’میری اہلیہ نے مجھے دس سال تک جنسی ہوس کا نشانہ بنایا‘


موبائل پر ایک جوڑا

‘میں نے بات کرنا شروع کی اور بس نہیں کیا’

جب آپ اس طرح کی صورتحال میں ہوتے ہیں تو آپ کو احساس نہیں ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ آپ کو راستہ نظر نہیں آتا ہے اور آپ کسی کی نہیں سنتے ہیں۔ آپ یہ تک نہیں سوچتے کہ آپ کے فرار ہونے کا راستہ ہے، یہ بالکل مایوسی ہے۔

میں نے وہ کام کیے جو میں نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے اس کی عادت پڑ گئی تھی۔ میں ہمیشہ سب کا احسان مند رہا اور کبھی بھی خود کا نہیں ہو سکا۔ میں اپنے دادا دادی نانا نانی اور والدین کا فرمانبردار رہا میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ آپ کو رشتے کی خاطر سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ اور اس لیے میں نے اپنے مفادات اور خود کو بھی قربان کر دیا۔ اس وقت میرے لیے یہ معمول کی بات تھی۔ اور پھر سب کچھ اور بھی خراب ہوتا گیا۔

ابتدا میں ہی مجھے یہ پسند نہیں تھا لیکن بالآخر تعلقات کے آخری تین چار سالوں کے بعد سیکس کے خیال سے مجھے خوف کے دورے آنے لگتے۔ یہ اسی وقت ہوتا جب کبھی مجھے پکڑ لیتی اور زبردستی کرنے میں کامیاب ہوجاتی۔

جب میں گھبراتا تو میں اسے پیچھے دھکیل دیتا، چھپ جاتا، بھاگتا، گھر سے بھاگ جاتا، یا کم از کم کمرے سے تو بھاگ ہی جاتا تھا۔ ایرا نے کہنا تھا کہ میری وجہ سے ہم میں سیکس کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہر ایک دو سال بعد وہ مجھے ماہر جنسی امراض کے پاس لے جاتی۔ جب بھی میں کہتا کہ مجھے یہ چیز پسند نہیں اور میں اسے (سیکس کو) بالکل پسند نہیں کرتا تو مجھے کہا جاتا کہ میں ہی ساری پریشانی ہوں۔ میں زیادتی اور ریپ پر خاموش رہا۔

اور ایرا کے لیے ڈاکٹروں کے یہاں جانا اس کی بات کے ثبوت تھے۔ میں نے طلاق سے کچھ پہلے اس کے متعلق[تشدد کے بارے میں] بات کی۔ میں نے بات شروع کی تو رک ہی نہیں پا رہا تھا۔

‘مجھے کس طرح مدد اور چھٹکارا ملا’

یہ خزاں کا موسم تھا۔ میں تقریباً دو ہفتوں تک کھانسی 39 -40 ڈگری بخار میں بستر پر پڑا رہا۔ اس دوران کسی نے بھی مجھ سے ملاقات نہیں کی۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ میری زندگی بیکار ہے اور اگر میں مر بھی جاؤں تو کسی کو پتا نہیں چلے گا۔

یہ بصیرت افروز لمحہ تھا: خوف، ناگواری اور ناقابل یقین حد تک خود پر ترس آ رہا تھا۔ میں کسی کو بتانا چاہ رہا تھا لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ کسے بتاؤں اور کیسے بتاؤں۔ ایک بار میں اپنے والدین کے گھر اس وقت گیا تھا جب وہ وہاں نہیں تھے، صرف تنہائی کے لیے وہاں گیا۔ میں انٹرنیٹ پر سرفنگ کر رہا تھا اور ایک چیٹ میں شامل ہوگیا جو کسی اشتہار کی ونڈو سے نکل آيا تھا۔ وہاں سب کچھ بے نام تھا۔ جیسے آپ کو کوئی وجود ہی نہ ہو۔

یہ پہلا موقع تھا جب میں نے کبھی میرے ساتھ جو کچھ ہورہا تھا اس کے بارے میں کچھ کہا تھا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ زیادتی ہے لیکن پھر میں نے زیادہ سے زیادہ ‘نہیں’ کہنا شروع کیا۔

جب بھی مجھے اپنے اندر قوت کی ضرورت محسوس ہوتی تو میں ان دنوں کو یاد کرتا جب میں بیمار تھا۔ آخر کار مجھے ایک فیملی تھراپسٹ ملا جس نے میری مدد کی۔ اس دوران مجھے اور ایرا دونوں کو بات کرنے کا موقع دیا جاتا اور اسے مجھے بیچ میں ٹوکنے سے باز رکھا جاتا۔ اسی دوران پہلی بار میں نے زیادتی کی بات کی۔ وہ اس قدر غصے میں تھی کہ وہ چیخ پڑی کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔

بہر حال اس کے فورا بعد اس نے طلاق کی تجویز دی۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ یہ چاہتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ اس کی مجھے خاموش کرنے کی ایک کوشش تھی۔ میں جانتا تھا کہ مجھے دوسرا موقع نہیں ملے گا اور میں راضی ہوگیا۔ ایک دفتر میں قطار تھی لہذا ہم دوسرے دفتر گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ مجھے کر گزرنا جب تک کہ میرے پاس موقع ہے۔ اور ہم نے وہ حاصل کیا۔

جب میں نے ایک ماہ بعد طلاق کے کاغذات اٹھائے تو وہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار دن تھا۔ طلاق کے ایک دن بعد میں اس پر چیخ پڑا تھا: ‘تم میرا ریپ کر رہی تھی!’ اس نے کہا: ‘میں تمہارا ریپ کر رہی تھی تو کیا ہوا؟’

مجھے اس کا جواب اس وقت نہیں ملا اور آج تک نہیں پتا ہے۔ ایک طرح سے اس نے اعتراف کیا کہ اس نے کیا تھا لیکن اس کو اس نے ہنسی میں اڑا دیا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ واپس چلا گیا، نوکری چھوڑ دی اور کچھ ہفتوں تک گھر میں ہی رہا۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ باہر کہیں میری تلاش کر رہی ہے۔ پھر ایک دن وہ آئی اور اس نے دروازہ کھٹکھٹانا، اس پر لات مارنا اور چیخنا شروع کر دیا۔ ماں نے کہا کہ وہ ڈر گئی تھیں۔ میں نے خود پر ہی مسکرایا اور کہا: ‘ماں، آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔۔۔’

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp