مجھے پتہ ہے، قید میں چڑیا کیوں گاتی ہے


مسٹر فری مین کی مسکرا ہٹ میں کبھی کمی بیشی نہیں ہو گی، وہ لگ بھگ اتنی ہی جاندار بنی رہی۔ کبھی کبھی ممی ان کی گود میں چڑھ کر بیٹھ جاتیں تو ان کے چہرے کی مسکراہٹ ایسی لگتی جیسے وہ ان کے چہرے پر ہمیشہ کے لیے چپک گئی ہو۔

ہم اپنے کمروں سے گلاسوں کے ٹکرانے کی آواز اور ریڈیو بجنے کی آواز سن پاتے تھے۔ میں سوچتی تھی کہ وہ سونے سے پہلے ان کے لیے ضرور ناچتی تھیں، کیوں کہ انھیں ناچنا نہیں آتا تھا لیکن اکثر نیند میں ڈوبنے سے پہلے مجھے ڈانس کی تال پر پیروں کی تھرکن سنائی دیتی تھی۔

مجھے مسٹر فری مین پر ترس آتا۔ ویسا ہی ترس جیسا کہ ارکنسا میں اپنے گھر کے پچھواڑے میں بنے سور کے باڑے میں پیدا ہونے والے سور کے ننھے ننھے بچوں پر آتا تھا۔ ہم ان سوروں کو پورے سال کھلا پلا کر سردیوں کی پہلی برف باری میں کاٹے جانے کے لیے موٹا کرتے، حالاں کہ ان پیارے ننھے کلبلاتے جانداروں کے لیے اکلوتی میں ہی تھی جو مغموم ہوتی تھی اور میں یہ بھی جانتی تھی کہ تازہ ساسیجز اور سوروں کے بھیجے کا مزہ بھی میں ہی لینے والی ہوں جو کہ ان کو میرے بغیر نہیں ملنے والا ہے۔

ہماری پڑھی ہوئی ان سنسنی خیز کہانیوں اور ہمارے طاقت ور تخیل یا شاید ہماری مختصر مگر بہت تیز رفتار زندگی کی یادوں کی وجہ سے بیلی اور مجھے پر برا اثر پڑا تھا۔ اس پر جسمانی اعتبار سے ، مجھ پہ ذہنی طور پر۔ وہ ہکلانے لگا تھا اور میں بھیانک سپنوں سے پسینہ پسینہ ہو جایا کرتی۔ اسے مسلسل سمجھایا جاتا کہ دھیرے دھیرے بولو اور پھر سے بولنا شروع کرو۔ میری ان خاص بری راتوں میں ممی اپنے ساتھ اس شاندار بستر پر مسٹر فری مین کے ساتھ سونے کے لیے لے جاتی۔ استحکام کی ضرورت کے تحت بچے جلد ہی عادتوں کی عادی مخلوق بن جاتے ہیں۔ تین بار ماں کے بستر پر سونے کے بعد مجھے لگنے لگا تھا کہ یہاں سونا کچھ عجیب نہیں ہے۔

پیار کرنے کی تمنا بچوں میں قائم رہتی ہے۔ نفرت زدہ کو بھی نفرت زدہ متصور کرنا اس تمنا کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے۔ ایک صبح ایک فوری بلاوے پر وہ بستر سے جلدی اٹھ گئی اور میں دوبارہ سو گئی تھی۔ لیکن ایک دباؤ اور اپنے دائیں پاؤں پر عجیب لمس سے میں جاگ گئی۔ وہ ہاتھ سے کہیں زیادہ ملائم تھا اور کپڑے کا لمس تو بالکل نہیں تھا۔ وہ جو بھی تھا ویسی ترغیب کا احساس مجھے ماں کے ساتھ اتنے برسوں سوتے ہوئے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ حرکت نہیں کر رہا تھا اور میں دم سادھے ہوئے تھی۔ میں نے مسٹر فری مین کو دیکھنے کے لیے اپنا سر ذرا سا بائیں طرف گھمایا کہ وہ اٹھ کر چلے گئے کہ نہیں؟ لیکن ان کی آنکھیں کھلی تھیں اور دونوں ہاتھ چادر کے اوپر تھے۔ مجھے پتہ تھا، جیسے کہ میں ہمیشہ سے جانتی ہوں کہ یہ ان کی وہ “چیز” تھی جو میرے پاؤں پر سٹی ہوئی تھی۔

انھوں نے کہا، “یوں ہی لیٹی رہو رٹی۔ میں تمھیں چوٹ نہیں پہنچاؤں گا۔ ” میں خوف زدہ نہیں تھی۔ شاید کچھ اندیشے میں گرفتار تھی مگر ڈری ہوئی تو بالکل نہیں تھی۔ البتہ یہ ضرور جانتی تھی کہ بہت سے لوگ “یہ” کیا کرتے ہیں اور وہ اپنا کام پورا کرنے کے لیے اس “چیز” کا استعمال کرتے تھے ، لیکن میں کبھی ایسے کسی شخص کو نہیں جانتی تھی جس نے اسے کسی اور کے ساتھ کیا ہو۔ مسٹر فری مین نے مجھے اپنے قریب کھینچ لیا اور اپنا ہاتھ میرے دونوں پاؤں کے درمیان ڈال دیا۔ انھوں نے چوٹ نہیں پہنچائی مگر ماں نے میرے دماغ میں یہ بات اچھی طرح ڈال رکھی تھی کہ “اپنی ٹانگیں ہمیشہ بھینج کر رکھنی ہیں اور کسی کو بھی اپنی ‘پاکٹ بک’ دیکھنے نہیں دینی ہے۔ “

“دیکھو، میں نے تمھیں چوٹ نہیں پہنچائی نا؟ ڈرو مت۔” انھوں نے کمبل پیچھے کی طرف پھینک دیا اور ان کی وہ “چیز” بھورے بھٹّے کی طرح سیدھی کھڑی تھی۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا “اسے محسوس کرو”۔ وہ تازہ کٹے ہوئے مرغ کے اندرونی حصے کی طرح لجلجی اور گیلی تھی۔

پھر انھوں نے مجھے اپنے سینے کے اوپر اپنی بائیں بازو سے کھینچ لیا۔ ان کا سیدھا ہاتھ اتنی تیزی سے چل رہا تھا اور ان کا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ مجھے ڈر لگا کہ وہ مرنے والے ہیں۔ بھوت پریت کی کہانیوں میں ہوتا ہے کہ کس طرح مرنے والے لوگ مرتے وقت جس چیز کو پکڑے ہوتے ہیں، اسے جکڑ لیتے ہیں۔ میں دہشت زدہ تھی کہ اگر مسٹر فری مین مجھے پکڑے جکڑے ہی مر گئے تو مجھے کیسے نجات ملے گی؟ کیا مجھے آزاد کرنے کے لیے لوگ ان کے بازو کو توڑ ڈالیں گے ؟

آخر کار وہ پرسکون ہو گئے۔ پھر ایک اچھی بات ہوئی، انھوں نے مجھے بہت ملائمت سے ہم آغوش کیا کہ میرا جی چاہنے لگا کہ وہ مجھے کبھی نہ چھوڑیں۔ مجھے اپنائیت سی محسوس ہوئی۔ جس طرح انھوں نے مجھے سمیٹا ہوا تھا، میں جانتی تھی کہ وہ مجھے کبھی نہیں جانے دیں گے یا کبھی میرے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ یہی میرے والد ہوں اور آخر کار ہم نے ایک دوسرے کو پالیا ہو۔ لیکن پھر وہ پلٹے اور مجھے نم جگہ چھوڑ کر اٹھ گئے۔ “مجھے تم سے بات کرنی ہے رٹی۔ ” انھوں نے اپنے نیکر کو اوپر کھینچا،جو ان کی ایڑیوں میں گرا ہوا تھا، اور باتھ روم میں گھس گئے۔ یہ درست تھا کہ بستر گیلا تھا، لیکن مجھے پتہ تھا کہ میں نے بستر کو گیلا کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے کہ مسٹر فری مین کے ساتھ ایسا ہو گیا ہو جب وہ مجھے جکڑے ہوئے تھے۔ وہ ایک گلاس پانی کے ساتھ لوٹے اور مجھ سے کچھ جھنجھلائی ہوئی آواز میں کہا، “اٹھو، تم نے بستر پر شو شو کر دیا ہے۔ “انھوں نے گیلے حصے پر پانی ڈالا، لیکن میرے والے گدے پر وہ نشان کئی صبحوں تک ویسا ہی نظر آتا رہا۔

جنوبی ڈسیلن میں رہنے کی وجہ سے میں جانتی تھی کہ کب بڑوں کے سامنے چپ رہنا ہے، لیکن میں ان سے پوچھنا چاہتی تھی کہ انھوں نے یہ کیوں کہا کہ میں نے بستر گیلا کیا ہے، جب کہ مجھے بخوبی معلوم تھا کہ انھیں خود اس بات کا یقین نہیں تھا۔ مگر انھوں نے سوچ لیا کہ میں بدتمیز ہوں تو اس کا مطلب، کیا وہ پھر کبھی مجھے پیار سے گلے نہیں لگائیں گے یا کبھی اس کا اظہار نہیں کریں گے کہ وہ میرے باپ ہیں ؟ میں نے انھیں اپنے تعلق سے شرمندہ کر دیا ہے۔

“رٹی! کیا تم بیلی سے پیار کرتی ہو؟” وہ بستر پر بیٹھ گئے اور میں اچھلتی کودتی ان کے پاس چلی آئی،”ہاں۔ “

وہ جھک کر اپنے موزے پہن رہے تھے ، ان کی کمر اتنی شاندار اور دوستانہ سی تھی کہ میری جی میں آیا کہ میں اس پر اپنا سر ٹکا دوں۔

“اگر تم نے کسی سے بھی کہا کہ ہم نے کیا کیا ہے، تو مجھے بیلی کو مار ڈالنا پڑے گا۔ “

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3