غلام رسول مہر بنام عاشق حسین بٹالوی


Ghulam-Rasool-Mehr

آپ کے مقالات میرے پاس نہیں آئے۔ آتے تو بقدر استطاعت خدمت گزاری میں کوتاہی نہ ہوتی اور جس حد تک مجھے علم ہے، چھپے بھی نہیں۔ غالباً کاغذ کی ہو شربا گرانی عنان گیر ہوئی۔ یقیناً آپ دور بیٹھے ہوئے اس گرانی کا تصور نہیں فرما سکتے۔

میں مدت سے سوچ رہا تھا کہ کچھ مدت کے لیے لندن آؤں۔ آپ نے کتب خانوں کا ذکر کیا تو بے تاب ہو گیا۔ یہ دولت اور کہاں سے ملے گی۔ سوچ رہا ہوں اگر یہاں کے حالات بے طرح دامن گیر نہ ہوئے تو ممکن ہے گرمیوں کا پورا موسم وہاں اور یورپ کے بعض دوسرے مقامات پر بسر کروں۔ اوائل اپریل تک نکلنے کا قصد ہے۔ نہیں کہہ سکتا کہ پورا ہو یا نہ ہو۔ زیادہ تر خیال یہ ہے کہ صحت خراب ہے۔ شاید اس سرزمین میں مفید مشورے مل سکیں۔ یہاں تو سوائے حکیم محمد حسن قرشی کے اور کوئی قابل اعتماد مامن نہیں۔ ایک ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب ہیں۔

آپ نے جو فرمایا ہے اس کو پڑھ کر ایک حدیث یاد آ گئی۔ روایت ہے کہ ایک اعرابی حضرت رسول اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں آیا اور حضور کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا۔ اس نے یکے بعد دیگرے اسلام، ایمان اور احسان کے متعلق سوالات کیے۔ حضور نے جوابات ارشاد فرمائے۔ آخر میں اعرابی نے قیامت کے متعلق پوچھا۔ حضور نے فرمایا ’مالمسؤل علم من السائل‘ مسؤل، سائل سے بہتر نہیں جانتا۔ اعرابی چلا گیا تو حضور نے فرمایا کہ یہ جبریل تھے جو دین کی باتیں سکھانے کے لیے آئے تھے۔

میرا جواب بھی یہی ہے کہ مسؤل سائل سے بہتر نہیں جانتا۔ آپ تمام امور سے آگاہ اور تمام حقائق سے واقف ہیں۔ میرا کوئی جواب آپ کے براہ راست علم میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ نیز اس قسم کی باتیں باہم گفتگو اور مذاکرات سے ہو سکتی ہیں۔ مکاتیب کا دائرہ کتنا ہی وسیع ہو جائے ہر معاملے میں گنجائش گفتار باقی رہتی ہے۔ بہرحال اجمالاً میرا نقطہ نگاہ سن لیجیے۔

1۔ راج گوپال اچاریہ کا فارمولا قبول نہ کرنے کے بوجوہ بالکل واضح تھے مثلاً:

(الف) اس زمانے میں پنجاب و بنگال کو تقسیم سے بچانے کی امید تھی اگرچہ میرا پختہ عقیدہ ہے کہ ہمارے دوائر میں تقسیم کی خوفناک منزلوں کا صحیح احساس کسی میں بھی موجود نہ تھا۔

(ب) 1943 ءمیں اکثر مسلمان تقسیم پنجاب و بنگال پر قطعاً راضی نہ ہو سکتے تھے اور اس فارمولے کو مسلمانوں کی اکثریت رد کر دیتی تھی۔ اغلب ہے یہ فارمولا بنانے والے کی غرض یہ بھی ہو کہ مسلمان دو ٹکڑوں میں بٹ جائیں اور اصل مطالبہ تقسیم کی کھٹائی میں پڑ جائے گا۔

2۔ یہ خیال صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ تقسیم ملک انگریزوں سے کرانا منظور تھا۔ اس لیے کہ اگر کانگرس و لیگ میں باہم اتفاق ہو جاتا تو یہ فارمولا انگریزوں سے منظور کرایا جا سکتا تھا اور ہندو مہاسبھا کی مخالفت کانگرس کے مقابلے میں کارگر نہ ہو سکتی۔

3۔ پنجاب و بنگال کی تقسیم پر راضی ہونے کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ اور اس سلسلے میں قیاسات سے کام لئے بغیر چارہ نہیں۔ مونٹ بیٹن نے گورنر جنرل بنتے ہی وزارتی سکیم فریقین (کانگریس و لیگ) کے روبرو پیش کی تھی۔ اس پر اتفاق نہ ہو سکا تو جو متبادل سکیں سامنے آئی، وہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر مبنی تھا۔ اور مونٹ بیٹن جب اس سکیم کو لے کر ولایت گیا تھا تو قیاس یہ ہے کہ فریقین سے منظوری لے گیا تھا۔ کانگریس نے اگر اس کی منظوری دے دی تو جائے تعجب نہیں، لیکن لیگ نے کیوں منظوری دی؟ اس کا واضح جواب سامنے نہیں۔ یہ بات قیاس میں نہیں آتی کہ مونٹ بیٹن فریقین سے منظوری کے دستخط لئے بغیر اس سکیم کو بغرض تصدیق ولایت لے گیا تھا۔ اگر لیگ اسے منظور نہ کرتی اور ٹھکرا دیتی تو معاملہ تعطل میں پڑ جاتا اور سکیم منظور ہو کر آئی تو اسے بلا تکلف منظور کر لیا۔ اس امر کا ثبوت ہے کہ پہلے منظوری دی جا چکی تھی۔ یہاں تک کہ عام مسلمان سے استصواب بھی نہ کیا گیا۔ بلکہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو میرے علم کے مطابق برابر یقین دلایا گیا کہ کہ تقسیم کی نوبت نہیں آئے گی۔ میرے نزدیک یہ پوری کارروائی افسوسناک ہے اور اس کی کوئی واضح علت اب تک معلوم نہیں ہو سکی۔

ایک عذر پیش کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ لیگ کو یقین تھا کہ کانگریس بنگال و پنجاب کی تقسیم نہ مانے گی اور کانگریس کو یقین تھا کہ مسلمان ضرور اس تقسیم کی مخالفت کریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ عذر بارد ہے اور قوموں کی قسمت کے فیصلے خوش فہمیوں یا اوہام کی بنا پر نہیں کیے جاتے۔

عارضی تقسیم کی حد لگ چکنے کے بعد لیگ کے لیڈروں خصوصاً پنجابی لیڈروں نے جو بیانات پے در پے دیے یعنی یہ کہ پاک پنجاب کی حدیں ستلج سے بھی آگے نکل جائیں گی۔ (چودھری محمد حسن کانگریسی کا بیان) یہ بیانات یا تو پرلے درجے کی نالائقی اور سیاست کی نا فہمی کی دلیل تھے یا سمجھنا چاہیے کہ دیانت کیشی کے خلاف تھے۔ ان کی وجہ سے سادہ لوح عوام غلط فہمیوں میں مبتلا ہوئے۔ خود میرے جالندھری عزیز مدت تک کہتے رہے کہ ہم پاکستان میں آئیں گے حالانکہ میں نے نقشہ بنا کر ’انقلاب‘ میں چھاپ دیا تھا اور صاف لکھ دیا تھا کہ گورداسپور کے بچنے کا بھی بظاہر کوئی امکان نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہنگامہ کشمکش کی سرگرمیوں میں جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں اور ہر شخص کی ذہنیت ایسی ہو جاتی ہے کہ مخالف کو چین نہ لینے دیں۔ عقل و فہم سے کم تر کام لیا جاتا ہے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ سیاسی فیصلوں میں کاروبار کی باگ ڈور جذبات کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔ وہاں تو بنئے کی طرح ہر شے کو تول توڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ نفع و نقصان کا کیا حال ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں موازنہ نفع و ضرر کا پہلو برابر کمزور رہا۔ اس کا سبب ناواقفی بھی ہو سکتا ہے۔ بے حسی اور سہل انگاری بھی۔

4۔ ایک اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ اگر پنجاب و بنگال کی تقسیم ہی منظور تھی تو اس کے لیے حد بندی کا کمیشن مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ اصل طے ہو چکی تھی کہ مسلم اکثریت والے علاقے پاک پنجاب میں شامل ہوں اور ایسے علاقے ہر واقف کار کو معلوم تھے کیوں انہیں الگ نہ کرا لیا گیا؟ اس کا کوئی جواب میرے ذہن میں نہیں۔ اگر ایسا کیا جاتا تو ضلع فیروزپور سے تحصیل فیروز پور اور تحصیل زیرہ ضلع جالندھر میں سے تحصیل نکودر اور تحصیل جالندھر۔ ضلع امرتسر میں سے تحصیل اجنالہ اور ضلع گورداسپور میں سے تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور یقیناً پاک پنجاب میں آ جاتیں۔ ریاست کپور تھلہ جہاں اسلامی اکثریت تھی، محصور ہو جاتی۔ یوں پاک پنجاب کی حد دریائے ستلج پر پہنچ جاتی اور سکھوں نے جو ہنگامہ بپا کیا اس کے لیے کوئی امکان باقی نہ رہتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments