مجھے پتہ ہے، قید میں چڑیا کیوں گاتی ہے


ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ؟ ظاہر ہے ان کا مطلب میرے بستر پر “شو شو” کر دینے سے تو نہیں ہے۔ میں سمجھی نہیں، نہ ہی میری ہمت ہوئی ان سے پوچھنے کی۔ اس کا مطلب ضرور مجھے گلے لگانے سے ہو گا۔ لیکن میں بیلی سے پوچھ بھی نہیں سکتی تھی، کیوں کہ اسے وہ سب کچھ بتانا پڑتا جو ہم نے کیا تھا۔ وہ بیلی کو مار سکتے ہیں، یہ تصور ہی مجھے خوف زدہ کر گیا۔ ان کے کمرے سے جانے کے بعد میں نے ماں کو یہ بتانے کی سوچی کہ میں نے بستر گیلا نہیں کیا تھا لیکن اگر انھوں نے پوچھا کہ کیا ہوا تھا تو مجھے مسٹر فری مین کے سینے سے لگانے والی بات بتانی پڑے گی اور اس سے بات نہیں بنے گی۔

اب یہی وہ پرانا شش و پنج تھا جسے میں نے ہمیشہ جیا تھا۔ یہاں بڑوں کی فوج تھی جن کی حرکتیں اور ارادے میں سمجھ نہیں پاتی تھی اور جنھوں نے میری باتیں سمجھنے کی کوئی زحمت تک نہیں اٹھائی۔ میرے مسٹر فری مین کو ناپسند کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا، شاید میں ہی انھیں سمجھنے میں ناکام رہی۔ کئی ہفتوں بعد تک انھوں نے مجھ سے کچھ نہیں کہا، صرف ان کے اجڈ سے آداب کے جوابوں کے علاوہ، جو انھوں نے میری طرف دیکھے بغیر دیے تھے۔ وہ پہلا راز تھا جسے میں نے بیلی سے چھپایا تھا اور کبھی کبھی میں نے سوچا کہ وہ اسے میرے چہرے پر پڑھ لے گا لیکن اسے کچھ پتہ نہیں چلا۔

میں مسٹر فری مین اور ان کی بڑی بڑی بانہوں کے حصار کے بغیر خود کو تنہا محسوس کرنے لگی تھی۔ اس سے پہلے بیلی، کھانا، ماں، دوکان، مطالعہ اور انکل بلی ہی میری دنیا ہوا کرتے تھے۔ اب پہلی بار میں نے اس میں جسمانی لمس کو شامل کر لیا تھا۔ میں نے مسٹر فری مین کے یارڈ سے لوٹ کر آنے کا انتظار کرنا شروع کر دیا تھا لیکن اب وہ آتے تو میری طرف توجہ ہی نہیں دیتے تھے۔ حالاں کہ میں ڈھیر ساری اپنائیت بھر کر انھیں “گڈ ایوننگ مسٹر فری مین” ضرور کہا کرتی۔

ایک شام جب میں اپنا جی کہیں نہیں لگا پا رہی تھی تو میں ان کے پاس جا کر ان کی گود میں چڑھ کر بیٹھ گئی۔ وہ پہلے کی طرح ماں کا انتظار کر رہے تھے۔ بیلی “دی شیڈو” سن رہا تھا اور اسے میری ضرورت نہیں تھی۔ پہلے تو مسٹر فری مین مجھے بغیر پکڑے یا بغیر کچھ کیے ساکت بیٹھے رہے، تبھی مجھے اپنی رانوں کے درمیان ایک ملائم گوشت کے ٹکڑے کی حرکت کا احساس ہوا۔ وہ مجھ سے ہولے ہولے ٹکرا رہا تھا اور سخت ہوتا جا رہا تھا۔ تب انھوں نے مجھے اپنے سینے پر کھینچ لیا۔ ان سے کوئلے کے برادے اور گریس کی مہک آ رہی تھی۔ وہ اتنے قریب تھے کہ میں نے اپنا سر ان کی شرٹ میں چھپا لیا تھا اور میں ان کے دل کی دھڑکن سن رہی تھی۔ میں اس کی اچھال کو اپنے سینے پر محسوس کر رہی تھی۔ انھوں نے کہا،”ٹھیک سے بیٹھو، کلبلاؤ مت۔ ” لیکن پورے وقت وہی تو مجھے اپنی گود میں دھکا دیتے رہے تھے۔ پھر اچانک وہ کھڑے ہو گئے اور میں فرش پر پھسل گئی۔ وہ باتھ روم کی طرف لپکے۔

انھوں نے مہینوں مجھ سے بول چال بند کر دی۔ میں دل شکستہ تھی اور ایک مدت کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ خود کو تنہا محسوس کر رہی تھی۔ لیکن پھر میں ان کے بارے میں بھول چکی تھی، حتیٰ کہ ان کا مجھے گلے لگانے والا وہ خوش گوار احساس بھی بچپن کی آنکھوں پر بندھی پٹی کے پیچھے کے ان فطری اندھیروں میں پگھل کر کھو گیا تھا۔ میں پہلے سے زیادہ پڑھنے لگی اور اپنی روح کی گہرائیوں سے یہ دعا کرتی کہ کاش میں لڑکا بن کر پیدا ہوئی ہوتی۔ ہوریشیو ایلگر دنیا کے معروف ادیب تھے۔ ان کے ہیرو ہمیشہ اچھے ہوتے تھے، ہمیشہ جیتا کرتے تھے اور ہمیشہ لڑکے ہی ہوتے۔ میں خود میں پہلی دو خوبیاں تو پروان چڑھا سکتی تھی لیکن لڑکا بننا ناممکن نہیں تو یقین طور پر آسان نہیں تھا۔

“دی سنڈے فنٹیز” مجھے متاثر کرتے تھے، حالاں کہ مجھے طاقت ور ہیرو پسند تھے جو آخر میں ہمیشہ فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوتے تھے۔ میں خود کو “ٹائنی ٹم” سے جوڑا کرتی۔ باتھ روم میں، جہاں اخبار لے جایا کرتی تھی، وہاں اس کے غیر صفحات پلٹنا اور دیکھنا مشینی انداز میں ہوتا تھا کہ میں جان سکوں کہ آخر کار وہ کیسے اپنے نئے مخالف سے جیت پایا۔ میں ہر اتوار، اس خوشی میں رویا کرتی کہ وہ بدمعاشوں کے چنگل سے بچ نکلا اور اپنی ممکنہ شکست کی حدود سے پھر باہر آ کھڑا ہوا۔ ہمیشہ کی طرح پیارا اور خلیق “دی کیت زین جیمر کڈس” پر لطف تھے ، کیوں کہ وہ بالغوں کو احمق ثابت کر دیا کرتے تھے لیکن میری دلچسپی کے خلاف وہ کچھ زیادہ ہی ہوشیار اور چالاک تھے۔

جب سینٹ لوئس میں بہار آئی تو میں نے اپنا پہلا لائبریری کارڈ بنوایا، اور تب سے میں اور بیلی الگ الگ بڑے ہونے لگے تھے۔ میں اپنے زیادہ تر سنیچر، لائبریری میں (بغیر کسی مداخلت کے ) مفلس، بوٹ پالش کرنے والے لڑکوں کی ندیا میں سانس لیتے ہوئے گذارے تھے جو کہ اپنی نیکی اور مسلسل محنت کے ساتھ امیر، بے حد امیر بنتے ہیں اور چھٹی کے دن غریبوں کو ڈلیاں بھر بھر کے سامان تقسیم کرتے ہیں۔ ایک چھوٹی شہزادی جسے غلط فہمی سے نوکرانی سمجھ لیا گیا تھا، گم شدہ بچے جنھیں لاوارث سمجھ لیا گیا تھا، میرے لیے اپنے گھر، اپنی ماں، اسکول اور مسٹر فری مین سے زیادہ حقیقی ہو چلے تھے۔

Maya Angelou, portrait, Boston, for Random House (ca 1998)

ان مہینوں کے دوران، ہم اپنے نانا نانی اور ماماؤں سے ملے (ہماری اکلوتی خالہ کیلی فورنیا میں اپنا مستقبل بنانے چلی گئی تھیں) لیکن وہ زیادہ تر ایک ہی سوال پوچھتے ، “تم اچھے بچے بن رہے ہو نا؟” جس کے لیے ہمارے پاس ایک ہی جواب تھا، حتیٰ کہ بیلی بھی کبھی “نہ” کہنے کی جرات نہ کر سکا۔

اس المیہ کے بعد جو کچھ رٹی کی زندگی میں وقوع پذیر ہوتا ہے، اینجلو بہت سچائی کے ساتھ اسے بیان کرتی ہیں۔ کتاب میں سیاہ امریکیوں کے خلاف نسل پرستی کا سوال بھی بار بار اٹھتا ہے۔ ایک فراخ دل گوری خاتون اینجلو کا نام “میری” رکھنا چاہتی ہے۔ ماں کے امیر ہونے کے باوجود گورے پڑوسی بچے اس کے کالے ہونے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اینجلو اپنی خود نوشت میں واضح طور پر کہتی ہیں، “اپنی کچی عمر میں ایک کالی بچی کو قدرت کے تین عذابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؛ مردوں کی آگ، گوروں کی بے اعتنائی اور نفرت اور سیاہ فام ہونے کی طاقت سے محروم صورت حال”۔

ان تینوں حالتوں کو بخوبی ابھارتے ہوئے مایا اینجلو کی آنے والی زندگی کی اس عجیب شروعات کو پڑھنا ایسا تجربہ ہے جو ہمیں اس کی ہمت اور تحمل کے بارے میں حیرانی اور اداسی سے بھی ہم کنار کرتا ہے۔

اس کتاب کا نام پال ڈنبار (Paul Dunbar) کی نظم “Sympathy” سے ماخوذ ہے۔

I know why the caged bird sings, ah me,

When his wings is bruised and his bosom sore,

When the beats his bars and would be free,

It is not a cord of joy or glee


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3