غلام رسول مہر بنام عاشق حسین بٹالوی


20۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ لیگ نے وزارتی سکیم مان لی تھی اور اس میں لیگ کے لیے انکار کے اسباب کانگرس نے پیدا کیے۔ پھر ’راست اقدام‘ (ڈائریکٹ ایکشن) کا مرحلہ پیش آیا اور فسادات کی آگ بھڑکی۔ اسے بھڑکانے کا ذمہ دار بڑے لیڈروں میں سے ارادتاً کوئی نہ تھا۔ لیکن چھوٹے لیڈر بڑے لیڈروں کے سامنے سب کچھ کرتے رہے مثلاً بہار میں، یو پی میں، پنجاب میں، بنگال میں تقسیم کے بعد جو فسادات ہوئے انہیں دونوں حکومتیں باآسانی روک سکتی تھیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہر جگہ ہر شخص اپنے آپ کو مواج سمندر کی لہروں میں تنکا بنا چکا تھا۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کے دلوں میں کیا تھا۔ میرا پختہ اعتقاد ہے کہ بڑے لیڈر ہمت، جرات اور احساس ذمہ داری سے کام لیتے تو فسادات رک جاتے۔ قتل و غارت کا طوفان تھم جاتا اور چند روز میں آبادیاں نئے حالات سے مطابقت پیدا کر لیتیں۔ یہ امر دونو ں ملکوں کے لیے بے حد مفید ہوتا لیکن اب؟ اب مرزا غالب کے قول کے مطابق:

آئندہ و گزشتہ تمنا و حسرت است،
یک کاشکے بود کہ بصد جا نوشتہ ایم
اس سلسلے میں اور بھی بہت سی باتیں کہی جا سکتی ہیں :۔
آں راز کہ در سینہ نہاں است نہ وعظ است
برادر تواں گفت بہ منبر نہ تواں گفت

میں آپ کے گرامی نامے کا جواب جلدی دینا چاہتا تھا لیکن یہاں کی مصروفیتوں نے دم نہ لینے دیا۔ پرسوں بعد دوپہر تہیہ کر کے بیٹھا۔ صرف ایک صفحہ لکھنے پایا تھا کہ آدمی آ گئے اور خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ آج اتوار تھا ( 14 فروری) صبح سے یہی کام شروع کیا تھا۔ لیکن پانچ مرتبہ بیچ میں اٹھنا پڑا۔ اس پریشانی احوال میں جمعیت فکر معلوم۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ بعض چیزیں تشنہ ہیں۔ لیکن تشنگی کو تحریر کے ذریعے بجھانا ممکن نہیں۔ دعا کیجئے کہ خدا مجھے تین چار مہینے کے لیے وہاں آنے کی مہلت عطا کرے یا پھر آپ یہاں آ جائیں۔

میں خود اپنی کتاب جلد شروع کر دینا چاہتا ہوں۔ وہ تاریخ ہو گی اور اس کا آغاز 1901 ء سے ہو گا تاکہ اسلامی سیاست کے نشیب و فراز ذرا بہتر صورت میں واضح ہو جائیں اور ہر شخص پہ آشکارا ہو سکے کہ 1857 ءکے بعد ہم نے احیاء و نشاة ثانیہ کا سفر کن حالات میں شروع کیا تھا اور کن کن منازل سے گزرتے ہوئے کہاں پہنچے۔

خانہ نشینی میں تخفیف کا خیال آپ کو کیوں آیا؟ میں اپنے مخصوص افکار و نظریات کے ساتھ انزوا میں تخفیف پر کیوں کر آمادہ ہو سکتا ہوں۔ انسان نیک کاموں سے تعاون کر سکتا ہے۔ جن کاموں کو درست نہیں سمجھتا ان سے الگ رہتا ہے۔ میرے لیے خدا نے دوسری صورت مقرر کر دی ہے۔ اس پر نہ افسوس ہے اور نہ اس حالت کے بدلنے کا بظاہر کوئی امکان۔ ہاں بھائی، لاہور اگرچہ وہ نہ رہا جو کبھی تھا لیکن اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔

بایک جہاں کدورت باز ایں خرابہ جائیست
آپ اچھے ہیں۔ ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس کے نیک و بد سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔
اگر بہ دل نہ خلد ہرچہ از نظر گزرد
زہے ردانی عمرے کہ در سفر گزرد
نظیری کہتا ہے
سفر گزیں کہ نہال اول از ملول شود
زمیں عزتبش آخر بہ از وطن باشد
لیکن نظیری ہی نے کہا ہے کہ
سیرایں دائرہ بدنیست ولے می ترسم
چشم از خویش بہ بندندچو پابکشاید

اگر موقع مل سکے تو عزیز جاوید اقبال سے خود ملاقات فرمائیے۔ اسے مختلف سیاسی امور کے متعلق تفصیلات مطلوب ہیں۔ آپ کی ملاقات اس کے لیے بے حد مفید ہو گی۔ موقع ملے تو پیغام بھیج کر یا خط لکھ کر پتہ منگا لیجیے۔ پمبروک کالج کیمبرج میں ہے۔ بھائی اعجاز اس کا پتہ جانتے ہیں۔ بھائی اعجاز اور تمام احباب کو میرا محبت بھرا سلام پہنچائیے۔

نیاز مند
(غلام رسول) مہر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments