سڈنی شیلڈن: خود کشی سے مقبول ترین فکشن رائٹر تک


Sidney Sheldon and his wife Alexandra (Photo by Stephen Shugerman/Getty Images)

”میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ میں اس قابل نہیں ہوں کہ میکس رچ کے ساتھ کام کر سکوں۔ وہ تو صرف میرے ساتھ ہمدردی کر رہا ہے۔“

خوف زدہ حوصلے اور نوجوان خوابوں کی لگی ضربوں نے ناکامیوں کے تمغے کو سینے سے لگائے رکھنے کی عادت سی ڈال دی تھی۔ انجام آخرکار یہ ہوا کہ جب میکس رچ اپنے دفتر میں سڈنی کا گانوں سمیت انتظار کر رہا تھا وہ بس میں بیٹھ کر شکاگو واپسی کے لیے روانہ ہوگیا۔ شاید اس دن سڈنی میکس رچ سے ملاقات کر لیتا تو آج اس کا نام بڑے نغمہ نگاروں میں ہوتا۔ ایک کیرئیر جنم لینے سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔

سڈنی ساری عمر اپنے دماغ کے اتار چڑھاؤ میں الجھا رہا۔ کبھی بغیر کسی وجہ کے پرامید مسرت میں گم ہوجاتا اور کبھی سارے روشن شگن اسے ایک دم اندھیرا لگنے لگتے۔ بہت بعد میں سڈنی جان سکا کہ مزاج کے اس اتار چڑھاؤ کی بنیادی وجہ ایک ناقابل علاج نفسیاتی عارضہ Manic depression تھا، جو دنیا کے اکثر ذہین دماغوں کو لاحق ہوتا ہے۔ ہر ذہانت اور قابلیت کی کچھ قیمت تو ادا کرنی پرتی ہی ہے۔

شکاگو میں بہت دنوں تک عامیانہ سی نوکریوں اور غیر ادبی کاموں میں خود کو مصروف رکھنا پہلے سے زیادہ مشکل ہوگیا تو اس نے لاس اینجلس کے لیے سامان باندھا۔ نیٹیلی اور اوٹو جو پچھلے ناکام تجربے سے خاصے حقیقت پسند ہوچکے تھے، انہوں نے بہ مشکل تین ہفتوں کے لیے جانے کی اجازت دی اس شرط پر کہ اگر یہ کامیابی تین ہفتوں تک نہ ملی تو وہ واپس لوٹ آئے گا۔

لاس اینجلس میں ایک سستے سے بورڈنگ ہاؤس میں، جہاں مصنف گلوکار اور ایکٹر بننے کی خاطر آئے نوجوانوں کا ایک ہجوم اکٹھا تھا، میں رہائش کا انتظام کر کے سڈنی نے قریبی اسٹوڈیو کا رخ کیا۔ اگلے تیزی سے ختم ہوتے دو ہفتوں میں وہ کسی بھی اسٹوڈیو کے مین ڈیسک سے آگے نہ بڑھ سکا۔ تیسرے ہفتے اوٹو کی طرف سے بھیجا واپسی کا ٹکٹ ناکامی کی عفریت بن کر اس کے حواسوں پر سوار ہوگیا۔ آخری تین دنوں میں دوستوں سے اسٹوڈیو ریڈر کے بارے میں جانا جو ہر اسٹوڈیو میں ناول اور ڈراموں کے خلاصے تیار کرنے کے لئے بھرتی کیے جاتے ہیں۔

اس خبر سے سڈنی کی ڈوبتی سانسیں کچھ بحال ہوئیں۔ سڈنی نے راتوں رات ایک کتاب کا خلاصہ تیار کیا اور مختلف اسٹوڈیوز کو روانہ کر دیا اس آس میں کہ جلد ہی اسے کسی بڑے اسٹوڈیو سے مستقل نوکری کے لیے بلا لیا جائے گا۔ یہ سڈنی کی بھول تھی کہ وہ کوئی بھی کام اتنی آسانی سے حاصل کر سکتا ہے اس کے باوجود کہ صرف اس کے ساتھ بورڈنگ میں بہت سارے اسٹوڈیو داخلے کے شوقین موجود تھے اور عظیم ستارے بننے کی کوشش میں ناکام بیٹھے تھے۔

سڈنی کو صبح دس بجے ایک کال تو ضرور آئی مگر بہت کٹھن شرائط کے ساتھ۔ جار سو صفحات کی کتاب شام چھ بجے تک مطالعہ کے بعد اس کا تیس صفحات کا خلاصہ ٹائپ کر کے پہنچانا تھا۔ یقینی طور پر اس ناممکن کام کو قبول کرنے کا نہ صرف سڈنی نے وعدہ کیا بلکہ حقیقتاً اس ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا۔ کس طرح کیا یہ الگ مگر دل چسپ کہانی ہے مگر اتنی سخت اور ناممکن مہم کو کامیاب کرنے پر بھی وہ مستقل نوکری اسے نہ مل سکی۔ اور وہ دس ڈالر کا معاوضہ دے کر ریسیپشن سے لوٹا دیا گیا۔ ایک اور دروازہ کھلنے سے پہلے ہی بند ہو گیا، جس نے سڈنی کو شدید پریشانی اور مایوسی سے دوچار کیا، مگر گھر واپسی سے بچنے کے لیے بہرحال یہ پراجیکٹ اس کے کام آیا اور اس امید افزا خبر کو سنتے ہی نیٹیلی نے سڈنی کو اپنا قیام طویل کرنے کی اجازت دے دی۔

نوکری تو نہ ملی مگر سڈنی کی پروفائل میں جلی حروف سے اس کیے گئے کام کا تذکرہ ضرور ہوا، جس سے یونیورسل اسٹوڈیو میں چودہ ڈالر فی ہفتہ کی نوکری ملنا آسان ہوگئی۔ کامیابی شاید دوڑ کر آپ کے پاس نہ آئے مگر آپ کے مستقل اٹھائے چھوٹے چھوٹے قدم آپ کو کامیابی تک لے جا سکتے ہیں۔

ہفتہ وار چیک کی وصولی نے ناصرف معاشی حالت بہتر کی بلکہ اس کے خوابوں کو نیا عزم بھی دیا۔ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسٹوڈیو کی زندگی سے پہلے سے زیادہ پیار کرتا جہاں ساری دنیا کے لیے خواب تعمیر کیے جاتے ہیں۔ رائٹر بننے کی دھن کچھ اور بے تاب ہوئی اور ناول لکھ کر اس اسٹوڈیو کو بیچنے کے ارادے میں کچھ اور اضافہ ہوتا گیا۔ ابھی ان خوابوں کی جڑیں زیادہ گہری نہ ہوئی تھیں کہ امریکا میں پھیلے جنگ عظیم کے مشہور زمانہ ڈپریشن کی وجہ سے یونیورسل اسٹوڈیو بک گیا اور سارا عملہ سڈنی سمیت بے کار ہوگیا۔

کچھ عرصہ آزادانہ طور پر مختلف اسٹوڈیو کے لیے لکھتے لکھتے اسے 20 ویں سینچری فوکس میں پہلے سے بہتر معاوضہ پر ریڈر کی مستقل نوکری مل گئی۔ اسی دوران چوبیسویں سالگرہ پر سڈنی نے قریبی دوست رابرٹس کے تعاون سے چوبیس گھنٹے میں دو کہانیاں لکھیں اور پندرہ سو کے عوض دو مختلف اسٹوڈیو کو فروخت کیں۔ بی کلاس فلمیں کم بجٹ کی چھوٹے پیمانے پر بنائی جانے والی فلمیں تھیں، جن کے چاہنے والے کچھ سستے قسم کے اسٹوڈیوز اور نچلے طبقے کے افراد دیکھنے والے تھے۔ شوبز کی دنیا اس کے اندر آنے کی جگہ دھیرے دھیرے بنائے جارہی تھی۔ اگلے دو سال وہ ریڈر کی نوکری چھوڑ کر بی کلاس فلمیں لکھنے میں مصروف رہا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments