کبوتروں والا سائیں


وہ کیا کچھ نہیں جانتی تھی۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ چھوکرا جو درختوں کے تنوں کے ساتھ پیٹھ ٹیکے کھڑا رہتا ہے اس کے عشق میں گرفتار ہے، اس کے عشق میں کون گرفتار نہیں تھا؟ سب اس سے محبت کرتے تھے۔ اس قسم کی محبت جو کہ بیریوں کے بیر پکنے پر گاؤں کے جوان لڑکے اپنی رگوں کے تناؤ کے اندر محسوس کیا کرتے ہیں مگر وہ ابھی تک کسی کی محبت میں گرفتار نہیں ہوئی تھی۔ محبت کرنے کی خواہش البتہ اسکے دل میں اس قدر موجود تھی کہ بالکل اس شرابی کے مانند معلوم ہوتی تھی جس کے متعلق ڈر رہا کرتا ہے کہ اب گِرا اور اب گِرا۔ وہ بے خبری کے عالم میں ایک بہت اونچی چٹان کی چوٹی پر پہنچ چکی تھی اور اب تمام گاؤں والے اس کی افتاد کے منتظر تھے جو کہ یقینی تھی۔ رحمان کو بھی اس اُفتاد کا یقین تھا مگر اس کا ڈرپوک دل ہمیشہ اسے ڈھارس دیا کرتا تھا کہ نہیں، نیتی آخر تیری ہی باندی بنے گی اور وہ یوں خوش ہوجایا کرتا تھا۔ جب رحمان دس کوس طے کرکے دوسرے گاؤں میں پہنچنے کے لیے تیار ہو کر تکیئے سے باہر نکلا تو اُسے راستے میں نیتی کا خیال آیا مگر اس وقت اُس نے یہ نہ سوچا کہ سُندر جاٹ دھاوا بولنے والا ہے۔ وہ دراصل نیتی کے تصور میں اس قدر مگن تھا اور اکیلے میں اس کے ساتھ من ہی من میں اتنے زوروں سے پیار محبت کررہا تھا کہ اسے کسی اور بات کا خیال ہی نہ آیا۔ البتہ جب وہ گاؤں سے پانچ کوس آگے نکل گیا تو ایکا ایکی اس نے سوچا کہ نیتی کو تو بتا دینا چاہیے تھا کہ سندر جاٹ آرہا ہے۔ لیکن اب واپس کون جاتا۔ عبدالغفار یعنی کبوتروں والا سائیں تکیے سے باہر نکلا۔ اس کے منہ سے لعاب نکل رہا تھا جو کہ میلے کُرتے پر گر کر دیر تک گلیسرین کی طرح چمکتا رہتا تھا۔ تکیے سے نکل کر سیدھا کھیتوں کا رخ کیا کرتا تھا اور سارا دن وہیں گزار دیتا تھا۔ شام کو جب ڈھورڈنگر واپس گاؤں کو آتے تو ان کے چلنے سے جو دھول اُڑتی ہے اس کے پیچھے کبھی کبھی غفار کی شکل نظر آجاتی تھی۔ گاؤں اس کو پسند نہیں تھا۔ اجاڑ اور سنسان جگہوں سے اسے غیر محسوس طور پر محبت تھی یہاں بھی لوگ اس کا پیچھا نہ چھوڑتے تھے اور اس سے طرح طرح کے سوال پوچھتے تھے۔ جب برسات میں دیر ہو جاتی تو قریب قریب سب کسان اس سے درخواست کرتے تھے کہ وہ پانی بھرے بادلوں کیلیے دعا مانگے اور گاؤں کے عشق پیشہ جوان اس سے اپنے دل کا حال بیان کرتے اور پوچھتے کہ وہ کب اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے، نوجوان چھوکریاں بھی چپکے چپکے دھڑکتے ہوئے دلوں سے اس کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کرتی تھیں اور یہ جاننا چاہتی تھیں کہ ان کے’’ماہیا‘‘کا دل کیسا ہے۔ عبدالغفار ان سوالیوں کو اوٹ پٹانگ جواب دیا کرتا تھا اس لیے کہ اسے غیب کی باتیں کہاں معلوم تھیں، لیکن لوگ جو اس کے پاس سوال لیکر آتے تھے اس کی بے ربط باتوں میں اپنا مطلب ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔

عبدالغفار مختلف کھیتوں میں سے ہوتا ہوا اس کنویں کے پاس پہنچ گیا جو کہ ایک زمانے سے بیکار پڑا تھا۔ اس کنویں کی حالت بہت ابتر تھی۔ اس بوڑھے برگد کے پتے جو کہ سالہا سال سے اس کے پہلو میں کھڑا تھا اس قدر اس میں جمع ہو گئے تھے کہ اب پانی نظر ہی نہ آتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا کہ بہت سی مکڑیوں نے مل کر پانی کی سطح پر موٹا سا جالا بُن دیا ہے۔ اس کنویں کی ٹوٹی ہوئی منڈیر پر غبدالغفار بیٹھ گیا اور دوسروں کی اُداس فضا میں اس نے اپنے وجود سے اور بھی اداسی پیدا کردی۔ دفعتاً اُڑتی ہوئی چیلوں کی اُداس چیخوں کو عقب میں چھوڑتی ہوئی ایک بلند آواز اُٹھی اور بوڑھے برگد کی شاخوں میں ایک کپکپاہٹ سی دوڑ گئی۔ نیتی گا رہی تھی ؂ ماہی مرے نے باگ لوایا چمپا، میوا خوب کِھلایا اَسی تے لوایاں کھٹیاں وے راتیں سون نہ دیندیاں اکھیاں وے اس گیت کا مطلب یہ تھا کہ میرے ماہیا یعنی میرے چاہنے والے نے ایک باغ لگایا ہے، اس میں ہر طرح کے پھول اُگائے ہیں، چمپا، میوا وغیرہ کھلائے ہیں۔ اور ہم نے تو صرف نارنگیاں لگائی ہیں۔ رات کو آنکھیں سونے نہیں دیتیں۔ کتنی انکساری برتی گئی ہے۔ معشوق عاشق کے لگائے ہوئے باغ کی تعریف کرتا ہے، لیکن وہ اپنی جوانی کے باغ کی طرف نہایت انکسارانہ طور پر اشارہ کرتا ہے جس میں حقیر نارنگیاں لگی ہیں اور پھر شب جوابی کا گلہ کِس خُوبی سے کیا گیا ہے۔ گو عبدالغفار میں نازک جذبات بالکل نہیں تھے پھر بھی نیتی کی جوان آواز نے اس کو چونکا دیا اور وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس نے پہچان لیا تھا کہ یہ آواز نیتی کی ہے۔ گاتی گاتی نیتی کنویں کی طرف آنکلی۔ غفار کو دیکھ کروہ دوڑی ہُوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی۔

’’اوہ، غفار سائیں۔ تم۔ اوہ، مجھے تم سے کتنی باتیں پوچھنا ہیں۔ اور اس وقت یہاں تمہارے اور میرے سوا اور کوئی بھی نہیں۔ دیکھو میں تمہارا منہ میٹھا کراؤں گی اگر تم نے میرے دل کی بات بُوجھ لی اور۔ لیکن تم تو سب کچھ جانتے ہو۔ اللہ والوں سے کسی کے دل کا حال چُھپا تھوڑی رہتا ہے۔ ‘‘

وہ اُس کے پاس زمین پر بیٹھ گئی اور اس کے میلے کرتے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ خلافِ معمول کبوتروں والا سائیں مسکرایا مگر نیتی اس کی طرف دیکھ نہیں رہی تھی، اس کی نگاہیں گاڑہے کے تانے بانے پربغیر کسی مطلب کے تیر رہی تھیں۔ کُھردرے کپڑے پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اس نے گردن اُٹھائی اور آہوں میں کہنا شروع کیا۔

’’غفار سائیں تم اللہ میاں سے محبت کرتے ہو اور میں۔ میں ایک آدمی سے محبت کرتی ہُوں۔ تم میرے دل کا حال کیا سمجھو گے!۔ اللہ میاں کی محبت اور اس کے بندے کی محبت ایک جیسی تو ہو نہیں سکتی۔ کیوں غفار سائیں۔ ارے تم بولتے کیوں نہیں۔ کچھ بولو۔ کچھ کہو۔ اچھا تو میں ہی بولے جاؤں گی۔ تم نہیں جانتے کہ آج میں کتنی دیر بول سکتی ہوں۔ تم سُنتے سُنتے تھک جاؤ گے پر میں نہیں تھکوں گی۔ ‘‘

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4