کئی چاند تھے سرِآسمان


آئیے اب دوسری صدی کا احوال کرتے ہیں، جسے ہجرتوں کی صدی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ گو کہ اس حصے کو فاروقی صاحب نے ناول کے سر آغاز میں رکھا ہے اور کتاب زمانہٴ حال سے ماضی کی طرف کھلتی ہے۔ مگر میں نے یہ ریویو لکھتے ہوئے زمانہٴ ماضی سے حال کی طرف سفر کیا ہے۔ فاضل مصنف ناول کے دوسرے باب “سوفیہ” (ڈاکٹر خلیل احمد فاروقی، ماہر امراض چشم کی یادداشتوں سے ) کے صفحہ نمبر 20 پر رقم طراز ہیں۔ “وسیم جعفری کئی سال سے شمالی ہندوستان میں اٹھارویں انیسویں صدی کے بعض ایسے خاندانوں اور گھرانوں کے حالات ڈھونڈنے میں مصروف تھے جو اپنے زمانے میں تو بہت نمایاں تھے لیکن اب وقت نے انھیں اوراق کے مزبلے میں داب دیا تھا اور ان کے نام اب اگر کسی کو معلوم تھے تو وہ محض چند اختصاصی مورخین ہی تھے۔ ان میں بعض تو انگریزوں کی سرپرستی میں خوب پھلے پھولے اور آئندہ یا تو اپنے ہی نا اہل اخلاف کی بنا پر تباہ یا گمنام ہوئے، اور بعض ایسے تھے جو 1857کے پہلے یا بعد حاکمان فرنگ کی تیغ جور اورستم عدل نما کی ترازو پر تلے اور کم وزن پائے گئے۔ انہیں امید تھی کہ ان کی داستان وہ کبھی قلمبند بھی کرسکیں گے۔ “

وزیر خانم اور مارسٹن بلیک کے دو بچوں کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ بیٹے کا نام مارٹن بلیک عرف امیر مرزا جبکہ بیٹی کا نام سوفیہ مسیح جان تھا جبکہ عرفیت بادشاہ بیگم اور مس خفی تھی۔ مارسٹن بلیک کی بے وقت موت کے بعد ان کی تربیت کی ذمے داری مارسٹن بلیک کی سخت گیر پھوپھی ذاد بہن ایبی ٹنڈل اور اس کے بھائی ولئم ٹنڈل نے لے لی تھی مگر وزیر خانم کواپنے بچوں سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ اس کی بنیادی وجہ بچوں کو مسیحی تعلیم اور طور طریقے سکھانا تھے۔

سوفیہ کی شادی الیگزینڈر اسکنر المعروف بہ ایلک سے ہوئی۔ سوفیہ اور الیگزینڈر کے دو بچے ہوئے۔ بیٹے کا نام بہادر میرزا اور بیٹی کا نام شارلٹ (احمدی بیگم) رکھا گیا۔ 1946 تک ان کی اولادیں جے پور میں خوشحال زندگی بسر کر رہی تھیں۔ سوفیہ کی دوسری شادی، امیر یا امیراللہ سے ہوئی۔ بیٹے کا نام مصنف کو معلوم نہیں۔ مگر اس بیٹے کے بیٹے کا نام حسیب اللہ قریشی تھا، جو 1890ء کے قریب پیدا ہوا۔ حسیب اللہ قریشی بعد میں سلیم جعفر کے نام سے ادیب اور نقاد ہوئے۔ کراچی میں ان کا اِنتقال ہوا۔ انہوں نے کچھ عرصہ میرپورخاص (سندھ) میں پروفیسر کرار حسین کے ساتھ بھی کام کیا۔

سلیم جعفر کی واحد اولاد ان کے بیٹے اعجازاحمد قریشی تھے۔ جن کا قلمی نام شمیم جعفرتھا۔ ان کی شادی ایک اینگلوانڈین خاتون Hermione Mortimer کی اکلوتی بیٹی Perdita Moftimer سے ہوئی۔ شمیم جعفر، بنگلہ دیش میں چائے کے باغ میں منیجر تھے۔ مزدوروں اور مالکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے ایک جھگڑے کو رفع دفع کروایا تو مزدوروں نے اس عمدگی سے اپنا دفاع کرنے پر محبت سے انہیں کاندھوں پہ اُٹھا لیا۔ انہیں کاندھے پہ اٹھانے والے مزدوروں کا پیر رپٹا تووہ توازن قائم نہ رکھ سکے اور شمیم جعفر جو گرے تو ایک کھائی میں گرتے چلے گئے۔ ان کے سر میں ایسی چوٹ آئی کہ یادداشت کھو بیٹھے۔ تب مجبوراً نوکری چھوڑ باپ کے پاس میرپورخاص آ گئے۔ خود کو لاٹ صاحب اب تک سمجھتے سو سج بن کر گھر سے نکلتے۔ ان کے حلئے اور وضع قطع کی وجہ سے ان کا نام “ٹائم بابو” پڑ گیا۔

شمیم صاحب کی دیکھ بھال ان کے باپ سلیم جعفر اور بیوی نے کی مگر پھر سلیم جعفر ایک کار حادثے میں کولہے کی ہڈی تڑوا بیٹھے اور نہایت دردناک حالت میں 1959ء میں اِنتقال کیا۔ سلیم جعفر نے شمیم جعفر کے لیے وصیت نامے میں بہت کچھ اِنتظام کر دیا تھا اور ضروری کاغذات “محمد لطیف گاندھی” کے حوالے کر دیے تھے۔ شمیم جعفر کے بیٹے کا نام وسیم جعفر تھا مگر بیٹی جو ذہنی اور جسمانی طور پر معذور تھی، کا نام مصنف کو معلوم نہیں ہوسکا۔ پر ڈیٹا اپنے مخبوط الحواس شوہر اور بیٹے اور بیٹی کو لے کر اِنگلستان منتقل ہونا چاہتی تھیں مگر باپ کے بعد شمیم جعفر کا بلاوا آ گیا۔ اس کے بعد پرڈیٹا دونوں بچوں کے ساتھ انگلستان آ گئیں۔ جہاں وسیم جعفرنے لندن اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈی SOAS) ) سے اُردو اور فارسی سیکھی۔ اور لندن کی “برٹش لائبریری” میں موجود وزیرخانم کی تصویر وزیرخانم کے واحد مرد وارث کی حیثیت سے اپنا حق سمجھ کر “چوری” کی۔ یہ وہی تصویر تھی جو دہلی کے مشہور نقاش اُستاد غلام علی خان کے والد استاد مظہر علی خان نے بنائی تھی۔ اب کون سمجھے اور سمجھائے کہ بنی ٹھنی، من موہنی، کشن گڈھ کی رادھا اور وزیر خانم میں کیا قدر مشترک تھی یا ان کی تصویروں میں کیا مماثلت ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ وسیم جعفر نے لندن میں بتاریخ 19 ستمبر کوجان جان آفرین کے سپرد کی۔ مگر سن وفات درج نہیں ہے۔ مگر گمان غالب ہے کہ یہ بیسویں صدی کا آخری عشرہ ہو سکتا ہے۔

اس ناول کے لب و لہجہ کی دلکشی و امارت، تخلیقی وفور کا جمالیاتی بیان، مختلف النوع پیشے، اشیاٴ اور ہنرمند افراد کی مہارت سازی کے احوال کی تعریف کرنے کے لئے لفظوں کا چناوٴ نہایت مشکل امر ہے۔ زبان کی دلآویزی و جاذبیت اور بیان کی سلاست ومعروضیت اپنی جگہ، زندگی کی سیکڑوں شکلوں کو منعکس کرنے اور فنون لطیفہ کے عروج کو بیان کے لئے جو الفاظ ضابطہٴ تحریر میں لائے گئے ہیں اس کی داد کے لئے لفظ کہاں سے لاوٴں۔ پھولوں، پتیوں، ٹہنیوں، بُوٹیوں، رنگوں یا پتھروں کی پراسراریت کا ذکر ہو، علوم کے حصول کے محبت بھرے راستوں اور حکمت کا بیان ہو، رنگ سازی و قالین بافی میں رنگوں اور تشبیہات میں پنہاں رمز کا معاملہ ہو، راگ، موسیقی اور سُروں کا جہاں ہو، قرینہٴ نشست و برخاست ہو، رشتے داری و قرابت داری، عشق و محبت کی بے تابی، وظیفۂ حیات کا ذکر، مشتاق فنکاروں کے موئے قلم کی تابناکی، اہلِ ہندوستان کی جامہ زیبی، آداب محفل و معاشرت، شائستگی، جمالیات، نقشگری، مصوری، شاعری، منطق، حافظہ، رکھ رکھاوٴ، بودوباش، موسیقی، محاسن علم و ادب، تہذیبی رویے، ہنرمندیوں کا عروج، لباس و زیورات، آرائش و زیبائش، سماجی تعلقات، روابط و میلانات، آلات و اوزار، مینا کاری و دست کاریوں کے بے مثال نمونے غرضیکہ ہرایک موضوع نہایت چابکدستی اور مناسب ترین الفاظ کے ملاپ سے قلمبند ہوا ہے۔

اردو شاعری کے بام عروج پر پہنچے شعراٴ مثلا، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد ملک الشعراٴ شیخ محمد ابراہیم ذوق اور مرزا اسداللہ خان غالب سمیت کئی کردار نظروں کے سامنے پھرنے لگتے ہیں۔ ولئم فریزر کی نعش پر مرزا فتح اللہ بیگ خان کا بین “ہائے شمس الدین نے تجھے نہ چھوڑا” اور ولئم فریزر کے قاتل کو بددُعا دیتے ہوئے یہ کہنا کہ “کریم خان قاتل ہے فریزر کا”، کے علاوہ شاعروں کی آپس کی چپقلش اور برطانوی راج کی تابعداری کا ایک رخ دکھاتا ہے۔ ناول میں سکھ کا مثبت کرداراُجاگر کیا گیا ہے۔ منشی گھنشیام لال عاصی کو کمزور شاعر ثابت کرنے کے لئے کی گئی عصبیت کو شدومد سے نامنظور کرنے والے واقعے کے بیان کے علاوہ ہندو مسلم مذہبی رواداری اس ایک جملے سے بھی عیاں ہے کہ “شاہ عالم کے فرمان پر اکا دکا گائے کا ذبیحہ ہوتا تھا۔ ” انگریزوں کے ساتھ ہندوستانی عورتوں کی شادیاں اور خانگی زندگی کا احوال، غرض یہ کہ اس زمانے کے ہندوستان کی زندگی کے ہر ہر پہلو کو ناول میں سمویا گیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments