عورت کی جنسی زندگی اس کا پرلطف اثاثہ ہے، بوجھ نہیں


کچھ خواتین کو خود کو کنواری ثابت کرنے کے لیے سرجری تک کروانی پڑ جاتی ہے۔ شادی ایک جیون بھر کا ساتھ۔ ایک اعتبار کا رشتہ۔ اس کی بنیاد ہی جھوٹ پر کھڑی کیوں کی جائے؟ خواتین کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ کیا آپ کو پیسہ، تعلیم اور طاقت حاصل کرنے کے بعد ان آدمیوں کی ضرورت ہے جو آپ کی توہین کریں اور جن سے آپ جھوٹ بولنے پر مجبور ہوں؟ ان کے لیے ڈرامہ کریں اور خود کو آٹے کی بوری کی طرح ظاہر کریں؟ کس لیے؟

جنسی تعلق انسان محض بچے پیدا کرنے کے لیے نہیں کرتا بلکہ انسان ایک سماجی جانور ہے۔ تمام انسانوں کو محبت کی، جذباتی تعلق کی، چھوئے جانے کی ضرورت ہے۔ سو سال پہلے کیے گئے یتیم خانے کے بچوں پر تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ نئے پیدا ہوئے بچے جن کو صرف دودھ پلانے اور صاف کرنے کے لیے چھوا گیا، وہ مر گئے تھے۔

ایک اور بات کافی لوگ سمجھتے ہیں اور اردو میں کہتے رہتے ہیں کہ مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اور خواتین بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ حالات بالکل الٹ ہیں۔ مینوپاز کے بعد خواتین کے بچے نہیں ہوسکتے لیکن وہ جنسی طور پر ٹھیک ہی رہتی ہیں، آدمیوں کو پرفارمنس کے لیے ہارمون اور دواؤں کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ جو عمر رسیدہ مرد یا خواتین جنسی طور پر فعال رہتے ہیں، وہ خوش باش رہتے ہیں، ان کی صحت اچھی رہتی ہے اور ان کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔ جو مینوپاز کے بعد جنسی طور پر فعال ہوں، ایسی خواتین میں اپنے جوان بچوں کی زندگی جینے کی خواہش نہیں ہوتی۔ جو جنسی طور پر ناآسودہ ہوں وہ اپنی بہو کو دیکھ کر مزید تکلیف محسوس کرتی ہیں اور اپنے بیٹوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں جس کی وجہ سے ان نوجوانوں کی زندگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔

عمر رسیدہ خواتین کو بزرگ یا دیوی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ان تمام خواتین کو اپنے بالغ بچے فارغ کرنے کے بعد اپنی جنسی اور جذباتی زندگی پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اور ہم یہ دیکھ بھی رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ شعور بڑھ رہا ہے اور کئی مشہور خواتین شخصیات نے بڑھاپے میں شادیاں کی ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ، محبت اور کمپینین شپ کی انسان کو اور بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بڑھاپے میں بیمار اور تنہا ڈپریشن کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ سفر کریں، ساتھ میں نئی چیزیں سیکھتے رہیں اور اپنی بقایا زندگی کے دن ہنسی خوشی بسر کریں۔

پولی گیمی یعنی ایک آدمی کی کئی شادیوں کے بارے میں بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کا بایولوجی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک سوشل کانسٹرکٹ یعنی سماج کا بنایا ہوا نظام ہے۔ حقیقی دنیا میں اناٹومی اور فزیالوجی کے مطابق ایک خاتون کے کئی شوہر یا پارٹنرز ہونا حیاتیاتی لحاظ سے زیادہ ممکن ہے۔ اصلی زندگی میں اگر ہمیں یہ تولنا ہو کہ ایک برتن میں کتنا دودھ ہے تو اس کو ترازو پر رکھتے ہیں۔ آپ دس خواتین اور دس مرد طوائفوں کا سروے کرلیں۔ ایک دن میں انہوں نے کتنے گاہک دیکھے؟ معلومات حاصل کرنے کا یہی صحیح طریقہ ہے ورنہ سچائی کبھی نہیں جان پائیں گے۔ دنیا کو سمجھنے کے لیے دنیا کا مطالعہ لازمی ہے۔ پرانے زمانے کے لوگوں کے فلسفے پر حقیقی جواب حاصل نہیں ہوسکتے۔

امریکہ میں آج چار میں سے تین کالج کی اسٹوڈنٹس خواتین ہیں۔ شادی کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی شادی سستی اور طلاق مہنگی پڑتی ہے۔ گھر بار، پیسہ سب ختم ہوجاتا ہے۔ کافی خواتین اسپرم بینک سے اسپرم خرید کر اس سے اپنے بچے خود پیداکرکے پال رہی ہیں۔ اس طرح اگر بوائے فرینڈ سے نہ بنے تو اس سے ترک تعلق سے نہ بچے چھن جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی بینک بیلنس کے کم ہونے کا۔ بچے کے باپ کا نام تقریباً تمام دنیا میں اہم ہے۔ جس کے باپ کا نہ پتا ہو اس کو گالی دی جاتی ہے۔

حالانکہ نہ صرف یہ کہ وہ بچہ معصوم ہے بلکہ اس کی ماں اس کی زندگی میں زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اس بات کا تعلق بھی معاشی سمجھوتے سے ہے۔ جہاں خواتین مردوں پر معاشی انحصار نہ کرتی ہوں، ان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بچے شادی کے اندر پیدا کیے یا باہر۔ نئی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ جو خواتین تمام عمر شادی نہیں کرتیں اور ان کے بچے نہیں ہوتے، وہ زندگی میں زیادہ خوش رہتی ہیں اور ان کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔

ہم اپنی زندگیاں کس طرح بتانا چاہیں یا دوسرے لوگ اپنی زندگیوں میں کیا چن رہے ہیں وہ ہر کسی کا اپنا ذاتی معاملہ ہے لیکن ہمیں سچ اور جھوٹ کو الگ الگ پہچاننے کی صلاحیت کھو نہیں دینی چاہیے۔

اشاعت اول: Dec 4, 2019


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3