گُم شدہ منظر


 ”میں اکثر راتوں کو گھر سے باہر رہتا تھا۔ ’‘ اس نے ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:“ کبھی ہسپتال میں نائٹ ڈیوٹی ہوتی تھی تو کبھی دیر تک ٹی وی سٹیشن پر مصروف رہتا تھا۔ ’‘

 ”ہاں، آپ اکثر رات کو دیر سے گھر آتے تھے، اور کبھی کبھی تو پوری رات ہی غائب رہتے تھے۔ ’‘

 ” زرینہ! ہم جو ایک منٹ کا سین ٹی وی پر دیکھتے ہیں، کبھی کبھی اس ایک منٹ کے سین کی ریکارڈنگ میں کئی گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں۔ نہ جانے کتنے ری ٹیک دینے پڑتے ہیں۔ اگر ایک آرٹسٹ سے کوئی غلطی ہو گئی تو اس سین میں موجود دیگر تمام آرٹسٹوں کو بھی ظاہر ہے، وہ سین ری ٹیک کرنا پڑتا ہے۔ فن کار تو دوسروں کی غلطیوں کی سزا بھی بھگتتے ہیں۔ ہم فن کار تو ایک سین ریکارڈ کرانے کے بعد، پھر اپنا دوسرا سین آنے تک سیٹ پر کچھ دیر سکون سے بیٹھ سکتے ہیں۔ مصیبت تو ڈائریکٹر کے لیے ہوتی ہے جو مسلسل پینل پر مصروف رہتا ہے۔ ’‘

دفعتاً اسے اپنے موضوع سے ہٹ جانے کا احساس ہوا تو وہ خاموش ہوگیا۔ چند لمحے کے وقفے کے بعد وہ دوبارہ بولا: ”لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرا راتوں کو دیر سے آنا، ہمارے درمیان کسی بڑے حادثے کا سبب نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ آپ کو معلوم ہوتا تھا کہ یا تو میں ہسپتال میں ڈیوٹی پر ہوں یا کسی ڈرامے کی ریکارڈنگ میں۔ ’‘

 ”ہاں! میں محسوس کرتی ہوں کہ وہ کوئی اتنا بڑا جواز نہیں تھا۔ ’‘ زرینہ نے چہرے پرآئے ہوئے بالوں کو پیچھے ہٹاتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔

 ” توپھر شاید راحیلہ خان وہ ہستی تھی، جس نے آپ کو ذہنی طور پر مجھ سے دُور کر دیا تھا۔ ’‘ اس نے خیال ظاہر کیا اور بات مکمل کرکے زرینہ کو گھور کر دیکھا۔

زرینہ نے گردن جھکالی۔

 ” راحیلہ خان کی وجہ سے اکثر آپ برہم ہوجاتی تھیں لیکن یقین کیجیے، راحیلہ خان سے میرا تعلق محض ذہنی ہم آہنگی کے سبب تھا۔ فرنچ جاننے والی وہ خاتون جب بھی کسی فرنچ نظم کا ترجمہ کرتی تھی تو مجھے لاکر دکھاتی تھی۔ وہ زبان کے معاملے میں مجھ سے اصلاح لیتی تھی۔ اسے گرامر کی زیادہ معلومات نہیں تھی۔ اسی طرح ہم آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے۔ ہم بے تکلف دوست بن گئے۔ اگر وہ خوب صورت تھی، خدا نے اسے حسن دیا تھا تو اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ ’‘

 ” آپ گھر سے باہر بھی تو اکثر اس سے ملنے جاتے تھے؟ “

 ”ہاں، زیادہ تر فنکشنز میں وہ میرے قریب آکر بیٹھتی تھی۔ ’‘

 ” آپ اس کے ساتھ گھومتے پھرتے بھی تھے! “

 ”ہاں! میں ایک بار اس کے ساتھ بیچ پر گیا تھا، یا ایک دو بار کسی ریسٹورنٹ میں اس کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی تھی۔ ’‘

 ”لیکن میں محسوس کرتی تھی آپ اسے کچھ زیادہ ہی وقت دے رہے ہیں۔ ’‘

 ”میں اسے اتنا ہی وقت دیتا تھا، جتنا کسی مرد دوست کو دے سکتا ہوں۔ میں نے اسے کبھی عورت کی نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ وہ مجھے اپنا دوست سمجھتی تھی۔ اگر وقت کی بات کی ہے تو راحیلہ خان جب بھی آتی تھی، مجھ سے زیادہ اس کا وقت آپ کے ساتھ گزرتا تھا۔ ’‘

زرینہ کوئی بھی جواب نہیں دے سکی۔ گویا اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب ہی نہ ہو۔ وہ ایک بار پھر بولنے لگا : ”آپ یقین کیجیے، راحیلہ خان بہت صاف دل خاتون تھیں، وہ اکثر مجھے آپ کا خیال رکھنے کا کہتی تھیں۔ ’‘

 ”ہاں! ایسا تو واقعی تھا۔ وہ خود بھی میرا بہت خیال کرتی تھی۔ ’‘ زرینہ نے اعتراف کیا۔

 ”آپ یقین کیجیے، جس دن راحیلہ خان کو پتا چلا کہ میں نے آپ کو طلاق دے دی ہے، اس دن کے بعد اس نے مجھ سے ملنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ’‘

 ”اور آپ بھی یقین کیجیے کہ میں نے بھی راحیلہ خان کو کبھی غلط نہیں سمجھتا تھا لیکن نہ جانے کیوں، کبھی کبھی میرے وجود میں شک کی تاریکی پھیلنے لگتی تھی۔ ’‘ زرینہ کے لہجے میں تاسف اور افسوس کا تآثر تھا:“ لیکن میں نے بھی کبھی راحیلہ خان کو قصوروار نہیں سمجھا۔ ’‘

 ” تو پھر کیا تھا! کیا ہو گیا! “ وہ اندر ہی اندر اپنے آپ کو ٹوٹتا ہوا محسوس کرنے لگا۔

زرینہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے صوفے پر نیم دراز ہوکر اپنا سر صوفے کی پشت پر ٹکا دیا۔ اس کی نظریں چھت میں گڑی ہوئی تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ خلاؤں میں، کہیں دُور کچھ تلاش کر رہی ہو۔ کئی خاموش لمحے ان کے وجود پر چھا گئے۔ دونوں اپنے اندر کی توڑ پھوڑ کو اپنی آنکھوں میں محسوس کررہے تھے۔ دونوں کی پلکوں کے درمیان پانی جمع ہونے لگا تھا۔

 ”میں ایک فون کال کر لوں۔ ’‘ وہ اُٹھ کر ڈارئنگ روم سے باہر نکل گیا۔

وہ بیڈروم سے فون کرکے واپس لاؤنج میں آیا تو کچن کی طرف سے آنے والی آوزیں سن کر وہ کچن کی طرف چلا گیا۔ کچن میں زرینہ دوپٹے کے پلُوسے آنکھیں پونچھتے ہوئے کھانا بنانے کی تیاری کر ہی تھی۔ آہٹ سن کر وہ پلٹی: ”پلیز آپ جا کر بیٹھیے، آٹھ بج رہے ہیں، کچھ بنالوں۔ بادل آنے والا ہی ہوگا۔ ’‘

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں سے چل کر بیڈ روم میں آ گیا اور بیڈ پر لیٹ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اسے سکون نہیں ملا۔ وہ پہلو بدلتا رہا۔ کافی دیر کے بعد جب اس کی بے چینی ناقابلِ برداشت ہوگئی تو وہ اُٹھ کر لاؤنج میں آگیا۔ لاؤنج میں زرینہ کرسی پر بیٹھی پانی پی رہی تھی۔

 ” مجھے بھی پیاس لگی ہے۔ ’‘ اس نے زرینہ کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔

زرینہ نے خالی گلاس کو دوبارہ بھرا اور اس کی طرف بڑھادیا۔ وہ ایک ہی سانس میں پورا گلاس پی گیا اور بوتل اُٹھا کر دوبارہ گلاس میں پانی انڈیل کرپی گیا۔ گلاس میز پر رکھ کر اس نے گہری سانس لے کر کہا:

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9