گُم شدہ منظر


 ”زرینہ! میں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ پھر کبھی زندگی میں آپ کے ساتھ، اس طرح رُو بہ رُو بیٹھ کر بات کر نے کا موقع مل سکے گا! ’‘ اس نے بڑے دُکھ سے کہا:“ فضاؤں میں پھیلنے والی دھول وقت کے ساتھ آخرکار بیٹھ ہی جاتی ہے۔ ۔ ۔ تب دُھند میں گم ہوجانے والے تمام مناظر ہماری نظروں کے سامنے واضح ہو جاتے ہیں۔ دل کے اندر چلنے والی گرم ہوائیں جب سر د ہونے لگتی ہیں تو سوچ کی غلطیوں کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ’‘

زرینہ ضبط نہ کر سکی اور رو پڑی۔ وہ اُٹھ کر ڈرائنگ روم سے باہر نکل گیا۔ واپس آیا تواس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا، جو اس نے خاموشی سے زرینہ کی طرف بڑھا دیا۔ زرینہ نے دوپٹے کے پلُو سے آنسو پونچھ کر گلاس لے لیا اور ہونٹوں سے لگا لیا۔

وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ زرینہ نے گلاس ٹیبل پر رکھا تو وہ بولا: ”آپ کے مجھ سے بدظن ہونے کا سبب شانو تو نہیں تھی؟ “

زرینہ کے چہرے پر ایک رنگ سا لہرا گیا اور اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن اس کے چہرے کی ریکھائیں ماضی کی طرف جاتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔

 ”میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں باقاعدگی کے ساتھ شانو سے ملتا تھا۔ ’‘ اس نے کہا:“ وہ ایک ڈراما آرٹسٹ تھی۔ یہ اتفاق ہے کہ میرے ساتھ زیادہ تر اسے ہی کاسٹ کیا جاتا تھا اور ایک حد تک ہم دونوں میں ذہنی ہم آہنگی بھی پائی جاتی تھی۔ ’‘

وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا تو زرینہ کے ہونٹوں سے بے ساختہ جملہ نکلا: ”اور وہ بہت خوب صورت بھی تھی! “

 ”ہاں! واقعی وہ بہت خوب صورت تھی، لیکن زرینہ! حسن صرف ظاہر کا نام تو نہیں ہے۔ اس کا باطن بھی خوب صورت تھا۔ وہ کوئی عام سطحی فن کارہ نہیں تھی۔ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے ذہن کی عورت تھی۔ فن، ادب اور شاعری پر بھی بول سکتی تھی۔ ان تمام محرکات اور ساتھ کام کرنے کے سبب ہمارے درمیاں قربت تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فطری بات ہے۔ میرے اور اس کے درمیان تعلق میں کوئی معیوب جواز قطعی نہیں تھا۔ ’‘

 ” ہوں۔ ۔ ۔ “ زرینہ نے اثبات میں دھیرے سے سر ہلایا۔

 ” سچ بتائیے میرا اور شانو کا تعلق تو سیپریشن کا سبب نہیں بنا تھا؟ “

 ” بظاہر تومجھے شانی کی نیّت اور کردار میں شک کا احساس نہیں ہوا تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ شانو ہمارے درمیان کسی بڑے مسئلے کا سبب نہیں تھی۔ ’‘

 ”تو پھر آپ نے مجھے نادرہ کے معاملے میں سمجھنے میں غلطی کی ہو گی؟ “ اس نے اندیشہ ظاہر کیا۔

 ” نادرہ تو بہت اچھی لڑکی تھی۔ ’‘ زرینہ نے جواب دیا۔

 ” لیکن نادرہ کے حوالے سے کبھی کبھی مجھے آپ کا کوئی تلخ جملہ سننا پڑتا تھا۔ ’‘ اس نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا:“ حالاں کہ نادرہ اور میری عمر میں کافی فرق تھا، ۔ لیکن یقین کیجیے، گھر سے باہر میں اس سے بہت کم ملتا تھا۔ وہ اکثر گھر پر آکر آپ کے سامنے مجھ سے ملتی تھی۔ وہ مجھے چاہتی تھی، صرف ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے۔ دوسرا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ بہت معصوم لڑکی تھی۔ اسے تو احساس ہی نہیں تھا کہ اس کی اس عقیدت اور معصوم چاہت کے سبب مجھے آپ کے جملے سننے پڑتے تھے۔ ’‘

 ”ہاں مجھے بھی احساس ہوتا تھا کہ وہ بہت ہی معصوم لڑکی ہے لیکن کبھی کبھی اس کا آپ سے فری ہونا میرے اندر کی عورت سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔ ’‘ زرینہ ماضی میں جھانکنے لگی، اور گھر آئے مہمان کو کچھ کہنے کے بجائے میں اکثر تنہائی میں آپ پر غصّہ اُتارتی تھی۔ لیکن سچ کہتی ہوں، نادرہ بھی مجھے آپ سے علیحدہ کرنے کا سبب محسوس نہیں ہوتی۔ ’‘

کچھ دیر دونو ں خاموش بیٹھے رہے۔ گویا اندر ہی اند ر وہ دونوں ماضی کی پرپیچ پگڈنڈیوں پر سفر کر رہے تھے۔

 ”مارگریٹ کے بارے میں آپ کیا خیال ہے؟ “ اس نے زرینہ کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

مارگریٹ کا نام سن کر زرینہ کے چہر ے کی رنگت ایک لمحے کے لیے متغیر ہوگئی۔ وہ چند لمحے سوچتی ر ہی اور پھر بولی: ”مارگیٹ کے ساتھ تو آپ نے کافی وقت گزارا تھا۔ ’‘

 ” اور مارگیٹ کے حوالے سے لوگ آپ کو فضول قسم کی باتیں بھی بتاتے تھے۔ ’‘ اس نے لقمہ دیا۔

 ”پپ۔ ۔ ۔ پتا نہیں۔ ’‘

 ” ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے میں دیگر تمام نرسوں کی نسبت مارگریٹ کو اس لیے پسند کرتا تھاکہ وہ اپنی ڈیوٹی کو فرض سمجھ کر ادا کرتی تھی۔ ’‘

 ” کیا وہ نائٹ ڈیوٹی میں اکثرآپ کے ساتھ طویل سٹٹنگس نہیں کرتی تھی؟ “ مارگریٹ کے حوالے سے زرینہ کو اپنے لہجے میں تلخی محسوس ہونے لگی تھی۔

 ”ایک ہی وارڈ میں نائٹ ڈیوٹی کے سبب طویل سٹنگس ہونا کوئی ان ہونی بات نہیں ہے۔ ویسے بھی وہ دل چسپ گفتگو کرتی تھی، لطیفے سناتی تھی، کئی اشعار اسے زبانی یاد ہوتے تھے۔ اس لیے نائٹ ڈیوٹی کا عذاب کم ہو جاتا تھا۔ میں صرف اسی وجہ سے اسے رسپانس دیتا تھا۔ ’‘

 ”لیکن کبھی کبھی میرے اندر میں شک کا کانٹا چھبنے لگتا تھا کہ وہ آپ کو مجھ سے شیئر نہ کر رہی ہے۔ ’‘

 ”آپ نے صرف لوگوں کی باتوں پر توجہ دی تھی۔ ’‘ اس کے لہجے میں شکایت تھی:“ میرے اندر کی سچائی کو آپ نے پرکھنے کی کوشش ہی نہیں کی! ”

 ”شاید آپ ٹھیک کَہ رہے ہیں۔ ’‘

 ”میں سمجھتا ہوں، شاید مارگریٹ کا وجود ہماری جدائی کا سبب بنا تھا۔ ’‘

 ” نہیں اس وقت بھی میں یہی محسوس کرتی تھی کہ آپ وقتی طور پر مارگریٹ کی طرف کھنچ جاتے ہیں۔ ویسے بھی مارگریٹ کی شخصیت میں مجھے کبھی ایسا سحر محسوس نہیں ہوا تھا، جو آپ کو قابو کرلے۔ ’‘

 ”تو گویا ہماری زندگی کے حادثے میں مارگریٹ کا بھی قصور نہیں تھا؟ “

 ”نہیں قطعی نہیں۔ ’‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9