محترمہ بینظیر بھٹو کی یاد میں!


ذوالفقار علی بھٹو کی یہ بیٹی واقعتا بے نظیر (اور بے مثال) تھی۔ پینتیس برس کی عمر میں وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئی۔ دنیا کی کم عمر ترین اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون سربراہ حکومت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ محترمہ کی زندگی مشکلات ومصائب میں گھری رہی۔ تاہم ا نہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی ڈٹی رہیں۔ بے نظیر بھٹو کی سیاست اور طرز حکمرانی سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مگر آئین پاکستان سے ان کی وابستگی اور جمہوریت بحالی کے لئے ان کی جدوجہد سے انکار کسی طور ممکن نہیں۔

آج بھی بیرون ملک یا کسی غیر ملکی کے سامنے پاکستان کا روشن چہرہ پیش کرنا مطلوب ہو تو ہم فخرسے بینظیر بھٹو اور ان کی جہد مسلسل کا حوالہ دیتے ہیں۔ تاریخ انہیں ایک ذہین و فطین اور جراتمند سیاسی رہنما کے طور پر جانتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں کسی مقبول سیاسی رہنما کی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کو امریکی اور بھارتی ایجنٹ کہا جاتا رہا۔ انہیں غدار کا لقب دیا گیا۔ ذولفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ نواز شریف کو کبھی ملک سے باہر پھینک دیا، کبھی زندان میں ڈالے رکھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی ہم نے مار کر دم لیا۔

محترمہ کی شہادت کا دن آج بھی میری یاداشت میں تازہ ہے۔ اس روز میں معمول کیمطابق دفتر میں مصروف تھی۔ خبر ملی کہ راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے جلسے میں دہشت گردی کی واردات ہوئی ہے اور بے نظیر زخمی ہو گئی ہیں۔ چند منٹ بعد اطلاع آئی کہ محترمہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ یہ ایک ناقابل یقین صورتحال تھی۔ سب پر سکتہ طاری تھا۔ براہ راست ٹرانسمیشن کے لئے ہم لوگ اسٹوڈیو کی طرف بھاگے۔ سیٹ پر گفتگو شروع ہوئی مگر پتہ چلا کہ سیٹلائٹ کا لنک ڈاون ہے۔

فوری طور پر براہ راست نشریات ممکن نہیں ہو سکی۔ ان دنوں میں اپنے ٹی۔ وی چینل کے لئے محترمہ کا انٹرویو کرنا چاہتی تھی۔ میرا ان سے ای۔ میل کے ذریعے رابطہ تھا۔ فرحت اللہ بابر نے مجھ سے بی بی کے انٹرویو کا وعدہ کر رکھا تھا۔ کچھ روز بعد ہماری ملاقات ہونا طے تھی۔ لیکن یہ ملاقات کبھی نہ ہو سکی۔ مجھے ہمیشہ اس شاندار خاتون سے ملاقات نہ کر سکنے کا قلق رہا (اور اب بھی ہے ) ۔

بی بی کی شہادت کے بعد آصف زرداری یکایک نہایت اہمیت اختیار کر گئے تھے۔ پارٹی کے فیصلے ان کے اشارہ ابرو سے بندھ چلے تھے۔ انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور انتخابی تیاریوں میں جت گئے۔ آخرکا ر پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ فرحت اللہ بابر کے توسط سے مجھے زرداری صاحب کے انٹرویو کا موقع ملا۔ یہ انٹرویو، گورنر ہاؤس لاہور میں ہوا۔ جمیل سومرو اور رخسانہ بنگش اس انٹرویو کے نگران تھے۔ (رخسانہ بنگش آج بھی زرداری صاحب کے ہمراہ ہوتی ہیں۔ جبکہ جمیل سومرو اب بلاول بھٹو کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں ) ۔

انٹر ویو کے کمرے میں رخسانہ بنگش کسی سخت گیر منتظم کی طرح متحرک تھیں۔ غیر متعلقہ افراد کو کمرے سے باہر نکالتے اور گھڑی گھڑی اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ کر ہدایات جاری کرتے۔ زرداری صاحب چہرے پر مسکراہٹ سجائے کمرے میں داخل ہوئے تو انہیں دیکھ کر مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو یاد آگئیں اور ان کی آپ بیتی دختر مشرق (Daughter of the East) میں آصف زرداری سے ملاقات کا احوال۔

محترمہ اپنی شادی کا قصہ تفصیل سے بیان کرتی ہیں۔ لکھتی ہیں کہ کس طرح وہ شادی کے ذکر پر بدکتی تھیں۔ کس طرح مہینوں بلکہ برسوں وہ زرداری قبیلے کے نوجوان کی طرف سے آئی شادی کی درخواست ٹالتی رہیں۔ کس طرح ان کی ماں اور آنٹی نے بہ اصرار آصف زرداری سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا۔ کس طرح زرداری صاحب سے ملاقات کرنے اور ان کی طرف سے تحائف موصول ہونے کے باوجود بینظیر، آصف زرداری کی طرف مائل نہ ہو سکیں۔ بی بی لکھتی ہیں کہ آخرکار تقدیر کی تان شہد کی ایک مکھی پر آن کر ٹوٹی۔

بینظیر کے ہاتھ پر شہد کی مکھی نے کاٹ لیا۔ وہ لاپروائی سے گھومتی رہیں۔ رات تک ان کا ہاتھ سوج گیا۔ اگلے دن آصف زرداری انہیں ملنے آئے اور بینظیر کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے زبردستی انہیں ڈاکٹر پر لے گئے اور دوائیں دلوائیں۔ بے نظیر لکھتی ہیں کہ اس طرح پرواہ کیے جانا، بہت اچھا (nice) اور غیر مانوس (unaccustomed) احساس تھا۔ اگلی رات وہ اپنی ماں نصرت بھٹو، بہن صنم بھٹو اور آصف زرداری کے ساتھ لندن میں ایک پاکستانی ریسٹورنٹ کی تلاش میں راستہ بھول گئیں۔ دوران سفر آصف زرداری نے جھنجلاہٹ کا شکار ہونے کے بجائے خوش دلی سے سب کو اپنی باتوں سے محظوظ کیے رکھا۔ ان دو واقعات نے اگلے ہی دن بینظیر کی نا کو ہاں میں بدل دیا۔

میں بینظیر کی یہ آپ بیتی کئی بار پڑھ چکی ہوں۔ ہر بار مجھے یہ کتاب پہلے سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔ عام طور پر ہم بے نظیر کو ایک سیاسی رہنما کے طور پر جانتے ہیں۔ ان کی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ تاہم اس کتاب میں محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عورت کے روپ میں بھی نظر آتی ہیں۔ ایک بیٹی، بہن، بیوی، اور ماں بننے کی خواہشمند عورت کے روپ میں۔ اس نہتی عورت کے باپ کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔

اور کچھ اس طرح کہ آخری ملاقات کے دوران باپ بیٹی کے مابین جیل کی سلاخیں حائل تھیں۔ بینظیر اپنے باپ سے گلے ملنا چاہتی تھی۔ اسے چھونا چاہتی تھی۔ مگر جیل سپرنٹنڈنٹ نے ان کی درخواست رد کر دی۔ پھانسی کے بعد بیٹی کو باپ کے جنازے میں شرکت اور آخری دیدار سے محروم رکھا گیا۔ اس بہن نے اپنے دونوں بھائیوں کی موت کا غم بھی سہا۔ اس کے خاوند کو برسوں جیل میں قید رکھا گیا۔ وہ چھوٹے بچوں سمیت جیل کے چکر کاٹا کرتی۔

آخر کار اس عورت کو شہید کرد یا گیا۔ افسوس کہ اس خون ناحق کو بارہ برس بیت چکے ہیں۔ مگر محترمہ کے قتل کا سراغ نہیں لگ سکا۔ اس سانحے کے کچھ ماہ بعد ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ مرکز میں اور صوبوں میں بھی۔ ایوان صدر میں آصف زردای براجمان رہے۔ مگر بی بی کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ تحقیقات تو ضرور ہوئیں البتہ نتائج قوم کے سامنے نہ آسکے۔ ہر سال جب محترمہ کی برسی منائی جاتی ہے تو ان کے قتل کا سراغ لگانے کا مطالبہ دہرایا جاتا ہے۔

یہ باتیں سن کر خیال آتا ہے کہ ہم نے اس ملک میں سراغ لگانے کی روایت ہی کب ڈالی ہے؟ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی مارکر شہید کر دیا گیا۔ ان کے قاتل کو موقع پر ہی ہلاک کر کے اصل قاتلوں تک پہنچنے کا راستہ بند کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا اور بنگلہ دیش بن گیا۔ بچے کھچے پاکستان میں حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی رہیں۔ انتخابی نتائج چرائے جاتے رہے۔ لیکن آج تک ہم نے کسی قومی سانحے کا سراغ لگانے کی زحمت نہیں کی۔

ہمیں تو خیر اس بات کا سراغ لگانے کی بھی توفیق نہیں سکی تھی کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو آخری لمحات میں کھٹارا ایمبولینس فراہم کرنے کاذمہ دار کون تھا؟ چند میل چلنے کے بعد جس کا پٹرول ختم ہو گیا اور انجن خراب ہو گیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ قائد کے چہرے پر مکھیاں بھنبھناتی رہیں۔ لیکن قائد میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ہاتھ ہلا کر انہیں ہٹا سکیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ ہمارا خیال تھا کہ ابھی چند ہی لمحوں میں دوسری ایمبولینس آ ن پہنچے گی۔ مگر یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ اور انتظار طویل تر ہوتا گیا۔

ہر سال جب 27 دسمبر آتا ہے تو تنقید ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقاتی رپورٹیں کیونکر سرد خانے کی نذر کر دی گئی ہیں؟ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ حمود الرحمن کمیشن، ایبٹ آباد کمیشن اور بہت سے دیگر کمیشنوں کی رپورٹوں کے ساتھ ہم یہی سلوک کرنے کے عادی ہیں۔ کچھ برسوں سے ملک میں جمہوریت کے ساتھ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، بے نظیر بھٹو کی کمی نہایت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ خیال آتا ہے کہ محترمہ زندہ ہوتیں تو ملکی سیاست کا رخ مختلف ہوتا۔

ایک تجربہ کار سیاسی رہنما کو کھو دینا بلاشبہ ایک قومی نقصان تھا۔ جس کی تلافی آج تک ممکن نہیں ہو سکی۔ پھر خیال آتا ہے کہ جو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے، ان کا نوحہ کیا کریں۔ جو زندہ سلامت ہیں ہم تو انہیں بھی قومی منظر نامے سے ہٹانے کے لئے کوشاں ہیں۔ سال کا یہ آخری مہینہ ہمیں اپنے ماضی (اور گریبان) میں جھانکنے کا درس دیتا ہے۔ اس مہینے میں ہم نے محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی سیاسی رہنما کو کھو دیا تھا۔

اس مہینے میں ہم نے پاکستان کا ایک بازو (مشرقی پاکستان ) کھو دیا تھا۔ اسی مہینے میں ہم نے آرمی پبلک سکول پشاور کے سینکڑوں معصوموں کو کھو دیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ ان سانحات کے ذمہ داروں کا تعین آج تک نہیں ہو سکا۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے بیشتر قومی سانحات سے سبق لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ہم آج بھی انہی راہوں کے مسافر ہیں جن پر چل کر ہم ان حادثات سے دوچار ہوئے تھے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کی توفیق دے تاکہ قومی سانحات اور حادثات کا یہ سلسلہ تھم سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments