گُم شدہ منظر


 ” بیٹا! میرے بیٹے کو۔ ۔ ۔ میرے بدمعاش بیٹے کو تمام زندگی خوب تنگ کرنا۔ اس سے لڑنا، ناراض ہونا لیکن۔ ۔ ۔ محبت کی خوشبو سنبھال کر رکھنا۔ کیوں کہ اگر خوشبو اُڑ جائے تو اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ ’‘

اس کا لہجہ بھاری ہوگیا۔ اس کا ہاتھ بدستور صوفیہ کے سر پر تھا۔ وہ گردن گھما کر بادل کی طرف دیکھ کر بولا:

 ” محبتوں کی چھت میں کبھی بھی غلط فہمیوں کی دراڑیں مت ڈالنا! “

اپنی بات مکمل کر کے اس نے صوفیہ کے سر پر بوسہ دیا اور اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔ بیگ کی زِپ بند کرنے سے پہلے اس نے پرفیوم کی تیسری شیشی نکالی۔ زرینہ کو دیکھ کر، بغیر کچھ کہے شیشی میز پر رکھ دی۔ پھر وہ بیگ اُٹھا کر کھڑا ہو گیا۔ سب ہی اُٹھ کھڑے ہوئے۔

بادل کو پتا تھا کہ بہتے ہوئے دریا کو روکنا ناممکن ہے لیکن پھر بھی اس نے کوشش کی: ”بابا! امّی کو چائے بنانے کا کہا تھا۔ ’‘

اس نے ہلکا سا قہقہ لگایا۔ بادل کو سینے سے لگا کر بولا: ”ارے بدمعاش! میرے حصّے کا پتی والا کڑوا پانی تم پی لینا۔ ’‘ بادل کو خود سے الگ کر کے صوفیہ کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے بات جاری رکھی:“ اور میرے حصّے کی چینی کے مزید دو چمچ صوفیہ کے کپ میں ڈال دینا۔ ’‘

 ”اچھا۔ ۔ ۔ میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔ ’‘ بادل نے گہری سانس لے کر کہا:“ ویسے بھی مجھے صوفیہ کو چھوڑنے کے لیے جانا ہی ہے۔ ’‘

 ”تمھیں معلوم ہے نا کہ میں کبھی کبھی تمھیں حکم بھی دیتا ہوں۔ ’‘ وہ بادل کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا:“ اب بھی حکم دیتا ہوں کہ تم صوفیہ کو دو اضافی چینی کے چمچ والی چائے کا کپ پلانے سے پہلے ڈرائنگ روم سے باہر قدم بھی نہیں رکھو گے۔ میں خود ہی چلا جاؤں گا۔ ’‘ اس نے بادل کے شانے پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھا کر اسے صوفے پر بٹھادیا۔

بیگ اُٹھاکر اس نے زرینہ کی طرف دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے اس کی نگاہ زرینہ کے وجود پرٹھہر سی گئی۔ دوسرے ہی لمحے اسے احساس ہوا کہ اس کے قدموں میں پڑی ہوئی ڈور ان کارڈز سے بندھی ہوئی ہے، جو اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر طوفان میں اُڑنے لگے ہیں، منتشر ہونے لگے ہیں۔ وہ طوفانی ہواؤں کی زد پر آئے ہوئے کسی ٹوٹے خشک پتّے کی طرح دروازے کی طرف بڑھا۔

دروازے سے باہر نکل کر، ہاتھ کو پیچھے کرتے ہوئے اس نے اپنی پشت پر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔ دفعتاَ اس کا ہاتھ دروازے کے بجائے کسی کپڑے سے اُلجھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا، زرینہ کے دوپٹے کا پلُو اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ اس نے جلدی سے دوپٹے کا پلُو چھوڑ دیا ایک پل تک اپنے خالی ہاتھوں کو گھورتا رہا۔ پھر پلٹ کر سیڑھیاں اُترنے لگا۔ کچھ نیچے جا کر اس نے گردن موڑ کر دیکھا، زرینہ اب بھی دروازے پر کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں سے دو آنسواس کے چہرے پر نشان چھوڑ کر کہیں گر گئے تھے۔

وہ چند لمحے زرینہ کے آنسوؤں سے بھیگے چہرے کی طرف دیکھتا رہا اور پھر رُخصت ہونے کے لیے الوداع کے انداز میں اس کا ہاتھ اُٹھا تواس کی آنکھوں سے دو آنسو نکل کر اس کی ڈاڑھی کے بالوں میں اٹک گئے۔ جواباَ زرینہ نے ہاتھ اُٹھایا تو ہاتھ میں تھامی ہوئی پرفیوم کی بوتل پھسل کر فرش پر گری اور چھناکے سے ٹوٹ گئی۔ خوشبو اُڑنے لگی۔

اس نے اُٹھے ہوئے ہاتھ سے آنکھیں پونچھیں اور گردن جھکا کر بھاری بھاری قدموں سے سیڑھیاں اُترنے لگا۔

(سندھی سے ترجمہ: محمد ابراہیم جمالی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9