کئی چاند تھے سرِآسمان


وزیرخانم کی پیدائش 1811 میں ہوئی۔ پندرہ برس کی تھیں کہ ان کی ماں اصغری کا انتقال ہو گیا۔ وزیرخانم کی پہلی شادی ایڈورڈ مارسٹن بلیک (کیپٹن اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ) سے ہوئی اوران کے ہاں دو بچوں کی ولادت ہوئی۔ بیٹا مارٹن بلیک عرف امیر مرزا کہلایا، جبکہ بیٹی سوفیہ مسیح جان عرف بادشاہ بیگم عرف مس خفی کہلائی۔ مارچ 1830 میں مارسٹن بلیک ایک بلوے میں مارا گیا۔ وزیرخانم کی عمر اس وقت محض 19 برس تھی۔

ایڈورڈ مارسٹن بلیک کی بے وقت موت کے بعد غمزدہ وزیرخانم، نواب شمس الدین احمد والی فیروزپور جھرکہ لوہارو کا محبت بھرا پیام پا کر، ان کے ساتھ رہنے کو تیار ہوئیں۔ یہ 1830 کا آخر ہے۔ اس فیصلے سے پہلے انہوں نے پنڈت نند کشور سے فال نکالنے کی درخواست کی۔ فال دیوانِ حافظ سے نکالی گئی، جو حسب منشا نکلی۔ اس تعلق کے نتیجے میں 1831 میں ان کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ جس کا نام نواب مرزا رکھا گیا جنہوں نے اپنی والدہ کا تجویز کردہ تخلص “داغ” اختیار کیا۔ آج نواب مرزا خان داغ کا نام اردو زبان کے مستند شعراٴ و اساتذہ میں شامل ہے۔ نواب شمس الدین احمد، 26 برس کی عمر میں 1835ء میں ولیم فریزر (ریزیڈنٹ) کے قتل کے الزام کے تحت پھانسی چڑھا دیے گئے۔

1842 میں وزیر خانم کا نکاح آغا مرزا تراب علی سے ہوا۔ 1843کے آغاز میں ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا اس کا نام شاہ محمد آغا مرزا رکھا گیا۔ اسی برس نومبر کے مہینے میں آغا تراب علی ایک تجارتی سفر سے واپسی پر مقام قائم گنج سے کچھ دور ٹھگوں کی سفاکی کا شکار ہوئے۔

مرزا محمد سلطان فتح الملک شاہ بہادر عرف مرزا غلام فخرالدین عرف میرزا فخرو، محمد سراج الدین بہادر شاہ کے چوتھے بیٹے تھے۔ ان کی پہلی بیوی کا اِنتقال ہو چکا تھا۔ پہلی شادی سے ان کی ایک بیٹی تھی۔ ان کی عمربتیس چونتیس برس تھی جب وہ وزیر خانم کے نادیدہ عشق میں گرفتار ہوئے۔ دہلی کے مشہور نقاش اُستاد غلام علی خان سے انہوں نے چھوٹی بیگم (وزیرخانم) کی تصویر کی فرمائش کی۔ غلام علی خان کے والد استاد مظہر علی خان کو عمارتوں کی تصویریں بنانے میں ید ِطولیٰ حاصل تھا۔ انہوں نے پتہ لگایا کہ وزیر بیگم کی کوئی پرانی تصویر تھی جو کسی انگریز نے خرید لی تھی۔ لیکن اس تصویر کی ایک ناقص نقل پرانی اشیاء کے ایک تاجر کے ہاں موجود ہے۔ میاں مظہر نے اس تصویر کو 20 روپے میں خرید کر شاگردوں کو دیا کہ صاحب شبیہ کی عمر میں کچھ اضافہ کر کے ایک جدید تصویر بنائیں اور پھر خود اس تصویر (جسے وہ خود دیکھ کر مبہوت رہ گئے تھے ) کی نوک پلک سنواری۔ اس تصویر نے مرزا فخرومحمد کے دل میں وزیر بیگم کی محبت کو فزوں تر کیا اور1845ء جنوری میں یہ شادی ہونا طے پائی۔ اس شادی کے نتیجے میں وزیر خانم کو بارگاہ خسروی سے شوکت محل کا خطاب عطا ہوا۔ اکتوبر 1845ء میں وزیر خانم کے ہاں ایک بیٹے نے جنم لیا جس کا نام شاہی خاندان میں میرزا خورشید عالم درج ہوا اور خورشید مرزا پیار کا نام قرار پایا۔

میرزا خورشید عالم دس برس کے جبکہ شاہ محمدآغا کا پندھرواں برس تھا کہ 9 جولائی 1856کے دن اگلی صبح کے چھ بجتے بجتے کثرت استفراغ سے مرزا فخرومحمد کی روح عالم بالا کو پرواز کر گئی۔ یہ موت اور ہندوستان کی بادشاہت کاخاتمہ گویا کہ ایک ہی المیے کے دو سانحات تھے۔ مرزا غلام فخرالدین عرف میرزا فخرو کی اچانک موت کے بعد بچی کھچی بادشاہت کی محلانہ سازشوں کے نتیجے میں شوکت محل، وزیرخانم عرف چھوٹی بیگم، المتخلص زہرہ دہلوی والدہٴ نواب مرزا خان داغ دہلوی کا قلعے سے تین کپڑوں میں نکلنا، اک نا گفتہ با حسرتِ ناتمام سے عبارت ہے۔ ذہین، محبوب، بے باک، سحرانگیز، شاعرانہ مزاج کی حامل، جنس و شباب کے بھرپور شعور سے مالامال، دلآرائی و محبوبیت، خودبینی و خود شناسسائی اور تانیثیت کی دانائی سے آراستہ و پیراستہ، بے مثال ملکوتی حسن کی مالک شخصیت جسے حاصل کرنے کی تمنا میں نہ جانے کتنے دل غرقاب ہوئے اور جس کو اپنانے کی حسر ت دل میں لئے ولئم فریزر بھی مارا گیا، یوں دلگرفتہ اس کوچے سے نکلی کہ فلک کی بے حسی اور زمانے کی کٹھورتا پر ماتم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ 822 صفحات پر محیط ناول کا آخری پیراگراف ملاحظہ فرمائیے :

“اگلے دن مغرب کے بعد قلع مبارک کے لاہوری دروازے سے ایک چھوٹا سا قافلہ باہر نکلا۔ ایک پالکی میں وزیر، ایک بہل پر اس کا اثاث البیت، اور پالکی کے دائیں بائیں گھوڑوں پر نواب مرزا خان اور خورشید میرزا۔ دونوں کی پشت سیدھی اور گردن تنی ہوئی تھی۔ محافظ خانے والوں نے روکنے کے لئے ہاتھ پھیلائے تو میرزا خورشید عالم نے ایک ایک مٹھی اٹھنیاں چونیاں دونوں طرف لٹائیں اور یوں ہی سر اٹھائے ہوئے نکل گئے۔ ان کے چہرے ہر طرح کے تاثر سے عاری تھے لیکن پالکی کے بھاری پردوں کے پیچھے چادر میں لپٹی اور سر کو جھکائے بیٹھی ہوئی وزیر خانم کو کچھ نظر نہ آتا تھا۔ تمام شد۔ “

مگر معاملہٴ جہاں بانی یوں کہاں تمام شد ہوتا ہے۔ جس طرح کمال اپنی تابناکی سے اک عالم منور کرتا ہے اسی طرح زوال اپنی تاریکی سے سلسلہٴ روز و شب کو سیہ تر کرتا اپنی دلکی چال چلے جاتا ہے۔ اور پھر ہندوستان نے یہ بھی دیکھا َکہ “1835 کے سکوں پر بادشاہ دہلی کے بجائے انگریز بادشاہ ولیئم چہارم کا نام اور چہرہ دیا گیا۔ اور 1840 کے سکوں پر ملکہ وکٹوریہ نمودار ہوئیں، اب یہی سکے ہر جگہ متداول تھے۔ ” “1856 کا سال شروع ہوتے ہوتے سب سے بڑا سانحہ انتزاع سلطنت اودھ کا تھا۔ 7 فروری 1856 کو انگریز فوجیں لکھنوٴ میں داخل ہو گئیں۔ بادشاہ کو مسلح محافظوں کے گھیرے میں اور بڑی ایزا کے ساتھ پہلے الہٰ آباد اور پھر کلکتہ لے جایا گیا۔ معزول بادشاہ نے اپنی مثنوی” حزن اختر “میں اپنا حال لکھا۔ ” قدر بلگرامی کو غالب نے 23 فروری 1865 میں لکھا، “تباہیٴ ریاست اودھ نے، با آنکہ بیگانہٴ محض ہوں، مجھ کو بھی افسردہ دل کر دیا۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ سخت نا انصاف ہیں وہ اہل ہند جو افسرہ دل نہ ہوئے ہوں گے۔ اللہ ہی اللہ ہے۔ “

تاریخ کے اس المناک باب تک آتے آتے، اس نہایت مضبوط ومربوط ناول میں 1793 سے لے کر 1856 کی تاریخ کے ہزارہا گوشے بے نقاب ہوتے ہیں۔ 1857اور 1947 کے تاریخی سانحات اور ان کے نتائج پر سوچنے کے لئے مصنف آپ کو آزادی دیتا ہے اور پھر اسی معروضی تسلسل کے ساتھ داستان شروع کرتا ہے جو اگر اور کچھ بھی نہیں تو بھی زوال وقت کی زد میں آئے ہزاروں میں سے ایک بدنصیب خاندان کی دلسوز کہانی کے طور پر یادگار ہے جسے باد سموم ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑائے پھری۔ اور زمینی ہجرتوں کے اس قاتل سلسلے کے اسیر اس خاندان کا کچھ بچا بھی تو ایک خون تھوکتی نشانی بچی جسے حالات نے وہاں لا پٹخا کہ جہاں جینے کے سب اسباب معدوم ہوئے جاتے تھے۔ ایسی اُفتادِ زمانہ کے باوصف اپنی جان سے بے زار اس نحیف کردارکو احساس تھا کہ برٹش لائبریری میں موجود وزیرخانم کی تصویر پر صرف اور صرف اسی کا حق ہے۔ تہذیب کے اس شجرسایہ دار کے پات پات اس طرح بکھرے کہ کسی کواپنا حدود و اربعہ یا نقشہ یاد نہ رہا۔ کیا ستم ہے کہ وقت کی بے مہر ڈال سے ٹوٹے، خزاوٴں کے بے مروّت ہاتھوں سے جھڑے پتوں کی طرح بکھرے، دولت و حشمت اور مال و ملکیت کے وارث اجنبی شہروں میں اپنا اتہ پتہ کھوجتے، بھٹکتے پھرے اور انہی کے پاس دردِ دل کی دوا ڈھونڈتے رہے جن سے دردِ دل پایا تھا۔ لرزہ سا طاری ہو جاتا ہے کہ آسمان کیسے کیسے امتحان لیتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments