے کو جگانے لگی۔

’’اے رحمان، اے رحمان اُٹھ اُٹھ۔ ‘‘

بازو جھنجھوڑ کر مائی جیواں نے اپنے چھوٹے لڑکے رحمان کو جگایا اور وہ جب آنکھیں مل کر اٹھ بیٹھا اور اچھی طرح ہوش آگیا تو اس کی ماں نے اس کو ساری بات سنا دی۔ رحمان کے تو اوسان خطا ہو گئے۔ وہ بہت ڈرپوک تھا گو اس کی عمر اس وقت بائیس برس کی تھی اور کافی طاقتور جوان تھا مگر اُس میں ہمت اور شجاعت نام تک کو نہ تھی۔ سُندر جاٹ!۔ اتنا بڑا ڈاکو، جس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ تھوک پھینکتا تھا تو پورے بیس گز کے فاصلے پر جا کر گرتا تھا، پرسوں ڈاکہ ڈالنے اور لوٹ مار کرنے کے لیے آرہا تھا۔ وہ فوراً اپنی ماں کے مشورے پر راضی ہو گیا بلکہ یوں کہیے کہ وہ اسی وقت گاؤں چھوڑنے کی تیاریاں کرنے لگا۔ رحمان کو نیتی چمارن یعنی عنایت سے محبت تھی جو کہ گاؤں کی ایک بیباک شوخ اور چنچل لڑکی تھی۔ گاؤں کے سب جوان لڑکے شباب کی یہ پوٹلی حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے مگر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ بڑے بڑے ہوشیار لڑکوں کو وہ باتوں باتوں میں اڑا دیتی تھی۔ چوہدری دین محمد کے لڑکے فضل دین کو کلائی پکڑنے میں کمال حاصل تھا۔ اس فن کے بڑے بڑے ماہر دُور دُور سے اس کو نیچا دکھانے کے لیے آتے تھے مگر اس کی کلائی کسی سے بھی نہ مڑی تھی۔ وہ گاؤں میں اکڑ اکڑ کر چلتا تھا مگر اس کی یہ ساری اکڑفوں نیتی نے ایک ہی دن میں غائب کردی جب اس نے دھان کے کھیت میں اس سے کہا۔

’’فجے، گنڈا سنگھ کی کلائی مروڑ کر تُو اپنے من میں یہ مت سمجھ کہ بس اب تیرے مقابلہ میں کوئی آدمی نہیں رہا۔ آمیرے سامنے بیٹھ، میری کلائی پکڑ، ان دو انگلیوں کی ایک ہی ٹھمکی سے تیرے دونوں ہاتھ نہ چُھڑا دُوں تو نیتی نام نہیں۔ ‘‘

فضل دین اس کو محبت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا اور اسے یقین تھا کہ اسکی طاقت اور شہزوری کے رُعب اور دبدبے میں آکر وہ خودبخود ایک روز رام ہو جائے گی۔ لیکن جب اس نے کئی آدمیوں کے سامنے اس کو مقابلے کی دعوت دی تو وہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ اگر وہ انکارکرتا ہے تو نیتی اور بھی سر پر چڑھ جاتی ہے اور اگر وہ اسکی دعوت قبول کرتا ہے تو لوگ یہی کہیں گے۔ عورت ذات سے مقابلہ کرتے شرم تو نہیں آئی مردود کو۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ چنانچہ اس نے نیتی کی دعوت قبول کرلی تھی۔ اور جیسا کہ لوگوں کا بیان ہے اس نے جب نیتی کی گدرائی ہوئی کلائی اپنے ہاتھوں میں لی تو وہ سارے کا سارا کانپ رہا تھا۔ نیتی کی موٹی موٹی آنکھیں اس کی آنکھوں میں دھنس گئیں، ایک نعرہ بلند ہوا اور نیتی کی کلائی فضل کی گرفت سے آزاد ہو گئی۔ اس دن سے لیکر اب تک فضل نے پھر کبھی کسی کی کلائی نہیں پکڑی۔ ہاں، تو اس نیتی سے رحمان کو محبت تھی، جیسا کہ وہ آپ ڈرپوک تھا اسی طرح اس کا پریم بھی ڈرپوک تھا۔ دُور سے دیکھ کروہ اپنے دل کی ہوّس پوری کرتا تھا اور جب کبھی اس کے پاس ہوتی تو اس کو اتنی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ حرفِ مدعا زبان پر لائے۔ مگر نیتی سب کچھ جانتی تھی۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4