’میری اہلیہ نے مجھے دس سال تک جنسی ہوس کا نشانہ بنایا‘


السٹریشن

یہ سمجھنا ضروری ہے: یہ آپ کو مار ڈالتا ہے

میں نے شواہد جمع نہیں کیے اور کسی کو نہیں بتایا۔

میں شاید اپنے والدین کو بتا سکتا تھا لیکن بچپن سے ہی میں جانتا تھا کہ وہ کوئی راز رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میں اپنے ساتھ ہونے والی چیزوں کے بارے میں اپنے دوستوں سے کس طرح بات کروں۔

میں امدادی گروپس کی تلاش میں تھا لیکن یوکرین میں وہ صرف خواتین کے لیے ہیں۔ آخر میں مجھے سان فرانسسکو سے تعلق رکھنے والے مردوں کو باہمی تعاون فراہم کرنے والا ایک آن لائن گروپ ملا۔

میں یوکرین میں جس پہلے ماہر نفسیات سے ملا اس نے میرا مذاق اڑایا: ‘یہ اس طرح نہیں ہوتا – وہ لڑکی ہے اور تم لڑکے ہو۔’ لہذا میں نے چھ ماہرین کو تبدیل کیا اور اب آخر کار مجھے مدد مل رہی ہے۔ آٹھ مہینے لگے اس سے پہلے کہ میں کسی کو اپنا ہاتھ پکڑنے دوں۔

مرد نفسیاتی مدد کیسے حاصل کرتے ہیں؟

سماجی کارکن میکس لیون نے بتایا کہ یوکرین میں فادرز کلب کی برادری میں نفسیاتی مدد کے گروپ قائم کیے گئے تھے لیکن یہ پہل زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکی۔ ان کے مطابق مرد ماہر نفسیات کے پاس جانے کو تیار نہیں تھے۔

لا اسٹراڈا یوکرین سے تعلق رکھنے والی الایونا کرییوولیاک کا کہنا ہے کہ مردوں نے اسی وقت مدد کے لیے کال کرنا شروع کیا جب لا اسٹراڈا ہاٹ لائن نے چوبیس گھنٹے کام کرنا شروع کیا۔ روایتی کاروباری اوقات میں مرد کال نہیں کر سکتے تھے۔

لیکن اب بھی مرد بنیادی طور پر گمنامی چاہتے ہیں اور وہ عوامی اداروں جیسے عدالتوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

بحران کی ماہر نفسیات اور سیکولوجسٹ یولیا کلائمینکو کہتی ہیں کہ مرد متاثرین کے لیے بدسلوکی سے نفسیاتی طور پر نکلنے کا عمل طویل ہوسکتا ہے۔ بہر طور معاشرہ ‘لڑکے نہیں روتے’ یا ‘مرد جسمانی طور پر مضبوط ہیں’ جیسے جملے سے مدد نہیں کرتا۔

جنسی، نفسیاتی یا جسمانی زیادتی کا شکار مرد معاشرے کے لیے غیر معمولی لگتا ہے۔ مز کلائمینکو کے مطابق پیچیدہ صدمے میں مبتلا مؤکلوں کو ان کی صنف یا عمر سے قطع نظر زیادہ عرصے تک کے لیے ان کے ‘اوسان بحال کیے جانے’ کی ضرورت ہے۔ میں نے اسے عدالت لے جانے پر غور کیا۔ لیکن وکیلوں کا کہنا تھا کہ اس میں تدارک کے طور پر روک تھام کا حکم ملنے کا امکان ہے۔ لیکن مجھے اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک لمبے عرصے سے میں صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ اس کا اعتراف کرے اور معافی مانگے۔

میں ابھی بھی کام پر نہیں جاتا ہوں اور میرے لیے ہر صبح بستر سے باہر نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میرے پاس جینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں اتنے سال کیا کرتا رہا۔ میں بس یہ جانتا ہوں کہ میرا کبھی رشتہ نہیں ہوگا اور کبھی اولاد نہیں ہوگی۔ میں نے خود سے ہار مان لی ہے۔

لیکن لعنت ہو کہ میں اتنے عرصے تک خاموش رہا اور اس کی وجہ سے اس طرح کی گڑبڑ ہوئی! ہوسکتا ہے کہ ابھی اسی طرح کی صورتحال میں کوئی شخص پھنسا اور وہ میری کہانی پڑھے۔

اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ: یہ ختم نہیں ہوگا، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا، یہ ایک حقیقی گندگی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور یہ آپ کی جان لے لے گی۔ اگر آپ اسے سمجھ لیتے ہیں، تو کم از کم آپ کے پاس اب بھی ایک موقع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp