سیکولرازم: مذہبی اساطیر سے روشن خیالی کی جانب تاریخ کا سفر



سیکولرازم کے باب میں ہمارے یہاں کم شناسی کا یہ عالم ہے کہ شان الحق حقی صاحب نے اپنی انگریزی اردو ڈکشنری میں سیکولرازم کا ترجمہ ”لادینیت“ کیا ہے۔ سیاسی اور معاشرتی سیکولرازم لادینیت سے بہت مختلف ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں اس کے معانی مذہبی لادینیت کے ہی رائج ہیں۔ لغت مرتب کرنے والوں کے نزدیک معانی کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لفظی ترجمے کی ہو سکتا ہے کئی وجوہات ہوں، مگر لادینیت کوسیکولرازم کا متباد ل قرار دینے سے پہلے سوچنے کے کئی اور زاویے بھی ہیں۔

جب کسی لفظ کے ساتھ ”ازم“ کا اضافہ ہو جائے تو سوشیالوجی اور سیاسیات میں اس کے اندر کم سے کم تین چیزوں کا لحاظ ضروری ہے۔ ”ازم“ کے اندر معاشرتی اتار چڑہاؤ کی تشریح کے لئے تاریخ کا ایک نظریہ ہونا چاہیے۔ ازم کے اندر سماجی اقدار اور ثقافتی حسیات کے لئے ایک باقاعدہ نظام فکر اور تیسرے نمبر پر ازم کے لئے لازم ہے کہ سماج کے اداروں کی تشکیل کے لئے سیاست کی تھیوری بھی مہیا کرے۔

یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ سیاست میں مذہب اور ریاست کے سمبندھ کی تاریخ صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ سیکولرازم عملی سیاست کی سطح پر مذہب اور ریاست کو ایک دوسرے سے علیحدہ دیکھنے کا نظریہ ہے۔ سیکولرازم بطور نظریہ کسی ایک شخص، کسی غیر مذہبی نبوت کے سلسلے یا کسی اوتار کی ریاضت نفسی کی پیداوار نہیں۔ اس کے پیچھے انسانی تاریخ کی بدلتی ہوئی رو ہے جس نے انسانوں کو معاشرہ ترتیب دینے کے لئے مذہبی اور روحانی وجدان کی بجائے انسانی تجربے اور تعقل کو بنیاد بنایا۔

george jacob holyake

بعض دانشور سیکولرازم کو انیسویں صدی کے برطانوی مفکر جارج جیکب ہولیوک سے منسوب کرتے ہیں اور یہ درست بھی ہے۔ بجا کہ ہولیوک نے نئے زمانے میں سیاست کی بدلتی ہوئی رو کو پہچان کر اس کے لئے سیکولرازم کو اصطلاح کے طور پر استعمال کیا تھا، مگر بدلتے ہوئے سماج اور معاشرت میں سیکولر رجحانات کی ابتداء کرنے میں ہولیوک کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ انفرادی زندگی اور سماجی حالات ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ ایک نامیاتی عمل ہے جو تاریخ کی بساط پر خود بخود وا ہوتا چلا جاتا ہے اور یوں زندگی اپنی راہیں متعین کرتی چلی جاتی ہے۔

سیکولرازم بدلتے ہوئے سماج اور سیاست کی تفہیم کے لئے ایک نظریاتی فریم ہے جس کے لئے ہولیوک نے ایک اصطلاح تو وضع کی مگر ان سے پہلے کے بہت سے مفکرین نے بھی زندگی اور سیاست کے افکار کی توسیع میں حصہ ڈالا جس سے سیکولر فکر کے خدوخال آہستہ سے سامنے آنے لگے۔ اس جگہ پر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں مثلا ”زمانے کی بدلتی ہوئی رو سے کیا مراد ہے؟ اس نے سیاست کو کس طرح سے متاثر کیا؟ یہ دونوں سوال دراصل ایک اور بحث طلب سوال کی جہتیں ہیں کہ کیا سیکولرازم محض ایک سیاسی نظریہ ہے یا اس کے ساتھ سماجی تشکیل اور ارتقاء کے قوانین بھی اہمیت رکھتے ہیں؟ سیکولرازم کو سمجھنے کے لئے ان تمام عوامل پر تاریخی تناظر میں گفتگو ضروری ہے۔

سیکولرازم اور تاریخی شعور

انسانوں کا سماجی شعور ان کے معاشی اور معاشرتی حالات کا پر تو ہوتا ہے جو بدلتا بھی ہے اور بڑھتا بھی ہے اور یہاں تک کہ روح عصر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے لئے ہیگل نے“ گائیست Geist ”کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ہیگل کے یہاں تاریخ میں روح عصر کا منبع اور مرجع مذہبی نظام فکر میں پنہاں ہے۔ ہیگل کے نزدیک الوہیت کا ظاہری وجود تاریخ انسانی ہے جو معاشرے میں سیاست کے پیکر میں ڈھلتا ہے۔ بادشاہوں کی حکمت عملی اور عام انسانوں کی کاوشات وقت کی لہر پر اسی مقدس الوہیت میں ضم ہونے کی جانب رواں ہیں۔ یوں ہیگل زمان و مکان کی بساط پر تا ریخ کے سفر کے لئے ایک سمت متعین کرتا ہے جو رکتی بڑھتی ابتداء سے انتہا کی جانب چلی جا رہی ہے۔

اس کے برعکس جب مارکس نے انسانی تاریخ کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ ہیگل کے فلسفے میں مابعد الطبعات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں انسانی زندگی کی اکائی کہیں دور کھو جاتی ہے اور اس حد تک کہ کشا کش ہست و بود کے شعور سے بے بہرہ ہو جاتی ہے۔ مارکس نے ہیگل کے تاریخ کے نظریے کو آسمانوں سے اتار کر زمیں پہ لانے کا کام کیا۔ اس کے نزدیک تاریخ کا پہیہ معروضی اور بڑی حد تک معاشی حقائق کا مرہون منت ہوتا ہے جو انسانی شعور میں ڈھلتا ہے۔ معاشی حالات سماج کی مجموعی شکل پر، سیاسی شناخت پر اور کلچرل حسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

سیکولرایزیشن تھیوری اور ماڈرنائزیشن تھیوری

اس جگہ پر ہیگل اور مارکس کے نظریات کی وضاحت کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ زندگی کے سیکولر یا دنیاوی مسائل اور سیکولر سوچ کو سیکولرازم بننے تک جن مراحل سے گزرنا پڑا ہے وہ ایک تاریخی اور ارتقائی عمل ہے۔ اسے انگریزی میں سیکولرائیزیشن کہتے ہیں۔ سیکولرایزیشن دراصل سیاسی جغرافیے کی حد بندیوں کے اندر رہتے ہوئے معاشرتی نظام فکر میں اور سیاست میں مذہب کی ریاست سے علیحدگی کا ارتقائی اور تاریخی مطالعہ ہے۔

سیکولرایزیشن تھیوری کے مطابق دنیاوی اور دنیاداری کی وہ تمام قواعد و عوامل جن کے لئے تاریخی طور پر مذہب سے رجوع کیا جاتا رہا ہے، انہیں عقل انسانی کی بنیاد پر بھی طے کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ اس انداز فکر کی گواہ ہے کہ دنیاوی مسائل شعوری کوشش سے زیادہ بہتر طور سے سمجھ میں آنے لگے ہیں اور سائنسی طریق کار پر مسائل کے حل کی راہیں بھی منور ہونے لگی ہیں جن میں سیاسی نظریات اور سماجی لائحہ عمل بھی شامل ہیں۔ سیکولر ازم کا مطالعہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اسے سیکولرایزیشن کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔

سیکولرایزیشن سماجی قدروں اور سیاسی اداروں کی عمارت شعور پر استوار کرتا ہے جس میں روشن خیالی کا بڑا عمل دخل ہے۔ روشن خیالی کی معاشرتی جہت جدیدیت سے عبارت ہے۔ مگر سیکولرازم بحثیت حکومتی نظام اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک یہ فرد اور معاشرے کی ثانوی جبلت نہ بن جائے ورنہ اسے ہمیشہ چیلنج درپیش رہیں گے اور اس کا وجود خطرے میں رہے گا۔ یہ سمجھنا کہ کوئی طاقت ور حکمران اپنے جنبش ابرو سے زندگی کے سیکولر معاملات کو سیاسی یا کلچرل زندگی کا حصہ بنا نے اور قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائے محض خام خیالی ہے۔ یہ نقطہ نہایت اہم ہے۔ روشن خیالی کی معاشرتی اقدار آہستہ آہستہ انسان کے اندر جب جذباتی سطح پر بھی گھر کر لیتی ہیں، سیاسیات میں اسے Entrenchment کہا جاتا ہے۔ وہ سیکولرازم جو معاشرتی رویے کا نمائندہ ہونے کی بجائے صرف حکومتوں کا آلہء کار ہو وہ ہمیشہ آمرانہ طاقت اور نوک سنان پر پلتا بڑھتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8