عورت کی جنسی زندگی اس کا پرلطف اثاثہ ہے، بوجھ نہیں


وہ مرد بہروپیے ہیں

جو سمجھتے ہیں

کہ انہوں نے عورت کو تخلیق کیا

اپنی ایک پسلی سے

عورت مرد کی پسلی سے نہیں آئی، کبھی نہیں

مرد عورت کی کوکھ سے نکلتا ہے

جیسے کوئی مچھلی پانی کی گہرائیوں سے نکلتی ہے

جیسے دریا میں ‌ سے ندیاں ‌ نکلتی ہیں

یہ وہ ہے جو اس کی آنکھوں کے سورج کے گرد چکر لگاتا ہے

اور تصور کرتا ہے کہ وہ مستقل ہے

(نظار قبانی)

میں کلینک میں مریض دیکھ رہی تھی جب میری اچھی دوست ہما دلاور نے مجھے ہم سب میگزین پر چھپا ہوا ایک آرٹیکل بھیجا جو پاکستان میں ہم جنس خواتین کے بارے میں تھا۔ اس کو پڑھ کر میں بہت ہنسی تھی۔ وہ ایک معصوم سا مضمون تھا جو بنیادی طور پر ایک پدرانہ معاشرے کے اندر یہ کہہ رہا تھا کہ دیکھئیے آج کی بداخلاق دنیا میں میں کتنی اچھی بچی ہوں۔ حالانکہ دیگر بالغ افراد اپنی نجی زندگی میں کیا کررہے ہیں وہ ہمارا بزنس نہیں بلکہ ان پر اعتراض کرنا تعصب کے دائرے میں آتا ہے جس پر آپ کئی ممالک میں قانونی طور پر مسائل کا شکار بن سکتے ہیں۔ کافی ساری میڈیکل ریسرچ سے ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر خواتین دنیا میں یا تو ہم جنس پسند ہیں یا بائے سیکچؤل ہیں۔ لیکن وہ اپنے بارے میں یہ بات نہیں جانتیں۔ ریسرچ سے یہ بھی سامنے آیا کہ ہم جنس پسند خواتین میں آرگیزم زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی بتائی گئی ہے کہ چونکہ وہ اپنے جسم کو جانتی ہیں اس لیے انہیں پتا ہوتا ہے کہ اپنی پارٹنر کو کیسے خوش کرنا ہے۔ یہ بات ایک آدمی کے لیے سمجھنا ذرا مشکل ہے۔

بچہ ماں کے پیٹ میں ہی اپنے جنسی اعضا سے کھیلنے لگتا ہے۔ یہ لڑکے اور لڑکیوں میں ایک نارمل بات ہے۔ ایک عورت کے کلیٹورس میں آٹھ ہزار نرو اینڈنگز ہوتی ہیں اور ایک مرد کے آلہ تناسل میں چار ہزار نرو اینڈنگ ہوتی ہیں۔ جس طرح ایک عورت جنسی مسرت محسوس کرسکتی ہے اور بار بار کر سکتی ہے، وہ کوئی مرد کبھی جان نہیں سکتا کیونکہ اناٹومی بالکل مختلف ہے۔ اس کو سمجھنا اور اپنی پارٹنر کو آسودہ محسوس کروانا مشکل کام ہے اسی لیے دنیا میں ہزاروں تو کیا لاکھوں خواتین ایسی ہیں جن کے کلیٹورس کاٹ کر نکال دیے گئیے ہیں۔ نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی بانسری! اس کام کو کئی ممالک میں مذہبی سرپرستی حاصل ہے۔ ان خواتین میں جنسی تعلق سے کچھ مسرت تو کیا الٹا شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال کئی بچیاں اس پروسیجر کے دوران مر جاتی ہیں۔ تصور کیجئیے کہ آٹھ ہزار چاقو اکھٹے مار کر جان سے مارا جائے تو کیسا محسوس ہوگا؟ جو خواتین اپنی بچیوں کی اس طرح ختنے کروانے کے جرم میں شامل ہیں، شاید یہ الفاظ ان کا ضمیر جھنجھوڑیں۔

خواتین میں ریفریکٹری پیریڈ نہیں ہوتا یعنی کہ مردوں کی طرح ان کو دوبارہ آرگیزم کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے علاوہ زیادہ تر خواتین انہی ساتھیوں کے ساتھ جنسی تعلق سے خوشی حاصل کرسکتی ہیں جنہیں وہ پسند کرتی ہوں۔ جن کے ساتھ ان کا جذباتی تعلق ہو۔ ایک عورت کا اس آدمی سے حاملہ ہونا زیادہ ممکن ہوتا ہے جس سے وہ محبت کرتی ہو کیونکہ اس جنسی تعلق میں بچہ دانی زیادہ متحرک ہوتی ہے۔ جب ایک خاتون کسی شخص سے محبت کریں اور ان کے کامیاب اور پرمسرت جنسی تعلقات بھی ہوں تو ان کو اس کی عادت یا لت بھی پڑ سکتی ہے جس کو چھوڑنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ان میں سے کئی خواتین ایک پر تشدد تعلق آسانی سے ترک نہیں کر پاتیں۔

دنیا کے تمام بڑے مذاہب اور خاص طور پر سامی مذاہب کی بنیاد عورت کی جنسیت اور اس کے جسم کو قابو میں کرنے پر کھڑی ہے۔ اس کے لیے بہت لوگوں سے نے ہزاروں سال کام کیا ہے۔ ہر لحاظ سے پوری کوشش کی گئی ہے کہ خواتین خود کو کبھی نہ جان پائیں۔ اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ آج ایک اوسط خاتون خود کو نہیں جانتی۔ وہ خود کو اور اپنی قدر کو اپنی زندگی میں موجود مردوں سے ناپتی ہے۔ اور مرد بھی اس کی اہمیت کو اس کے دوسرے مردوں کے تعلق کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ یعنی کہ ایک عورت کا شوہر اس کی اہمیت اس کے بھائیوں، اس کے باپ اور وہ اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں، اسی پیمانے سے ناپتا ہے۔ مردوں نے ایک مکمل نظام ترتیب دیا جس میں وہ عورتوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکیں۔ عورتیں بھی یہ سجمھنے لگیں کہ ان کی زندگی کا مقصد مردوں کو خوش کرنا ہے۔ اسی لحاظ سے ان کی بچپن سے تربیت ہوئی اور اسی طرح وہ اپنی بیٹیوں کی بھی تربیت کرتی ہیں۔

اس پدرانہ نظام کو معاشروں میں عزت حاصل ہے اور اس کو چیلنج کرنے والی خواتین خود بخود وہ عزت کھو دیتی ہیں جو ان خواتین پر نچھاور کی جاتی ہے جو اس نظام کی حامی ہوں۔ خواتین چونکہ ملکیت ہیں اس لیے وہ کیا پہنیں گی، کیا کھائیں گی، کہاں آ اور جا سکتی ہیں ان تمام باتوں پر ان کے خود ساختہ سرپرست آدمیوں کے کنٹرول کو عزت، قومی حمیت، جنت دوزخ اور غیرت کے تصورات سے جوڑا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ خواتین کے حقوق سے متعلق کسی بھی موضوع پر بات کریں تو تان خدا اور بھگوان پر آکر ہی ٹوٹتی ہے۔ آخری جملہ ہمیشہ یہاں ہی ختم ہوتا ہے کہ سب خدا کی مرضی ہے۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے اور اس کو کیسے ناپا جائے؟

ہم بچپن میں بہت مذہبی کتابیں پڑھتے تھے جو کہ نناوے اعشاریہ نناوے فیصد آدمیوں کی ہی لکھی ہوئی تھیں۔ یہ آدمی ایک دوسرے کے لیے کتابیں لکھتے ہیں جب کہ ان کی زندگی میں خواتین ان کے لیے کھانے پکانے، کپڑے استری کرنے اور ان کے بچے پالنے میں مصروف ہوتی ہیں۔ دنیا میں زیادہ تر کام خواتین ہی کر رہی ہیں۔ پھر میڈیسن پڑھی جس میں انسانی جسم کی اناٹومی، فزیالوجی اور سائکالوجی پڑھی اور اس کے بعد بہت سارے مریض بھی دیکھے جو دنیا کے ہر پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے مجھے معلوم ہوا کہ مذہبی کتابیں کیا ہیں؟ وہ گزرے ہوئے زمانے کے سفید فام ادھیڑ عمر آدمیوں کا فلسفہ ہیں۔ ابراہیمی مذاہب خواتین کو جو سبق سکھاتے ہیں، ان میں شادی تک کنواری رہنا، باپ کی مرضی سے شادی کرنا، مرد کے لیے اولاد پیدا کرنا، شوہر کے لیے ہر وقت جنسی تعلقات کے لیے تیار اور راضی رہنا اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک مرد کا سہارا لینا شامل ہیں۔ حالانکہ حقیقی دنیا میں، اصلی زندگی میں کسی بھی خاتون کو ان میں سے کسی بھی چیز کی کوئی لازمی ضرورت نہیں ہے۔ ژاں پال سارتر نے بھی یہی بات کہی کہ دنیا میں انسانوں نے خود کو قائل کیا ہوا ہے کہ وہ مقید ہیں لیکن بنیادی طور پر انسان بالکل آزاد ہیں۔ ایک مختلف زندگی اکثر صرف ایک فیصلے کے فاصلے پر ہوتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3