مجھے پتہ ہے، قید میں چڑیا کیوں گاتی ہے


آٹھ برس کی عمر میں زنا بالجبر سے چھلنی بچپن کے ساتھ بڑی ہوتی ہوئی مایا اینجلو نے کئی مقام دیکھے۔ کال گرل، بس کنڈیکٹر اور پھر ادیب، یونیورسٹی کی سطح پر تدریس، ملک و بیرون ملک امریکا کی نمائندگی، اخبارات و جرائد کی ادارت اور ان گنت اعزازات سے نوازی جانے والی اس امریکی ادیبہ، شاعرہ، رقاصہ، ڈرامہ نگار اور صحافی نے فروری 2014 میں وفات پائی۔

 I Know Why the Caged Bird Sings (1969)ان کی خود نوشت ہے۔ اس میں ان کی زندگی کے پہلے سولہ برسوں کی روداد رقم ہے۔ اس کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کی شہرت کا آغاز بھی ہوا۔ اس کے بعد ان کی چھ مزید خود نوشتیں، شاعری کے پانچ مجموعے اور کئی ڈرامے شائع ہوئے جن میں انھوں نے اداکاری بھی کی۔

“Wouldn’t Take Nothing for My Journey Now” ان کے مضامین کا مجموعہ بھی کافی زیر بحث رہا۔ یہ 1993 میں شائع ہوا تھا۔

مایا اینجلو کی پہلی خود نوشت کی اشاعت کے بعد امریکن زندگی کا دھندلکا چھٹا اور بچوں کے استحصال پر کھل کر مکالمہ قائم ہوا۔ 1969 میں مطبوعہ مایا اینجلو اینجلو کی اس خود نوشت کا یہ پہلا حصہ 36 ابواب میں منقسم ہے۔ سادگی اور سچائی سے لکھی گئی اس خود نوشت میں سیاہ فام ہونے کا المیہ، اس اداسی سے جنم لینے والی توانائی اور ایک مطلقہ کے بچے پیدا ہونے کی مجبوری؛ سب کچھ اس خود نوشت میں نمایاں ہے۔

اپنے والدین کے طلاق کے بعد مارگریٹ (رٹی) اور اس کے بھائی بیلی کو کیلی فورنیا کے جنوبی ارکنسا صوبہ میں اپنی نانی کے پاس رہنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ وہاں نانی کے سخت نظم و نسق کے علاوہ انھیں مذہب اور منظم سیاہ فام طبقے کی دشوار زندگی کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ اپنی ماں کے ساتھ رہنے کا انتظار کرتے ہوئے میں جب رٹی اور بیلی اپنی ماں کے پاس سینٹ لوئس پہنچتے ہیں تو وہ اپنے نئے مرد دوست مسٹر فری مین کے ساتھ رہ رہی ہوتی ہے۔ اس نئے اجنبی گھر میں ماں کے پیار کے باوجود ان بچوں نے کیا کچھ برداشت کیا، اس کی ایک مثال گیارہویں اور بارہویں باب میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

میری ماں کے عاشق ہمارے ساتھ رہا کرتے تھے، تب میں اس متعلق ٹھیک سے نہیں جانتی تھی۔ وہ بھی جنوب کے تھے۔ قوی الجثہ اور تھل تھل۔ جب بھی وہ بنیان میں ٹہلا کرتے، مجھے ان کا سینہ دیکھ کر شرمندگی ہوتی، وہ عورتوں کی سپاٹ چھاتیوں جیسا تھا۔

اگر میری ماں اتنی خوب صورت عورت نہ بھی ہوتی؛ گوری، سیدھے بالوں والی، تب بھی وہ اسے پا کر خوش قسمت رہے ہیں، یہ وہ خوب جانتے تھے۔ وہ تعلیم یافتہ تھیں اور ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ آخر کار وہ سینٹ لوئس کی پیدائش نہیں تھیں کیا؟ پھر وہ خوش مزاج بھی تھیں، ہر دم ہنستی رہتیں اور لطیفے سناتیں۔ وہ ممنون تھے۔ میرے خیال میں وہ عمر میں ماں سے کافی بڑے ہوں گے ورنہ انھیں احساس کمتری کیوں ہوتا جو کہ ایک ادھیڑآدمی کو خود سے جوان عورت سے شادی کرنے سے ہوتا ہے۔ وہ اس کی ہر نقل و حرکت پر نگاہ جمائے رکھتے، جب وہ کمرے سے چلی جاتیں تو ان کی آنکھیں اسے بے دلی سے جاتی دیکھتیں۔

میں نے طے کر لیا تھا کہ سینٹ لوئس میرا اپنا ملک نہیں ہے۔ میں ٹوائلٹ میں تیز رفتار سے فلش چلنے کی آواز یا ڈبہ بند کھانوں کی اور دروازوں کی گھنٹیوں ، کاروں، ریلوں اور بسوں کے شور کی عادی نہیں ہو سکی تھی جو کہ دیواروں کو پھوڑتا ہوا یا دروازوں سے رینگتا ہوا اندر آتا تھا۔ میرے خیال میں، میں صرف چند ہی ہفتے سینٹ لوئس میں رہی ہوں گی۔ جوں ہی مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے گھر نہیں ہوں یا یہ سب میرے نہیں ہیں؛ میں بزدلوں کی طرح رابن ہڈ کے جنگلوں اور ایلی اوپ کی وادیوں میں جا سکتی تھی جہاں حقیقت، التباس میں بدل جاتی تھی، حتیٰ کہ وہ ہر دن بدلتی رہتی تھی۔ میں یہ زرہ بکتر ہمیشہ ساتھ رکھتی تھی، بلکہ اسے اسٹاپ کی طرح استعمال کرتی تھی کہ میں یہاں رہنے نہیں آئی ہوں۔

میری ماں ہمیشہ سہولیات دینے کی اہل تھی۔ اس کا یہ مطلب بھی لگا سکتے ہیں کہ کسی کو رام کر کے ہمیں سب کچھ مہیا کرانا ہی کیوں نہ ہو۔ حالاں کہ وہ نرس تھیں، لیکن جب تک ہم ان کے ساتھ رہے، انھوں نے اپنے پیشے سے متعلق کوئی کام نہیں کیا۔ مسٹر فری مین ضروریات کی تکمیل کے لیے لائے گئے تھے اور ہماری ماں نے جوا گھروں میں پوکر کھیل کر کافی پیسہ کما لیا تھا۔ سیدھی سادی آٹھ سے پانچ کی دنیا اسے اپنی جانب راغب کرنے میں ناکام تھی۔ یہ اس کے بیس سال بعد کی بات ہے، جب میں نے انھیں پہلی بار نرس کی یونیفارم میں دیکھا تھا۔

مسٹر فری مین جنوبی پیسنک یارڈ کے فورمین تھے اور کبھی کبھی دیر سے گھر لوٹا کرتے تھے، ماں کے چلے جانے کے بعد وہ اسٹور سے اپنا ڈنر اٹھاتے، جسے ماں نے دھیان سے ڈھک کر رکھا ہوتا تھا، ہمارے لیے اس صریح تنبیہ کے ساتھ کہ تمھیں ان سب کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ چپ چاپ کچن میں کھانا کھاتے جب کہ میں اور بیلی الگ الگ اور بالکل حریصوں کی طرح اپنی اپنی اسٹریٹ اینڈ اسمتھ نامی گھٹیا قسم کی کتابیں پڑھا کرتے۔ اب جب کہ ہم اپنا پیسہ خرچ ہی کرتے تھے تو ایسی با تصویر پیپر بیک کتابیں خریدتے جن میں بھڑکیلی تصویریں ہوتیں۔ جب ماں گھر پر نہیں ہوتیں تو ہمیں ایک سہولت بخش بندوبست کرنا ہوتا تھا۔ ہمیں ہوم ورک ختم کر کے، کھانا کھا کر، پلیٹیں دھونی ہوتی تھیں تاکہ ہم “دی لون رینجر”، “کرائم بسٹرس”، یا “دی شیڈو” پڑھ یا سن سکیں۔

مسٹر فری مین شرافت کے ساتھ اس طرح اندر داخل ہوتے جیسے ایک بڑا بھورا بھالو۔ کبھی کبھار وہ ہم سے بات بھی کرتے۔ وہ بس ماں کا انتظار کرتے اور خود کو مکمل طور پر ان کے انتظار کی نذر کر دیتے۔ وہ اخبار کبھی نہیں پڑھتے تھے اور نہ ریڈیو کی میوزک پر اپنے پاؤں تھرکاتے تھے۔ وہ صرف انتظار کرتے تھے۔

اگر وہ ہمارے بستروں میں گھسنے سے پہلے لوٹ آتیں تو ہم اس شخص کو زندہ پاتے۔ وہ بڑی کرسی سے ایسے اٹھتے جیسے کوئی آدمی نیند سے اٹھتا ہے، مسکراتے۔ تب مجھے یاد آتا کہ کچھ ہی سکینڈ پہلے مجھے کار کے دروازے بند ہونے کی آواز سنائی دی تھی، پھر ماں کے قدموں کی آہٹ کا اشارہ۔ جب ماں کی چابی دروازے میں گھومتی، مسٹر فری مین عادتاً اپنا وہی سوال پہلے ہی پوچھ چکے ہوتے تھے، “اے بےبی، وقت اچھا گذرا؟”

اس کا یہ سوال ہوا میں معلق رہ جاتا، تب تک ماں لپک کر ان کے ہونٹوں کا بوسہ لے رہی ہوتی تھی۔ پھر وہ بیلی اور میری طرف اپنی لپ اسٹک لگے بوسوں کے ساتھ پلٹتی، “تم نے ابھی تک اپنا ہوم ورک نہیں کیا؟ ” اگر ہم پڑھ رہے ہوتے تو کہتیں، “چلو اپنے کمرے میں جاؤ۔ اپنا کام پورا کرو… اپنی دعائیں کرو اور سو جاؤ۔ “

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3