ڈرٹی نیلی کی گیبریلا اور مردوں کی محبت


میں ڈبلن اور آئرش دوستوں میں کچھ اس طرح شامل ہوگیا کہ جلد ہی میں تقریباً آئرش ہی بن گیا تھا۔ مذہبی دوستوں میں رہنے کے باوجود میں کبھی بھی مذہبی نہیں تھا پاکستان میں۔ آئرش دوستوں کے ساتھ میرا شراب خانوں میں آنا جانا بھی تھا اور کھانے پینے کے معاملے میں میں نے کبھی بھی ذبیح یا کوشر کھانا تلاش نہیں کیا۔ شراب میں پیتا تھا اور سور کے سوا ہر قسم کا گوشت کھا لیتا تھا۔ امریکا کو اب میں بھول چکا تھا۔ آئرلینڈ میں رہ کر میں نے آئرلینڈ کی قومیت بھی لے لی تھی اور مجھے پتا تھا کہ جتنا کچھ میں نے پڑھا اور سیکھا ہے اس کے بعد مجھے ہمیشہ نوکریاں ملتی رہیں گی۔ میں سوچتا تھا کہ زندگی کے اب تک کے سفرمیں، میں حیران ہی ہوتا رہا ہوں لہٰذا ہر وقت ہر قسم کے حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

یہ بھی شاید قسمت کا ہی چکر تھا کہ کچھ گھر والوں کے دباؤ کے تحت اور کچھ اپنی تھوڑی سی یہ خواہش بھی کہ واپس پاکستان جا کر جو کچھ میں نے سیکھا ہے اس سے وطن کو فائدہ پہنچاؤں، اس وطن کو جہاں میرا بچپن گزرا، تعلیم ملی اور اس قابل ہوا کہ ملک سے باہر جاسکوں۔ ایک دن میں نے پاکستان واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ڈبلن کے دوستوں نے مجھے بڑی افسردگی کے ساتھ رخصت کیا تھا۔ میرے یہودی گے پروفیسر نے کہا تھا کہ میرے لیے ہمیشہ اس کے پاس جگہ ہوگی۔

کراچی میں سوائے میرے گھر والوں کے کسی کو میری ضرورت نہیں تھی۔ میں نے پی ایچ ڈی کیا تھا، یورپ کی ایک اچھی یونیورسٹی میں پڑھانے کا تجربہ تھا میرے پاس۔ لیکن میرے پاس مناسب سفارش نہیں تھی۔ میں یونیورسٹی، محکمہ تعلیم اور کچھ سیاسی لوگوں کے دفتروں میں ٹھوکریں کھاتا رہا لیکن مجھے کالج میں اور نہ ہی یونیورسٹی میں نوکری ملی۔ پاکستان میں قابلیت کی کوئی قدر نہیں ہے۔ یہاں یہ اہم ہے کہ آپ کا ڈومیسائل کہاں کا ہے، کس پارٹی سے آپ کا تعلق ہے، کن لوگوں کے لیے آپ کام کرتے ہیں، خاص طور پر تعلیمی اداروں میں تو انتہائی نا اہل لوگ اہم جگہوں پر بیٹھادیے جاتے ہیں۔ جس کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی بھی اہل اور قابل شخص نظام میں نہ آنے پائے۔

ماں باپ میری شادی کرنا چاہتے تھے جس کے لیے میں تیار نہیں تھا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ میں آئرلینڈ میں کسی سے کوئی وعدہ کر کے آیا تھا۔ ڈبلن میں کام کے علاوہ میں نے شراب خانوں اور گھومنے پھرنے میں ضرور وقت گزارا تھا لیکن کبھی بھی کسی محبت وحبت کے چکروں میں نہیں پڑا، یہ اتفاق ہی تھا کہ مجھے کوئی ایسی لڑکی ملی ہی نہیں۔ مجھے اپنے کام سے بہت دلچسپی رہی اور اپنے پروفیسر کے تحقیقی چکروں میں بڑا مصروف رہا۔ میرا خیال تھا کہ اسی قسم کا کوئی سلسلہ کراچی میں بھی کرسکوں گا مگر کراچی کے تو مسائل کچھ اور تھے۔

یہاں تو زندہ رہنے کی جدوجہد کرنی تھا، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے حالات دیکھ کر مجھے رونا سا آیا تھا، نہ تعلیم تھی، نہ تربیت۔ سیاسی رشتوں کی بنیاد پر وائس چانسلر سے لے کر پروفیسر اور لیکچرر کی تقرری ہوتی تھی جنہیں تعلیم اور پڑھانے سے زیادہ اپنی نوکری اور مراعات کی فکر رہتی تھی۔ جب قابل کے بجائے دو نمبر لوگوں کی تقرری ہوتی ہے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے جب کراچی میں پڑھنا شروع کیا تھا تو حالات خراب ضرور تھے مگر اتنے خراب تو نہیں تھے اب تو قابل ہونا صرف اور صرف گالی تھی۔ ایسے میں شادی کے بارے میں سوچنے کا بھی وقت نہیں تھا، گھٹن ایسی تھی کہ میں اپنی امی کی اس گھٹن کو نہیں سمجھ سکا جو انہیں میرے اکیلے ہونے کی وجہ سے ہو رہی ہوگی۔ زندگی میں گھٹن کے بھی کیا کیا رنگ ہیں۔

ایسے حالات میں ایک دفعہ پھرمیرے ستاروں نے کوئی سازش کی اور مجھے میرے ڈبلن کے پروفیسر نے فون کرکے کہا کہ اگر میں پاکستان میں خوش نہیں ہوں تو سڈنی یونیورسٹی میں ایک ریسرچ لیکچرر کی نوکری کے لیے درخواست دوں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ میرے مطلب کی نوکری ہے۔

پھر میں سڈنی پہنچ گیا۔ اچھی یونیورسٹی، اچھا تعلیمی ماحول، اچھی تنخواہ، اچھے لوگ، اچھی لائبریری اور اچھی سماجی سرگرمیاں۔ میں جیسے دوبارہ آئرلینڈ آ گیا تھا ایک بدلے ہوئے موسم کے ساتھ۔ اس بار میں نے یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ اب کبھی بھی دوبارہ پاکستان واپس نہیں جانا ہے، وہاں میرے لیے نہ تو کوئی کام تھا اور نہ میں وہاں کوئی کام کر سکتا تھا۔ نہ میں اسلامی تھا، نہ ہی جھوٹ بولتا تھا، نہ ہی میری سیاسی وابستگیاں تھیں، نا میرے تعلقات ان لوگوں سے تھے جو ملک چلاتے تھے اور نا ہی دہری شہری زندگی گزارنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ میری نظر میں تو زندگی بڑی آسانی سے گزرسکتی تھی سادگی کے ساتھ بغیر سازشوں کے۔

ڈرٹی نیلی میں وہ اکیلی ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی اورا پنی ٹیبل پر آنے کا اشارہ کیا۔ اس سے میری پہلی ملاقات یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ میں وہاں کی لائبریری میں ہی بیٹھ کر فزکس سے متعلق مختلف رسالوں سے کچھ تصویر لے رہا تھا جن کی مجھے کسی میٹنگ کے لیے ضرورت تھی۔ اس نے اس سلسلے میں میری مدد کرتے ہوئے کمپیوٹر اور کیمرے کے کنکشن میں خرابی کو دور کرتے ہوئے میری تصویروں کی پرنٹ نکال کر دی تھیں۔ وہ یونیورسٹی کے اینتھروپولوجی کے شعبے میں لیکچرر تھی۔

اینتھروپولوجی بھی ایک دلچسپ شعبہ ہے جو انسانوں اور انسانیت کے بارے میں تعلیم دیتا ہے۔ انسان کہاں سے آئے، کیوں کر آئے، کیسے رہتے ہیں، ایسے ویسے رہتے ہیں تو کیوں رہتے ہیں، یہ کرتے ہیں وہ کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ مضمون ہے انسانوں کی لاکھوں سال پرانی زندگی کے بارے میں، ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے جو سمجھ سے باہر ہیں۔ اس کا نام گیبریلا تھا، یہی نام بتایا تھا اس نے۔

مجھے احمد خان کہتے ہیں۔ ”میں نے جواب دیا تھا۔

احمد خان! اس نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے میرا نام دہراتے ہوئے لفظ خان پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”میں یہاں اینتھروپولوجی پڑھاتی ہوں، مجھے انسانوں سے بہت دلچسپی ہے۔ “ جتنے انسان دلچسپ ہوتے ہیں ویسے ہی ان کا نام بھی دلچسپ ہوتے ہیں۔

وہ مجھے دلچسپ لگی۔ اس کے گورے رنگ میں ایک طرح کا کھردرا اور کھارا پن تھا۔ میں نے سوچا کہ تھوڑی سی معلومات میں اینتھروپولوجی کے بارے میں جمع کر لوں پھر گیبریلا سے بات کرنے میں مزا آئے گا۔ وہ مجھے اچھی لگی تھی۔

میں اس کی ٹیبل پر چلا گیا۔ اس نے مسکرا کر میرا استقبال کیا، وہ گنیز پی رہی تھی جو میری بھی پسندیدہ بیئر تھی جس کی عادت مجھے آئرلینڈ میں لگی تھی۔ وہ اپنے کسی دوست کا انتظار کر رہی تھی، جس کے بعد ان دونوں نے کہیں جانا تھا۔ تھوڑی دیر میں اس کی دوست لیزا بھی آ گئی اور گلاسوں کا ایک ایک دور اور چلا۔ وہ اور لیزا دونوں بچپن کی دوست تھیں اور دونوں ہی کسی تھیٹر میں ایک ڈرامہ دیکھنے جا رہی تھیں، مجھے بھی انہوں نے مدعو کیا مگر چاہتے ہوئے بھی میں نے منع کر دیا کیوں کہ مجھے اپنے اپارٹمنٹ کے لیے کچھ چیزیں لینا تھیں اور اس کے بعد بھی میں مصروف سا تھا۔ یونیورسٹی میں کام شروع ہوتے ہی مجھے ایک اہم پروجیکٹ دے دیا گیا تھا جس کے لیے بہت کچھ بالکل شروع سے کرنا پڑرہا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments