کبوتروں والا سائیں


یہ کہتے کہتے وہ خاموش ہو گئی اور اس کی سنجیدگی زیادہ بڑھ گئی۔ اپنے من میں غوطہ لگانے کے بعد جب وہ ابھری تو اس نے ایکا ایکی عبدالغفار سے پوچھا۔

’’سائیں۔ میں کب تھکوں گی؟‘‘

عبدالغفار کے منہ سے لعاب نکلنا بند ہو گیا۔ اس نے کنویں کے اندر جُھک کر دیکھتے ہُوئے جواب دیا۔

’’بہت جلد۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہُوا۔ اس پر نیتی نے اس کے کرتے کا دامن پکڑ لیا اور گھبرا کر پوچھا۔

’’کب؟۔ کب؟۔ سائیں کب؟‘‘

عبدالغفار نے اس کاکوئی جواب نہ دیا اور ببول کے جُھنڈ کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ نیتی کچھ دیر کنویں کے پاس سوچتی رہی پھر تیز قدموں سے جدھر سائیں گیا تھا اُدھر چل دی۔ وہ رات جس میں سُندر جاٹ گاؤں پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے آرہا تھا۔ مائی جیواں نے آنکھوں میں کاٹی۔ ساری رات وہ اپنی کھاٹ پر لحاف اوڑھے جاگتی رہی۔ وہ بالکل اکیلی تھی۔ رحمان کو اس نے دوسرے گاؤں بھیج دیا اور عبدالغفار نہ جانے کہاں سو گیا تھا۔ ابو پہلوان کبھی کبھی تکیے میں آگ تاپتا تاپتا وہیں الاؤ کے پاس سو جایا کرتا تھا مگر وہ صبح ہی سے دکھائی نہیں دیا تھا، چنانچہ کتوبروں کو دانہ مائی جیواں ہی نے کِھلایا تھا۔ تکیہ گاؤں کے اس سِرے پرواقع تھا جہاں سے لوگ گاؤں کے اندر داخل ہوتے تھے۔ مائی جیواں ساری رات جاگتی رہی مگر اس کو ہلکی سی آہٹ بھی سُنائی نہ دی۔ جب رات گزر گئی اور گاؤں کے مرغوں نے اذانیں دینا شروع کردیں تو وہ سُندر جاٹ کی بابت سوچتی سوچتی سو گئی۔ چونکہ رات کو وہ بالکل نہ سوئی تھی اس لیے صبح بہت دیر کے بعد جاگی۔ کوٹھڑی سے نکل کر جب وہ باہر آئی تو اس نے دیکھا کہ ابو پہلوان کبوتروں کو دانہ دے رہا ہے اور دھوپ سارے تکیے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس نے باہر نکلتے ہی اس سے کہا۔

’’ساری رات مجھے نیند نہیں آئی۔ یہ موا بڑھاپا بڑا تنگ کررہا ہے۔ صبح سوئی ہوں اور اب اُٹھی ہوں۔ ہاں تم سناؤ کل کہاں رہے ہو؟‘‘

ابو نے جواب دیا۔

’’گاؤں میں۔ ‘‘

اس پر مائی جیواں نے کہا۔

’’کوئی تازہ خبر سناؤ۔ ‘‘

ابو نے جھولی کے سب دانے زمین پر گرا کر اور جھپٹ کر ایک کبوتر کو بڑی صفائی سے اپنے ہاتھ میں دبوچتے ہوئے کہا۔

’’آج صبح چوپال پر نتھا سنگھ کہہ رہا تھا کہ گام چمار کی وہ لونڈیا۔ کیا نام ہے اس کا؟۔ ہاں وہ نیتی کہیں بھاگ گئی ہے؟۔ میں تو کہتا ہوں اچھا ہوا۔ حرامزادی نے سارا گاؤں سر پر اٹھا رکھا تھا۔ ‘‘

’’کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے یا کوئی اُٹھا کر لے گیا ہے؟‘‘

’’جانے میری بلا۔ لیکن میرے خیال میں تو وہ خود ہی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ ‘‘

مائی جیواں کو اس گفتگو سے اطمینان نہ ہوا۔ سُندر جاٹ نے ڈاکہ نہیں ڈالا تھا پر ایک چھوکری تو غائب ہو گئی تھی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح نیتی کا غائب ہو جانا سُندر جاٹ سے متعلق ہو جائے۔ چنانچہ وہ ان تمام لوگوں سے نیتی کے بارے میں پوچھتی رہی جو کہ تکیے میں آتے جاتے رہے لیکن جو کچھ ابو نے بتایا تھا اس سے زیادہ اسے کوئی بھی نہ بتا سکا۔ شام کورحمان لوٹ آیا۔ اس نے آتے ہی ماں سے سُندر جاٹ کے ڈاکہ کے متعلق پوچھا۔ اس پر مائی جیواں نے کہا۔

’’سندر جاٹ تو نہیں آیا بیٹا پر نیتی کہیں غائب ہو گئی ہے۔ ایسی کہ کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ ‘‘

رحمان کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگوں میں دس کوس اور چلنے کی تھکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ وہ اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا، اس کا چہرہ خوفناک طور پر زرد تھا۔ ایک دم یہ تبدیلی دیکھ کر مائی جیواں نے تشویشناک لہجہ میں اس سے پوچھا۔

’’کیا ہوا بیٹا۔ ‘‘

رحمان نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور کہا۔

’’کچھ نہیں ماں۔ تھک گیا ہوں۔ ‘‘

’’اور نیتی کل مجھ سے پوچھتی تھی، میں کب تھکوں گی؟‘‘

رحمان نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا بھائی عبدالغفار آستین سے اپنے منہ کا لعاب پونچھ رہا تھا۔ رحمان نے اس کی طرف گھور کردیکھا اور پوچھا

’’کیا کہا تھا اس نے تجھ سے؟‘‘

عبدالغفار الاؤ کے پاس بیٹھ گیا۔

’’کہتی تھی کہ میں تھکتی ہی نہیں۔ پر اب وہ تھک جائے گی۔ ‘‘

رحمان نے تیزی سے پوچھا۔

’’کیسے؟‘‘

غفار سائیں کے چہرے پر ایک بے معنی سی مسکراہٹ پیدا ہُوئی۔

’’مجھے کیا معلوم؟۔ سُندر جاٹ جانے اور وہ جانے۔ ‘‘

یہ سُن کر رحمان کے چہرے پر اور زیادہ زردی چھا گئی اور مائی جیواں کی جُھریاں زیادہ گہرائی اختیار کرگئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4