جاپان کی قید میں میرے ابا


ابا بہت کم گوشخصیت کے مالک تھے لیکن ان کا رعب اور دبدبہ اس قدر تھا کہ جہاں وہ بیھٹتے، ہم بہن بھائی وہاں سے کھسک جاتے۔ بازار میں دیکھتے تو راستہ بدل لیتے۔ نوے سال کی عمر کو پہنچے تو ابا کی ہمارے ساتھ دوستی شروع ہوگئی۔ موڈ خوشگوار ہوتا تو لمبی گفتگو کرتے۔ جس کا زیادہ تر حصہ ٹھیٹھ پنجابی پر مشتمل ہوتا جو انہوں نے سنگاپور میں اس وقت سیکھی جب وہ جاپان کے خلاف لڑتے ہوئے قیدی بنادیئے گئے تھے۔

انہیں اس جہان فانی سے کوچ کیے کئی برس بیت چکے لیکن ان کی یادیں اور باتیں دل ودماغ پر آج بھی نقش تازہ کی طرح ثبت ہیں۔ ایک لمحے کو بھی وہ دل ودماغ سے اترے نہیں۔

اباجی کوئی زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ ہمارے گاؤں سون ٹوپہ میں 1908 ء میں راجہ پونچھ بلدیو سنگھ نے پرائمری سکول قائم کیا تو اس خطے میں علم کا نور پھیلنا شروع ہوا۔ بلدیو ایک چالاک حکمران تھا۔ اس نے انگریزوں سے مل کر پونچھ جاگیرشاہی ریاست تسلیم کرالی تھی۔ وہ ایک اعلی درجے کا منتظم اور شہ دماغ تھا۔ مقامی لوگوں کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں دے کر رام کرتا تاکہ کسی بھی متوقع سیاسی بحران میں وہ اس کا ساتھ دیں۔ اس کے دور میں کئی ایک انتظامی عہدوں پر بھی مسلمانوں کو فائز کیاگیا۔

مقامی لوگوں مہاراجہ جموں وکشمیر سے زبردست نفرت کرتے۔ خاص کر پونچھ میں نفرت اور بیزاری انتقام کی حدوں کو چھوتی تھی کیونکہ لگ بھگ ایک صدی قبل یہاں کے لوگوں نے سکھ حکمران رنجیت سنگھ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو ردعمل میں گلاب سنگھ کے لشکر نے پورے خطے کو روند ڈالا۔ ہزاروں لوگوں کو شہید اور باغی سرداروں کی زندہ کھالیں کھینچیں۔

سکول میں استاد ہندو تھے اور طلبہ کی اکثریت مسلمان۔ ابا جی بتاتے کہ ان کے معلم چمن لعل محنتی اور دبنگ انسان تھے۔ اردو اور حساب میں بہت طاق۔ طلبہ کو بھی اپنی طرح تیزوطرار دیکھنا چاہتے۔ بسا اوقات بچوں کو وہ زبردستی سبق ازبر کراتے۔ چمن لعل کے سامنے بڑے بڑے سورماؤں کا پتا پانی ہوجاتا۔

ابا محض تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کرسکے۔ اس زمانے میں جو شخص لکھنا پڑھنا سیکھ لیتا اسے تعلیم یافتہ قراردیا جاتا تھا۔ مزید تعلیم کا مصرف بھی کوئی نہ تھا۔ آسانی سے حساب کتاب کرلیتے اور اکثر ڈائری لکھتے۔ اخبارات کا مطالعہ کرتے۔ بی بی سی شوق سے سنتے۔ بعد میں گھر میں ٹی وی آگیا تو بلاناغہ رات نو بجے پی ٹی وی کا خبر نامہ سنتے۔

اگرچہ انہیں اپنی تاریخ پیدائش کا علم نہ تھا لیکن بتاتے ہیں کہ 1925 ء کے لگ بھگ انہوں نے جنم لیا۔ والد علاقے کے نمبردار تھے لیکن روایتی نمبرداروں کے برعکس وہ ایک حلیم طبع انسان مانے جاتے تھے۔ مالیہ جمع کرتے لیکن غریبوں اور ناداروں پر سختی نہ کرتے۔ اباکی والدہ کا تعلق ایک دیندارگھرانے سے تھا۔ وہ محلے اور قرب وجوار کے بچوں کو قرآن شریف کی تعلیم دیتیں۔ اپنازیادہ وقت عبادت اور ریاضت میں بسر کرتیں۔

ہمارے دادا کا مسکن ایک گھنے جنگل کے عین پیچ میں تھا جہاں حد نگاہ تک کوئی دوسرا گھرنظر نہ آتا۔ دیودار اور چیٹرکے درختوں میں گھرا گارے اور دیوہیکل شہتیروں سے بنا یہ گھر اسی کی دہائی تک قائم رہا۔ بڑے بڑے کمرے، اونچے اور چوڑے دروازے، مٹی کی دیواریں اور چھت پر لگے ٹین کے لمبے لمبے پرنالے اس کی دلکشی میں اضافہ کردیتے۔ دادی نے ضد کرکے صحن میں ایک مسجد بھی تعمیر کرادی۔ دادی کے سامنے کسی کی ایک نا چلتی۔ طبعیت کی وہ سخت گیر اور ہٹ کی پکی تھیں۔

دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو بے روزگار نوجوانوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ تاج برطانیہ کو توپ وتفنگ چلانے کے لیے تازہ دم جوانوں کی کمک درکار تھی۔ بقول شاعر
؎سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپاہ گری

گاؤں میں خبر گرم تھی کہ فوج میں بھرتی کھل گئی ہے اور بنا سفارش کے نوکری مل رہی ہے۔ 1939 میں جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانوی ہند کی فوج محض دولاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ جنگ کے اختتام پر یہ تعداد پچیس لاکھ سے تجاویز کرچکی تھی۔ محض پونچھ کے ساٹھ ہزار سے زیادہ افراد نے دنیا بھر میں برطانوی سپاہیوں اور افسروں کے ہمراہ معرکہ آرائی میں حصہ لیا۔

ابا بھی اپنے دادا سردار نادرعلی خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے برطانوی ہند کی فوج میں بھرتی ہونے چل پڑے جو پہلی جنگ عظیم میں داد شجاعت دے چکے تھے۔ پونچھ کے جو پہلے دوسپوت صوبیدار کے رینک پر فائز ہوئے ان میں ایک نادر علی خان بھی تھے۔ تاریخ اقوم پونچھ میں محمد الدین فوق نے انہیں بھی پونچھی اکابرین میں شمار کیا ہے۔

اس زمانے میں ہندوستانی فوج یا پھر انگریزوں کے گھروں میں نوکری کو باعزت روزگار تصور کیا جاتا تھا۔ پونچھ کے لوگوں کا رخ سری نگر اور جموں کے بجائے صدیوں سے راولپنڈی کی طرف رہا ہے کہ یہی ان کی عملی زندگی کے سفر میں پہلا مستقر ٹھہرتا رہا۔ مہاراجہ کی نوکری اول تو ملتی ہی نہیں تھی اور پونچھی بھی مہاراجہ کے ہاں ملازمت کرنا پسند نہ کرتے۔ 1832 میں گلاب سنگھ نے زندہ پونچھی سرداروں کی کھالیں کھینچی۔ ان میں بھوسہ بھرا اور چوراہے پہ لٹکایا تاکہ باغیوں کو عبرت حاصل ہو۔ ہزاروں مردوں اور عورتوں کو شہید کیا۔ بہت بڑی تعداد کو جنگی قیدی بنا کر جموں ہانک کر لے گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پونچھوں کے خون میں مہاراجہ اور اس کے خاندان سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، جس کا اظہار 1947 کی جنگ آزادی میں دیکھاگیا۔

راولپنڈی میں ریلوے اسٹیشن کے گردونواح میں قائم مسافر خانوں اور سرائے میں پونچھیوں کی خوب چہل پہل رہتی۔ پتلی سی گلیوں کے اندر قائم تاریک سرائے میں چارپائی، گرم حمام اور دودھ کلچے کا ناشتہ مل جاتا۔ الگ کمرہ اور واش روم نصیب والوں کوحاصل ہوتا۔ اکثر پونچھی فوج سے چھٹی آتے توسرائے میں رات بسرکرتے یا کسی طرح رات کہوٹہ پہنچ جاتے تاکہ دن کے اجالے میں ستیوں کے علاقے سے باحفاظت گزرجائیں۔ ستی ان پونچھی مسافروں کو اکثر لوٹ لیتے اور پھرسرعت سے کہوٹہ کی سنگلاخ پہاڑیوں میں اترجاتے۔ کہوٹہ کے پرانے بزرگ آج بھی ان وقتوں کو یاد کرتے ہیں اور مزے مزے کے قصے سناتے ہیں کہ کس طرح راولاکوٹ اور پلندری کے لوگ ٹولیوں میں سہمے ہوئے ان کے علاقے سے گزرتے تھے۔

راولپنڈی صدر کے قلب میں مری روڑ سے متصل پونچھ کے حکمران راجہ موتی سنگھ نے پونچھ ہاؤس کے نام سے ایک عالی شان محل تعمیر کرایا۔ کشمیری جنگلات کی عمدہ لکڑی پر پیچیدہ کاریگری سے مزین اس شاندار عمارت میں راجہ کے خاندان کے لوگ اکثر سردیوں میں رہائش پذیر ہوتے۔ محل کے گرد ونواح میں پہرے داروں اور مصاحبین کی بھیڑ لگی رہتی۔ اکثر مفلوک الحال پونچھی پونچھ ہاؤس کا چکر لگاتے اور دور سے راجہ کی شان وشوکت نظارہ کرتے۔

ابا فوج میں بھرتی ہونے چلے تو ڈھنگ کے جوتے تک دستیاب نہ تھے۔ پھٹے پرانے لباس میں ملبوس علاقے کے کئی اور نوجوانوں کے ہمراہ راولپنڈی کا رخت سفر باندھا تو گاؤں سون ٹوپہ سے کہوٹہ تک پیدل سفر کیا۔ اس زمانے میں یہاں سڑک کا نام ونشان تک نہ تھا۔ صبح کاذب والدہ کے پاؤں چھوئے۔ انہوں نے فراخ پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا:جا پتر اللہ دے حوالے۔ مسافر ایک ان دیکھا سفر پر روانہ ہوگیا۔ ان دنوں کہوٹہ شہر سے تیس میل پہلے تک کا علاقہ خطرناک تصور کیا جاتا تھا۔

یہ ستیوں کا علاقہ ہے جو جنگجو ہی نہیں مہم جو بھی تھے۔ سرشام ستیوں کے غول کے غول راہداری کے گرد منڈلانا شروع ہوجاتے۔ پہاڑوں پر چڑھ جاتے اور گھات لگا کرانتظار کرتے کہ کوئی بھولا بھٹکا مسافر ہاتھ لگ جاتا تو اس کا سامان ہتھیاتے اور نقد رقم چھین لیتے۔ چنانچہ مسافر خوف کے مارے رات کے سفر سے گریز کرتے یا پھرٹولیوں کی شکل میں سفرکرتے۔

ابا بتاتے تھے کہ وہ جنوری کی ایک کہر آلود صبح راولپنڈی کینٹ کے بھرتی مرکز پہنچے تو لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ مایوسی کے عالم میں کئی بار خیال آیاکہ اس بھیڑ میں کون منہ لگائے گا؟ سہ پہر کو نمبر آ یا تو ایک صوبیدار میجر نے انٹرویوکیا۔ دل دھڑک رہا تھا۔ بات کرنے کا سلیقہ تھا اور نہ ہمت۔ قد اور سینہ مانپا گیا تو صوبیدار صاحب نے کہا کہ چلے گا۔ ابا ایک فراغ سینہ اور جسیم انسان تھے۔ شکل وصورت میں وجہیہ اور رعب دار چہرے والے۔ اگلے چند دنوں میں انہیں عسکری تربیت کے لیے پش اور اور بعد ازاں الہ آباد روانہ کردیا گیا۔ جنگ اپنے عروج پر تھی اور اس کا دائرہ بھی افریقہ اور مشرق وسطی تک پھیل رہاتھا۔ جاپانی اور جرمن فوجیں تیزی سے پیش قدمی کررہی تھیں۔ انگریزوں کو مختلف محاذوں پر پے درپے پسپائی ہورہی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood