عہد یوسفی تمام ہوا: مشتاق احمد یوسفی انتقال کر گئے


”آب گم” میں شامل مضمون ”اسکول ماسٹر کا خواب” ایک ایسا ہی طنزیہ مضمون ہے جس میں انہوں نے سماج کی ان سچائیوں کو مختلف کرداروں کے ذریعے بے نقاب کیا ہے اور قارئین کو یہ سوچنے کے لیے مجبو رکیا ہے کہ سماج میں بے دھڑک جاری اس رشوت خوری کے لیے کون ذمہ دار ہے ہمارا معاشرتی نظام یا انسانی ضرورت۔ جس کے متعلق وہ مکالماتی انداز میں لکھتے ہیں :

”ماسٹر نجم الدین برسوں سے چتھڑے لٹکائے ظالم سماج کو کوستے پھرتے ہیں۔ انہیں ساڑھے چارسو روپے کھلائے، جب جا کے بھانجے کے میٹرک کے نمبر بڑھے۔ اور رحیم بخش کو چوان سے مسکین کون ہوگا؟ ظلم ظالم اور مظلوم دونوں کو خراب کرتا ہے۔ ظلم کا پہیہ جب اپنا چکر پورا کر لیتاہے اورمظلوم کی باری آتی ہے تو وہ بھی وہی کچھ کر تاجو اس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اژدھا سالم نگلتا ہے۔ شارک دانتوں سے خون کر کے کھاتی ہے۔ شیر ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اچھی طرح چبا چبا کر کھاتاہے۔ بلی چھپکلی، مکڑی اور مچھر حسب مقدور خون کی چسکی لگاتے ہیں۔ بھائی میرے بخشتا کوئی نہیں۔ وہ یہاں تک پہنچے تھے کہ معاً انہیں انکم ٹیکس کے ڈبل بہی کھاتے یاد آگئے۔ اور وہ بے ساختہ مسکرادیے۔ بھائی میرے بخشتا کوئی نہیں سب ایک دوسرے کے رزق ہیں۔ بڑے جتن سے ایک دوسرے کو چیٹرتے پھاڑتے ہیں تب نظر آتی ہے اک لقمۂ تر کی صورت۔ ” 2

مشتاق احمد یوسفی کی ان تحریروں نے معاشرے کی ان سچائیوں کو اجاگر کر دیا جو ہمارے معاشرے کو کسی نہ کسی طرح سے آلودہ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے موضوعات کے لیے ہمیشہ انسانی زندگی کے روز مرہ کیمعمولات اوران سے متعلق چیزوں سے کام لیا ہے۔ ان کی تحریروں میں پطرس بخاری کی طرح کتے کا اور رشید

احمد صدیقی کی طرح چارپائی کا بھی ذکر ہے مگر یہ دونوں مضامین پطرس بخاری کے کتے اور رشید احمد صدیقی کی چارپائی سے کچھ مماثلت رکھتے ہوئے بھی ان سے بہت مختلف ہیں۔ پطرس بخاری اپنے مضمون کتے میں کتوں سے ڈرتے ہیں اس کے برعکس مشتاق احمد یوسفی نے کتے کو پالا ہے اوراسے بہت عزیز رکھتے ہیں۔ اسی طرح جہاں رشید احمد صدیقی کی چارپائی میں بیسویں صدی کے ابتدائی دو ر کے سماجی سیاسی اور تہذیبی منظر نامے دکھائی دیتے ہیں اس کے برعکس مشتاق احمدیوسفی کی چارپائی پر بیسویں صدی کے نصف میں بدلتے ہوئے کلچر کی عکاسی کی گئی ہے۔ چارپائی اورکلچر، ان کا یہ مزاحیہ اقتباس ملاحظہ کریں :

”یہ وہی چارپائی ہے جس کی سیڑھی بنا کر سگھڑ بیویاں مکڑی کے جالے اورچلبلے لڑکے چڑیوں کے گھونسلے اتارتے ہیں۔ اسی چارپائی کو وقت ضرورت پیٹیوں سے باندھ کر اسٹریچر بنالیتے ہیں۔ ۔ ۔ اسی طرح جب مریض کھاٹ سے لگ جائے تو تیمار دار مؤخرالذکر کے وسط میں بڑا سا سوراخ کرکے اول الذکر کی مشکل آسان کر دیتے ہیں اور جب ساون میں کالی گھٹائیں اٹھتی ہیں توادوان کھول کر لڑکیاں دروازے کی چوکھٹ اور والدین چارپائیوں میں جھولتے ہیں۔

اسی پر نومولود بچے غاؤں غاؤں کرتے اورچندھیاتی ہوئی آنکھیں کھول کر اپنے والدین کو دیکھتے ہیں اور روتے ہیں اور اسی پر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیاروں کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔ ”3

اس مضمون میں انہوں نے جہاں چارپائی سے لیے جانے والے مختلف کاموں کا ذکر کیا ہے وہیں اس مضمون میں انہوں نے چارپائی کی مختلف قسمیں اوران کے نام بھی گنوائیں ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کے اس مضمون کو پڑھ کر شاید ہی کوئی شخص نہ ہنسے ورنہ اس کے ہر ہر جملے پر ہنسی کا فوارہ چھوٹنا تو لازمی ہے۔ ان کی مزاح نگاری کی یہ سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ وہ اپنی ظریفانہ تحریروں میں بڑی معصومیت اورسنجیدگی کے ساتھ اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔

انہوں نے چارپائی کے استعارے میں جس طرح اس کی تہذیبی خصوصیت کا ذکر کیاہے اسی طرح بدلتے ہوئے سماجی دھارے کی بات کہی ہے۔ اس کے متعلق انہوں نے اشارے اشاریمیں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ مضمون اس تہذیب کا قصیدہ نہیں بلکہ ”مرثیہ ” ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنی تمام تحریروں کو پر لطف اور دلچسپ بنانے کے لیے ہر طرح کے حربے کو استعمال کیا۔ ان کی تحریروں میں تاریخ، فلسفہ، تلمیحات، کردار نگاری، منظر نگاری، مکالمہ نگاری، اشعار کے برمحل استعمال کے ساتھ ساتھ پیروڈی کی بھی مختلف قسمیں دیکھنے کو ملتی

ہیں۔ خاص طور سے انہوں نے جوا لفاظ اور اشعار کی پیروڈی کی ہے وہ تو قابل داد ہے۔ ”آب گم” کا یہ پر لطف اقتباس دیکھئے ہیں جس میں مشتاق احمد یوسفی نے اپنی فن کارانہ صلاحیت اور تراشیدہ الفاظ کے ذریعے تحریف نگاری کی ایک عمدہ مثال قائم کر دی :

”تیسرے بچے کے بعد ان کے شوہرانہ توجہات میں فرق آگیا تھا۔ طبع آزاد نے ایک بیوی پر توکل نہ کیا۔ مدتوں زنان زودیاب کی خوش بستری میں نروان ڈھونڈھا کیے۔ جب تک بد راہ ہونے کی استطاعت رہی تنگنائے نکاح سے نکل نکل کر شب خون مارتے رہے اور بے زبان بیوی یہ سمجھ کر کے سب کچھ انگیز کرتی رہی کہ کچھ اور چاہیے وسعت میری میاں کے لیے۔ ”4

اس اقتباس کو دیکھ کر ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ مشتاق احمد یوسفی نے الفاظ کی تراکیب میں ہلکی سی تبدیلی کر کے کس طرح جملوں کو پُر مزاح بنادیا۔ یہ پیروڈی اپنے اند رجہاں مزاحیہ کیفیت کی روانی لیے ہوئے ہے وہیں اس میں مشتاق احمد یوسفی نے ایسے مردوں پر زوردار طنز کی چوٹ کی ہے جو اپنی آزاد اور تعیش پسندی کے باعث اپنے گھروں کو تباہ وبرباد کرتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کے اسی گہرے سماجی شعور کو دیکھتے ہوئے مجنوں گورکھپوری نے اپنے ایک مضمون میں ان کے متعلق لکھاہے:

”یوسفی کی تحریروں کی ایک ممتاز خصوصیت یہ بھی ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کا تعلق زندگی کے عام حالات وواقعات سے ہوتاہے، وہ کبھی سبک یا سستی نہیں ہو پاتیں۔ لکھنے والے بشرے کی طرح ان کی تحریریں بھی گھمبیر ہوتی ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ان کا خالق زندگی کی اصلیت اوراس کے راز کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے۔ ”5

مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کے مطالعے سے یہ پتہ چلتاہے کہ ان کی تحریروں میں ماضی کی حسین یادوں کے ساتھ سماجی، سیاسی، تہذیبی اور ادبی کارفرمائیاں بھی موجود ہیں جسے انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت اور فن کاری سے اردو زبان کے طنزیہ ومزاحیہ ادب کا حصہ بنا دیا۔ ان کی ان ادبی کاوشوں کو مقبول بنانے میں ان کے رنگا رنگ موضوعات کے ساتھ ان کے دلکش اندازبیان شوخ اورشگفتہ طرز ادا کا بھی ہاتھ ہے۔ اس بنا پر یہ کہا جاسکتاہے کہ مشتاق احمد یوسفی کی طنزومزاح نگاری میں ادبی لطافت کی چاشنی کے ساتھ معیاری رنگ وآہنگ بھی شامل ہے۔

حواشی
1۔ زرگزشت، مشتاق احمد یوسفی، حیدرآباد، 1989، ص150
2۔ صاحب طرز ظرافت نگار مشتاق احمد یوسفی ایک مطالعہ، ڈاکٹر مظہر احمد، کتابی دنیادہلی، 2013۔ ص330
3۔ آب گم، مشتاق احمد یوسفی، کتاب والا دہلی، 1993۔ ص109

4۔ چراغ تلے، مشتاق احمد یوسفی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 2010، ص 159
5۔ آب گم، مشتاق احمد یوسفی، کتاب والا دہلی، 1993۔ ص134
6۔ اردو کے اہم مزاح نگار، اسداللہ نیاز، کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور، پاکستان، 2012۔ ص162
بشکریہ اردو ریسرچ جرنل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2