گُم شدہ منظر


حیدرآباد پہنچ کر جب اس نے گاڑی زرینہ کے بھائی کے گھر کے سامنے روکی تھی، تب اس نے زرینہ سے مخاطب ہوکر کہا تھا:

 ”بادل کی تعلیم کا خیال رکھنا۔ ’‘ اس کی آوازبھرّا گئی تھی۔ اسے محسوس ہونے لگا جیسے وہ پرزہ پرزہ ہو کر فضاؤں میں منتشر ہو جائے گا۔

پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی زرینہ سوٹ کیس کھینچ کر خاموشی سے اُترگئی تھی اور اس نے آگے بڑھ کر کال بیل کے بٹن پر ہاتھ رکھ دیا۔ بادل کا ر سے اُترا تو وہ بھی ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ کر باہر نکل آیا۔ اس نے بادل کو اپنے بازوؤں میں لے کر سینے سے چمٹا لیا تھا۔

 ” پا پا! آپ ہمیں لینے کب آئیں گے؟ “ بادل نے پوچھا تھا۔

 ”بیٹا! یہ سوال تم اپنی امّی سے پوچھنا۔ ’‘ و ہ اندر ہی اندر ٹوٹنے، بکھرنے لگا تھا۔ زرینہ نے غصّے سے بادل کی طرف دیکھا۔ اسی لمحے اندر سے گیٹ کھلنے کی آواز آئی تواس نے بادل کو خود سے الگ کیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ دروازہ کھلا تو اس نے گردن گھما کردروازے کی طرف دیکھے بغیرچابی کو اگنیشن سوئچ میں گھما دیاتھا۔ دوسرے ہی لمحے گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھ گئی تھی۔

اس دن نہ جانے کس طرح وہ حادثوں سے بچتا ہوا، ہائی وے پر گاڑی دوڑاتا کراچی پہنچا تھا۔ اس نے کئی دن تک زرینہ کے کسی خط، کسی فون اور پیغام کا انتظار کیا تھا لیکن اس کا انتظار بے سود ثابت ہوا۔ جب وہ اس کی طرف سے بالکل مایوس ہوگیا تو اس نے خود زرینہ کو فون کرنا شروع کر دیے تھے، لیکن ہر بار اس نے بات کرنے سے انکار کردیا تھا۔ آخر کار ایک دن زرینہ نے اس سے بات کی: ”مسڑ! میں تم سے نفرت کرتی ہوں، تم سے بھی اور تمھارے گھر سے بھی۔ اگر اب تم نے مجھے طلاق کے کاغدات نہ بھجوائے تو میری موت کے ذِمہ دار تم ہوگے! “

 ”اگر تم مجھ سے نفرت کرتی ہو تو میں بھی تمھارے عشق میں مر نہیں جاؤں گا۔ ’‘ اس نے سخت لہجے میں جواب دے کر انتہائی غصّے کے عالم میں رسیور پٹخ دیا تھا۔

اگلے ہی دن اس نے طلاق کے کاغذات زرینہ کو پوسٹ کر دیے تھے۔

کھڑکی سے آنے والی ہوا کے تیز جھونکے سے پردہ پھڑپھڑا کر اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ پلکوں پر اٹکے ہوئے دو آنسو ٹپک کر اس کی ڈاڑھی میں اٹک گئے۔ وہ چونک کر ماضی کے پاتال سے نکل آیا۔

 ” باد ل کا فون تھا۔ ’‘ اس کی سماعت سے زرینہ کی آواز ٹکرائی۔

اس نے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرکر آنسو پونچھے اور پلٹ کر زرینہ کی طرف دیکھا۔ وہ دروازے سے گزر کر صوفے کے قریب رُک گئی۔ اس کے ہاتھ میں پلیٹ تھی، جس میں دو سینڈوچ رکھے تھے۔

 ”آپ نے اسے میرے بارے میں تو نہیں بتایا؟ “

 ” نہیں آپ نے منع جو کر دیا تھا۔ ’‘ زرینہ نے پلیٹ ٹیبل پر رکھ دی:“ آپ کچھ کھائیے۔ ’‘

وہ صوفے پر بیٹھ گیا تو زرینہ بھی اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ اس نے کہا: ”میرا خیال ہے، آپ نے بادل کو اپنی آمد کی اطلاع بھی نہیں کی تھی۔ ’‘

 ” ہاں میں اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ کب آئے گا بادل؟ “

 ” کَہ رہا تھا، ابھی کچھ کام باقی ہے۔ اس کے بعد وہ صوفیہ کو لینے ہاسٹل جائے گا۔ شاید وہ دو ڈھائی گھنٹے بعد ہی آ سکے گا۔ ’‘

بیٹے کی مصروفیات کے بارے میں سن کر وہ مسکرا دیا۔

 ” آپ کب واپس آئے ہیں؟ “ زرینہ نے سوال کیا۔

 ”ایئرپورٹ سے سیدھا یہیں آیا تھا۔ ’‘

 ” بادل نے بتایا تھا آپ آٹھ مہینے سے باہر گئے ہوئے تھے؟ “

 ”ہاں، فار ایسٹ سے ہوتا ہوا یورپ چلا گیا تھا۔ مختلف ملکوں میں بھٹکتا رہا ہوں، کسی آوارہ بادل کی طرح! “ اس نے ڈاڑھی پر ہاتھ پھرتے ہوئے کہا۔

 ” آپ سینڈوچ لیں نا! معلوم نہیں آپ نے لنچ بھی کیا تھا یا نہیں؟ “

 ”میں تو مسافر ہوں۔ ۔ ۔ مسافر کی زندگی میں ترتیب کہاں ہوتی ہے۔ بظاہر میں نے آٹھ مہینے سے ٹریول کیا ہے لیکن۔ ’‘ اس نے جملہ نامکمل چھوڑدیا۔

 ” لیکن کیا؟ “ زرینہ نے تجسس سے پوچھا۔

 ” مجھے لگتا ہے میں بارہ سال سے مسلسل سفر میں ہوں۔ میرے سفر کی ابتدا بارہ سال پہلے سپر ہائی وے سے ہوئی تھی۔ ’‘ اس نے گردن جھکا دی۔

 ” آپ سینڈوچ تو لیں نا! “ زرینہ نے موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، لیکن وہ اپنے من کے ہائی وے پر کسی بہت بڑے اور اندوہ ناک حادثے کا درد محسوس کرنے لگی۔

اس نے پلیٹ اُٹھا کر زرینہ کی طرف بڑھائی۔

 ” نہیں مجھے ضرورت نہیں ہے۔ ’‘

 ” پلیز۔ ۔ ۔ ! ’‘

زرینہ نے ایک سینڈوچ اُٹھا لیا۔ اس نے دوسرا سینڈوچ اُٹھایا اور کھانے لگا۔ سینڈوچ کھا کر اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ زرینہ نے نصف سینڈوچ واپس پیلٹ میں رکھتے ہوئے کہا: ”میں نے کچھ دیر پہلے آپ سے ایک جملہ کہا تھا۔ ’‘

 ”کیا؟ “ وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

 ” سیپریشن کے معاملے میں آپ اب بھی مجھے قصوروار سمجھتے ہیں؟ “

 ”یہ فیصلہ کون کر سکتا ہے! ؟ “ اس نے گہری سانس لے کر جواب دیا۔

 ” کیا۔ ۔ ۔ کیا آپ کو اپنا رویہ یاد نہیں رہا؟ “ زرینہ کی سانسیں اُلجھنے لگیں۔

 ”میں سمجھتا ہوں میرا رویہ کبھی بھی آپ سے خراب نہیں رہا تھا۔ ’‘

 ”نہیں۔ ۔ ۔ مم۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے، گھر سے باہر جو آپ کی مصروفیات تھیں۔ ۔ ۔ گھر کے باہر کی کمپنی۔ ۔ ۔ “

 ” میری کمپنی میں کوئی برائی نہیں تھی زرینہ! “ اس نے اعتماد سے جواب دیا۔

 ”ہاں۔ ۔ ۔ شاید۔ ۔ ۔ اس معاملے پر کبھی کبھی میں بھی ایسا ہی سوچتی ہوں۔ ۔ ۔ اور اُلجھ جاتی ہوں۔ ’‘ زرینہ نے گردن جھکا کر دھیمے لہجے میں کہا۔

 ” میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ آپ کے پاس، مجھ سے بدظن ہونے کے کون سے ٹھوس جواز موجود تھے؟ “

 ” معلوم نہیں۔ ۔ ۔ مجھے نہیں معلوم۔ ۔ ۔ “ زرینہ اندر ہی اندر پگھلنے لگی۔ اس کے دل کا پرانا زخم ہرا ہونے لگتا ہے اور اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9