گُم شدہ منظر


 ” زرینہ! میں نے آپ کا حق کسی عورت سے شیئر نہیں کیا تھا۔ ’‘

 ” میں نے بھی تو کبھی آپ کو بدکرداری کا طعنہ نہیں دیا تھا۔ ’‘

 ”تو پھر۔ ۔ ۔ ! یہ سبب کچھ کیوں ہوا۔ ۔ ۔ ؟ کیوں ہوا ایسا؟ “ اس کی آواز حلق میں پھنسنے لگی۔

زرینہ خاموش بیٹھی رہی۔

 ” ایک بات بتائیں۔ ’‘ اس کے چہرے پر گہرے دُکھ کی کیفیت محسوس ہونے لگی:“ آپ کو میرے خاندان والوں سے کوئی خاص شکایت تھی؟ ”

 ”نہیں! “ زرینہ نے جواب دیا : ”آپ نے شروع سے ہی مجھے الگ رکھا تھا۔ ’‘

 ”اور مجھے بھی آپ سے کوئی بڑی شکایت کبھی نہیں رہی تھی۔ ’‘اس کے لہجے میں لرزش تھی:“ نہ میں نے گھر کے انتظامات کے متعلق کبھی شکایت کی تھی اور نہ ہی کبھی آپ کے کردار پر شک کیا تھا۔ پھر یہ سب کچھ کیوں ہوا!؟’‘

زرینہ کوئی جواب نہیں دے سکی۔

 ” کیا سبب تھا آخر؟ “ اس نے الفاظ پر زو ر دیتے ہوئے اپنا سوال دُہرایا۔

 ”سبب۔ ۔ ۔ ! “ زرینہ اندر ہی اندر پگھلنے لگی۔

 ”ہاں! مجھے بتائیے، بتائیے کیا سبب تھا؟ “

 ”نہ جانے کیا سبب تھا۔ ۔ ۔ نہیں معلوم مجھے! “

زرینہ نے میز پر رکھے ہوئے اپنے بازو پر پیشانی ٹکا دی۔ کچھ دیر بعد اس نے زرینہ کی دبی دبی سسکی سنی۔

 ”زرینہ پلیز! “ اس نے پکارا۔

زرینہ نے چہرہ اُوپر اٹھایا تو اس کی پلکیں بھیگی ہوئی تھیں : ”آپ کو کیا معلوم! میں توخود گذشتہ بارہ برس سے سبب تلاش کرتی رہی ہوں۔ ’‘

 ”آخر یہ سب کیوں ہوا؟ “ اس نے ہاتھ ملتے ہوئے تاسف سے کہا: ”اتنا بڑا حادثہ ہوگیا اور خبر ہی نہیں ہوئی۔ ’‘

 ” ایک بات کہوں؟ “ زرینہ کے ہونٹ لرزنے لگے۔

اس نے گردن کو دھیرے سے اثبات میں ہلایا۔

 ”میں سمجھتی ہوں میری آنکھوں کے سامنے بے سبب باتوں اور مسائل کی دُھند چھا گئی تھی، لیکن آپ بھی جذباتی ہو گئے تھے۔ اگر آپ جلد بازی نہیں کرتے، کچھ صبر سے کام لیتے، کچھ عرصہ مجھے تنہا چھوڑ دیتے تو شاید میرا ذہن صاف ہوجاتا، اور سب کچھ درست ہوجاتا۔ شاید۔ ۔ ۔ شاید یہ ممکن تھا۔ ’‘ وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

زرینہ کی سسکیاں سن کر اس کی آنکھوں میں بھرا ہوا زہر بھی باہر نکلنے لگا۔ دفعتاَ اس کے دل میں شدت سے خیال اُبھرا کہ وہ اُٹھ کر زرینہ کو اپنے بازوؤں میں بھرلے، اسے سینے سے لگا کراس کے آنسو پونچھ ڈالے۔ وہ ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر اُٹھنے لگا۔ اسی لمحے اسے احساس ہوا کہ اب ا سے ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ اپنے تمام حقوق کھو چکا ہے۔ اُٹھتے اُٹھتے وہ گرنے کے سے انداز میں دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد، جب وہ خود کو سنبھال چکا تو اس نے زرینہ کو سمجھانے کی کوشش کی:

 ”زرینہ پلیز! “ زرینہ مسلسل سسکتی رہی۔

 ”بادل آنے والے ہو گا۔ ’‘ اس نے سمجھایا:“ اس کے ساتھ صوفیہ بھی ہوگی، خود کو سنبھالیے۔ ’‘

زرینہ نے سرد آہ بھر کر آنکھیں پونچھیں اور اُٹھ کر منھ دھونے کے لیے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ زرینہ کے باہر آنے بعد اس نے جا کر منھ دھویا اور تولیے سے چہرہ پونچھتا ہوا باہر آیا۔ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی زرینہ کے قریب جاکر وہ بولا: ”آئی ایم سوری زرینہ۔ ۔ ۔ ! ہوسکے تو مجھے معاف کردیجیے گا۔ ’‘

 ”معافی تو مجھے آپ سے مانگنی چاہیے۔ ’‘ زرینہ نے سر اُٹھائے بغیر جواب دیا۔

اس نے تولیہ کرسی پر رکھتے ہوئے کہا:

 ”باد ل آنے والا ہی ہو گا۔ میں ڈرائننگ رو م میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرتا ہوں۔ ’‘

زرینہ وہیں بیٹھی رہی اور وہ ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔ وہ صوفے پر بیٹھ کر اپنے اندر اُٹھنے والے طوفان سے لڑتا رہا۔ کچھ ہی دیر گزرنے کے بعد کال بیل بجنے کی آواز سنائی دی۔ کال بیل کی آوازنے گویا اندر کے طوفان کا رُخ موڑ دیا۔ وہ ہیجانی کیفیت سے آزاد ہوکر سیدھا بیٹھ گیا۔

دروازہ کھلنے کی آواز کے ساتھ اس نے بادل کی آواز سنی: ”امی! یہ صوفیہ ہے۔ ’‘

 ”اسلام علیکم آنٹی! ’‘ صوفیہ کی آواز سنائی دی۔

زرینہ نے صوفیہ کو سینے سے لگایا۔

بادل کی نگاہ اچانک ڈرائنگ روم کے دروازے کی طرف اُٹھ گئی: ”اوہ بابا۔ ۔ ۔ ! آپ کب آئے؟ “ بادل حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ دونوں بازو پھیلا کر باپ کی طرف لپکا۔

اس نے قہقہ لگا کر جواب دیا: ”ارے گھنّے! میں تو کافی دیر سے تمھارا انتظا ر کر رہا ہوں۔ ’‘ اس نے آگے بڑھ کر بادل کو اپنے بازوؤں میں بھرلیا۔

اس نے کچھ دیر تک بادل کو سینے سے چمٹائے رکھا اور پھر وہ اسے خود سے الگ کر کے صوفیہ کی طرف بڑھا۔ اس کے سرپر ہاتھ رکھ کر شفقت بھری نظرسے دیکھتے ہوئے بولا: ”آؤ بیٹا! “

صوفیہ اس کی طرف حیرت سے دیکھتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ وہ زرینہ کہ قریب بیٹھ گئی اور و ہ بادل کو کھینچ کر اپنے پاس بٹھاتے ہوئے بولا: ”کیسے ہو بدمعاش! “

بادل مسکرایا: ”میں بالکل ٹھیک ہوں بابا! لیکن آپ نے آنے کی اطلاع بھی نہیں کی! “

 ”ارے بُدھو! بتا کر آنے سے ملن کی راحت گھٹ جاتی ہے۔ ’‘ اس نے بادل کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا :“ اچانک آ کر ملنے کے سرپرائز کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ’‘ اس نے ایک نظر زرینہ کی طرف دیکھا۔

 ”بابا۔ ۔ ۔ ! یہ صوفیہ ہے۔ ’‘

 ”اچھی ہے تمھاری پسند۔ ’‘ اس نے مسکرا کر صوفیہ کی طرف دیکھا۔

صوفیہ نے سر جھکا لیا۔

بادل نے اس کی آنکھوں میں اُبھرنے والے سوال کو بھانپتے ہوئے کہا: ”صوفیہ! میں نے بابا اور امّی کے بارے میں جو کچھ تمھیں بتایا تھا، وہ بھی درست ہے۔ ’‘

 ”ہاں بیٹا! میں طویل آوارہ گردی کے بعد اچانک ہی واپس پہنچا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ بادل کی امّی بھی یہاں ہیں۔ میں تو بادل کی غیرموجودگی کے باعث واپس جا رہا تھا لیکن۔ ۔ ۔ “ اس نے اپنی بات نامکمل چھوڑ دی۔ اس کے ہاتھ کا دباؤ بادل کے کندھوں پر بڑھ گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9