بندیا رانا: ایک ذہین، باشعور اور بہادر خواجہ سرا جس نے ہار نہیں مانی


بندیا رانا نا صرف کراچی بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بسنے والے خواجہ سراؤں کے حقوق بحالی کے لیے ایک ایسا کردار ہیں جنہوں نے کٹھن سے کٹھن حالات میں اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ انھوں نے 2013 ء کے انتخابات میں کراچی سے حصہ لیا، مخالفین ان کے کاغذات نام زدگی منظور ہونے کے بعد اس قدر خوف زدہ ہو گئے کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کے علاوہ ان کی انتخابی مہم میں ہر طرح کی رکاوٹ ڈالی لیکن وہ اپنے ارادوں پر ڈٹی رہیں۔

خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ کا مسئلہ ہو یا خاندان میں ان کی وراثت کا وہ ان مسائل کے حل کے لیے شب و روز مصروف عمل رہیں۔ ہمارے ساتھی اختر بلوچ جو تحقیق کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں نے بندیا رانا کا ایک طویل انٹرویو کیا بعد ازاں انھوں نے ”ہم سب“ کے لیے انٹرویو کے مسودے میں سے ایک انتخاب ترتیب دیا جو قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔ یہ صرف ایک انٹرویو نہیں بلکہ ایک طرح کی مختصر سوانح عمری ہے۔ ادارہ ”ہم سب“

***       ***

س: آپ اپنے نام، پیدائش اور بچپن کے حالات کے بارے میں کچھ بتائیے۔

ج: میرا نام بندیا رانا ہے۔ جب کسی گھر میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو گھر والوں کو نئے پیدا ہونے والے بچے سے متعلق یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آنے والے دنوں میں ہمارے بچے کے جسم میں کیا کیا تبدیلیاں رونماں ہوں گی۔ میرے والد نے میرا نام ”عبدالعزیز“ رکھا۔ میری پیدائش لیاری میں ہوئی۔ اس دور میں مجھے روحانی طور پر محسوس ہوتا تھا کہ اپنوں کے علاوہ بھی میرا کوئی اور ہے، گھر میں مجھے سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش تھا وہ یہ تھا کہ اگر ہمارے گھر کوئی عزیز یا رشتہ دار ملنے آجاتے تو دعا سلام کے بعد مجھ سے کہاجاتا کہ تم دوسرے کمرے میں چلے جاؤ، یہ عمل مجھے بہت عجیب سا محسوس ہوتا تھا۔ مجھے اپنی بہنوں کے ساتھ کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ میری بہنوں کی تعداد سات تھی جبکہ آٹھویں میں خود تھی۔ میں کچن کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی تھی۔

میرے تین بھائی بھی تھے، میرے بھائی اور میرے ابو جب گھر سے باہر چلے جاتے تو میں اپنی بہنوں کی سرخی لگا لیتی اور ان کا دوپٹہ اوڑھ لیتی تھی۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ میرا کوئی نہ کوئی بھائی باہر سے آجاتا اور وہ مجھے اس حالت میں دیکھ لیتا بہت ڈانٹتا۔ ہمارے اس خطے یعنی انڈیا اور پاکستان میں یہ ایک ثقافتی روایت رہی ہے کہ جب کسی گھر میں کوئی بچہ پیدا ہو یا شادی بیاہ کے موقع پر خواجہ سرا خیرات لینے کی غرض سے آتے ہیں، سو جب میرے بھائی کی شادی ہوئی اور اس کی دلہن ہم پنجاب سے لے کر آئے تو ہمارے گھر میں بھی خواجہ سرا بدھائی لینے آئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں ان کے ساتھ کیوں بیٹھ کر تالیاں بجانے لگی۔

س: یہ کس سن کی بات ہے؟

ج: ابھی تو میری عمر پچپن سال ہے، غالباً اس وقت میری عمر بارہ یا تیرہ سال تھی۔ میں ان کے سامنے بیٹھ گئی۔ سارے گھر والے مجھے غور سے دیکھنے لگے کہ یہ کیا ہے۔ میرے والد اور والدہ نے کہا کہ ٹھیک ہے یہ ایک خوشی کا موقع ہے، اگر ایسے میں یہ ان کے ساتھ بیٹھ گیا ہے تو کیا ہوگیا اس کے بعد ان لوگوں نے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ اس وقت مجھے بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے میری ماں کا پیار مل گیا ہو۔ ایک اور بات بچپن میں جب میں گھر سے باہر کوئی چیز لینے جاتی تو میرے ساتھ کم از کم ایک بندہ ضرور ہوتا تھا۔ جبکہ میرے دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ اس قسم کے معاملات نہیں ہوتے تھے۔

میری ابتدائی تعلیم سکھر میں ہوئی۔ پرانا سکھر میں ایک سرکاری اسکول ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرکاری اسکول انتہائی خستہ حال ہوتے تھے۔ ہم پیڑوں کی چھاؤں تلے بیٹھ کر پڑھتے تھے، بچے بھی اور بچیاں بھی۔ میری دوستی بچیوں کے ساتھ ہوتی تھی۔ مجھے جیب خرچ کے لیے اچھے خاصے پیسے بھی میرے والد دیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں لڑکے مجھ سے لڑتے تھے۔ وہ مجھ سے کہتے تھے کہ تم ہمارے ساتھ بیٹھو، تم لڑکیوں کے ساتھ کیوں بیٹھتے ہو اور ان کو تو کھلاتے پلاتے ہو لیکن ہمیں کیوں نہیں کھلاتے پلاتے۔

جب میں مدرسے پڑھنے جاتی تھی تو وہاں مجھے ”کٹ“ (مار) بہت زیادہ پڑتی تھی۔ یہ ”کٹ“ مجھے میری مستیوں، حرکتوں اور بات کرنے کے انداز پر پڑتی تھی میری یہ حرکتیں مولوی صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔ اس دور کے مولوی صاحبان بھی بہت سخت ہوتے تھے۔ ان لوگوں نے ایک بڑی سی لاٹھی رکھی ہوتی تھی۔ مارتے وقت وہ کبھی نہیں سوچتے تھے کہ یہ لاٹھی بازو، پیٹھ یا کمر پر لگ رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود استاد کا بڑا احترام کیاجاتا تھا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ہم واپس کراچی آگئے۔

میرے بھائی کی شادی ہوئی، ایک سال کے بعد میرے بھائی کے بیٹا ہوا۔ کچھ خواجہ سرا خیرات لینے کی غرض سے آئے، میں ان کے ساتھ بیٹھی تو باتوں باتوں میں، میں نے ان کا پتا معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ تیسری گلی میں ان کے گروکا ڈیرہ ہے وہ وہاں رہتے ہیں۔ اس کے بعد جب میرے گھر والد اور بھائی موجود نہیں ہوتے تھے تو میں ان کے پاس چلی جاتی تھی اور کبھی آدھا دن بھی وہاں گزارتی۔ جب میرے گھروالوں کو اس بات کا علم ہوا تو مجھے میرے گھر میں مار پڑنا شروع ہوگئی، جب میں گرو کے ڈیرے پر جاتی تو مجھے وہاں پیار ملتا، جس کی وجہ سے میرا رجحان ان کی طرف ہونا شروع ہوگیا۔

کیونکہ بچے کو جہاں سے پیار ملے بچے کا رجحان بھی اسی طرف ہوگا۔ جب میری عمر پندرہ اور سترہ سال کے درمیان ہوئی تو ایک دن میں نے اپنے گھروالوں کو صاف صاف بتادیا کہ میں اب ان لوگوں کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ سن کر مجھے میرے گھر والوں نے ان کے پاس آنے جانے کی اجازت دے دی اور اس کے بعد کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ میں گھروالوں کی اجازت سے ایک دو راتیں ان کے پاس بھی رہ لیتی تھی۔

رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ میں اپنے گھر میں ہفتے میں صرف دو تین دن آتی تھی اور زیادہ وقت ان کے پاس رہنے لگی۔ وہاں مجھے ہر طرح کی چھوٹ اور آزادی ملتی تھی اور ہم لپ اسٹک لگا کر اور نورجہاں کی آواز میں گانے چلا کر مو ج مستیاں کرتے تھے۔ وہ لوگ میری اس حد تک عزت کرتے تھے کہ مجھے باجی کہہ کر مخاطب کرتے جبکہ میرے اپنے گھر میں اس قسم کا ماحول نہیں تھا۔ گرو کے یہاں ڈھولک بجاتے ہوئے گھنگھرو باندھ کر ناچا گایا جاتاتھا، اس میں مجھے بہت زیادہ مزہ آتا تھا۔

ویسے مجھے اپنے آپ سے آج تک ایک گلہ یہ بھی ہے کہ مجھے اب تک ناچنا نہیں آیا۔ کچھ عرصے بعدمجھے میرے والد نے محمود آباد اسلم کالونی میں ایک فلیٹ کرائے پر لے دیا۔ ایک کام والی نوکرانی رکھی میرے ساتھ میرے چھوٹے بھائی کو بھی کردیا اور ایک قریبی اسکول میں اس کا داخلہ بھی کروادیا، اس وقت میری عمر سترہ سال ہوچکی تھی۔ صبح سویرے کام والی آجاتی تھی جو میرے بھائی کو تیار کرکے اسکول چھوڑ آتی، اور واپس بھی لے آتی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments